ارشد وحید چوہدری
کہاوت مشہور ہے کہ ایک لومڑی نے انگوروں کی بیل پر انگوروں کے گھچے لٹکے دیکھے تو اس کے منہ میں پانی بھر آیا ،بیل کافی اونچی تھی اس نے انگوروں تک پہنچنے کی بہت کوشش کی،اچھلی کودی لیکن انگوروں تک نہ پہنچ سکی، جب ہر طرح سے ناکام ہو گئی تو کھسیانی ہو کر بولی کہ اونھ یہ انگور تو یوں بھی کھٹے ہیں ان کو کیا کھانا۔ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کی طرف سے دو نومبر کو اسلام آباد لاک ڈاؤن کرنے کے احتجاج کو یوم تشکر میں تبدیل کرنے کا جو جواز پیش کیا گیا اس سے بہت سے لطیفے اور کہاوتیں یاد آ گئیں۔ جب ساری دنیا باور کرا رہی تھی کہ معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچ چکا اب وفاقی دارلحکومت پر دھاوا بولنے کا کوئی جواز نہیں بچتا تو جمہوری حق کا راگ الاپتے ہوئے سنی ان سنی کر دی گئی اور زور بازو پوری طرح آزمانے کے بعد ادراک ہوا کہ سپریم کورٹ نے ’تلاشی‘شروع کر دی ہے اس لئے اب شہر کو بند کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ بھلا ہو وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا جو مروت کے قائل ہیں اور اسکول کے زمانے کی دوستی کا بھرم رکھتے ہوئے انہوں نے سارے قضیے کو کسی کی جیت یا ہارکی بجائے پاکستان کی جیت قرار دے دیا۔ ویسے انہوں نے تو اپنے پرانے دوست کو سبکی سے بچانے کیلئے پس پردہ بھی بہت پیغامات بھجوائے تھے لیکن جہاں ہر وقت کانوں میں قربانی، قصائی ، تھرڈ ایمپائر،دھڑن تختہ، ہن نئیں تے کدی نئیں ، جیسی سرگوشیاں جاری ہوں وہاں عقل و دانش اور فہم و فراست کا کیا کام۔ نتیجہ پیپلزپارٹی کے دور حکومت سے غنڈوں میں پھنسی رضیہ نامی ریاستی رٹ کو بچانے کیلئے بلآخروفاقی وزیر داخلہ کوآئینی ذمہ داری پوری کرنا پڑی اورگزشتہ آٹھ سالوں میں پہلی بار شہریوں کو اپنے حقوق کے تحفظ کیلئے ریاست بھی کہیں کردار ادا کرتی نظرآئی۔ سالہا سال سے مظاہرین کے ہاتھوں پٹتے اور سر پر پاؤں رکھ کر بھاگنے والے پولیس اہلکاروں کا اعتماد بھی بحال ہوا اور انہیں بھی یہ احساس ہوا کہ ان کا بھی کوئی والی وارث ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ ایک جمہوری اور مہذب معاشرے کی طرح اب سب کی نظریں کسی تھرڈ ایمپائر کی طرف نہیں بلکہ عدالت عظمیٰ کی طرف لگ گئی ہیں جہاں الزامات، سیاسی بیانات اور سنی سنائی باتوں کی بجائے دلائل ،ثبوتوں اور ٹھوس حقائق کے ذریعے اپنا سچ سامنے لانا ہو گا۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے قانونی امور بیرسٹر ظفر اللہ واضح کر چکے ہیں کہ حکومت کی قانونی ٹیم عدالت عظمیٰ میں ہونے والی کارروائی کے دوران کوئی قانونی اعتراض داخل نہیں کرے گی بلکہ عدالت سے بھرپور تعاون کیاجائے گا تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے،اب تک کی سماعت کے دوران وزیر اعظم ، وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی طرف سے جواب جمع کرا دیا گیا ہے جس میں تمام الزامات کی نفی کی گئی ہے۔ آج (پیر کو) مقدمے کے اہم فریقین حسن نواز،حسین نواز اور مریم نواز کی طرف سے بھی جواب جمع کرا دیا جائے گا جس کے بعد عدالت عظمیٰ یک رکنی جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کیلئے کارروائی کو آگے بڑھائے گی۔ کمیشن کیلئے سپریم کورٹ تمام فریقین سے ٹی او آر طلب کر چکی،تحریک انصاف اور دیگر درخواست گزار اپنے ٹی او آر جمع بھی کرا چکے ہیں تاہم اطلاعات ہیں کہ شاید حکومت اپنے ٹی او آر جمع نہیں کرائے گی اور اسے عدالتی صوابدید پر چھوڑ دے گی جیسا کہ جناب چیف جسٹس واضح کرچکے ہیں کہ تحقیقاتی کمیشن کے ٹی او آر عدالت عظمیٰ خود طے کرے گی۔ البتہ عدالت عظمی کی معاونت کرنے والے اٹارنی جنرل بھی ٹی او آر پیش کر چکے ہیں۔ یہ پہلو بھی اہم ہے کہ تحریک انصاف کی اتحادی جماعت اسلامی پاناما پیپرز میں شامل تمام پاکستانیوں سمیت قرضہ معاف کرانے والوں کی تحقیقات بھی چاہتی ہے جبکہ حنیف عباسی کے ذریعے حکومت نے عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف درخواستیں دائر کر دی ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا عمران خان اور جہانگیر ترین بھی ان درخواستوں کے قابل سماعت ہونے کو چیلنج نہ کر کے وزیراعظم کی طرح خود کو احتساب کیلئے پیش کرتے ہیں یا نہیں۔ حکومت اور تحریک انصاف کی قیادت کو ذہن نشین ہونا چاہئے کہ ملکی تاریخ کے اس اہم ترین مقدمے کی منصف اگر سپریم کورٹ ہے تو احتساب کی اس ساری کارروائی کے گواہ پاکستان کے عوام ہیں جن کی آنکھوں میں اب کوئی بھی دھول نہیں جھونک سکتا اورجس نے ایسا کرنے کی کوشش کی اس کا حساب عوام آئندہ عام انتخابات میں چکتا کر دیں گے۔ خان صاحب بجا فرماتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے تلاشی شروع کر دی ہے اور یہ اب دینا ہی پڑے گی لیکن کیا وہ اپنے دعوئوں کے مطابق خود بھی تلاشی کے عمل سے گزریں گے کیوں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ڈھونڈا کچھ اورجا رہا ہو لیکن تلاشی کے دوران شہد کی طرح برآمد کچھ اور ہی ہو جائے۔ ن لیگی جسے ؛انصافی شہد؛ کہتے ہیں اس کے موجد لمبے بالوں والے علی امین گنڈا پوربظاہر لحیم شحیم اور کسی فلم کے ولن دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی شہرت کا عالم تو یہ ہے کہ محترم سلیم صافی نے انہیں اپنے پروگرام ’جرگہ‘کی ریکارڈنگ کیلئے بلایا تو خاکسار سمیت دفتر میں موجود تمام افراد نے ایک دوسرے سے سبقت لیتے ہوئے ایسے ان کے ساتھ سیلفیاں بنائیں کہ کبھی ایان علی کے ساتھ بھی نہیں بنوائی ہوں گی۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹس پربھی ان کے’شہد ‘ کو اتنی پذیرائی حاصل ہوئی کہ کوئی ان سے ’خالص‘ ہونے کا نسخہ دریافت کرتا نظر آیا تو کوئی ان سے گنڈا پوری شہد کا تحفہ مانگتا دکھائی دیا۔تحریک انصاف کے صوبائی وزیر یقینا اس شہدکی افادیت سے بخوبی واقف ہوں گے اور انہیں معلوم ہو گا کہ یو ایس ڈیپارٹمنٹ آف ایگریکلچر کے مطابق شہد کے ایک چمچے میں 64 کیلوریز ہوتی ہیں جس میں 3۔17 گرام کاربوہائیڈ یٹس، اسی مقدار میں بغیر فائبر کے شوگر موجود ہوتی ہے جبکہ فیٹس اور پروٹین بالکل نہیں پائی جاتی۔ امیتابھ بچن کہتے ہیں کہ ایک بار انہوں نے اپنے والد سے پوچھا کہ لتا دیدی کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ لتا کی آواز شہد کی تار کی طرح ہے جو کبھی ٹوٹتی نہیں۔ گنڈا پورصاحب تو یہ بھی جانتے ہوں گے کہ شہد کی مکھیاں کس طرح جانفشانی سے روزانہ دو ہزار پھولوں اور پھلوں کا رس کشید کر کے شہد تیار کرتی ہیں۔ڈیلی ٹیلی گراف کے مطابق برطانوی معیشت میں شہد کی مکھیوں کا حصہ 65کروڑ پاونڈز سالانہ ہے جو کہ برطانیہ کے شاہی خاندان کے مقابلے میں 16 کروڑ پاونڈ زیادہ ہے جو وہ سیاحت کو فروغ دینے کے اقدامات کر کے معیشت کیلئے حاصل کرتے ہیں۔ گنڈا پورصاحب نے بھی اسی قدرو قیمت کو دیکھتے ہوئے سوچا ہو گا کہ اسلام آباد لاک ڈاؤن کرنے میں ممکنہ ناکامی کی صورت میں جب انگور کھٹے لگیں گے تو منہ ’میٹھا ‘کرنے کیلئے ’ شہد‘ سے بہتر کوئی نعم البدل نہیں ہوسکتا لیکن ان سے گزارش ہے کہ آئندہ اس ’ شہد‘کیلئے بوتل کوئی اور استعمال کریں تاکہ ’شہد ‘کی اتنی بے قدری نہ ہو۔