عظیم ملک میں نا پُرسائی
تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی
نئی سرکار کو اقتدار میں آئے لگ بھگ دیڑھ سال کا عرصہ ہونے کو ہے۔ اس سے پہلے ارسٹھ برسوں تک مرکز اور صوبوں میں تقریباً ہر سیاسی پارٹی کی حکومت رہی ہے۔ اس کے باوجود ملک میں ہر الیکشن میں بنیادی مُدعا بجلی، پانی، سڑک اور بد عنوانی بنتا ہے۔ جن مسائل کو آزادی کے پانچ سال کے اندر حل ہو جانا چاہیئے تھا وہ مسائل آج بھی ویسے کے ویسے ہی ہیں ۔ پانچ سال کے بعد جب الیکشن آتا ہے تو پھر وہی مسائل دوبارہ بنیادی نکات میں سامنے آ جاتے ہیں۔ سوال اتنا ہی نہیں ہے ، اس سے آگے کا سوال یہ ہے کہ ہر گزرتا ہوا سال حالات خراب کرتا جاتا ہے۔ ہر گزرتے ہوئے سال میں بجلی کی پیداواری صلاحیت گھٹتی جاتی ہے، پانی کی عدم فراہمی شدید ہوتی جاتی ہے، سڑکیں ٹوٹتی جاتی ہیں اور بدعنوانی بڑھتی جاتی ہے۔ اوپر سے سونے پر سہاگہ کہ دہشت گردی کی جڑیں مضبوط تر ہوتی جاتی ہیں۔انسانی جانوں کا پُرسانِ حال کوئی نہیں ۔ یہاں سب سے سستا انسانی جان ہی رہ گیا ہے۔ جو بھی پارٹی اقتدار میں آتی ہے ، الیکشن کے بعد سب سے پہلے انہیں مسائل کو اپنی ترجیحات سے ہٹا دیتی ہے۔ یہ ہر پارٹی کے اوپر لاگو ہوتا ہے اور یہ راز سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔
دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں بدعنوانی کے علاوہ باقی مسئلے حل کرنے پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا ہے، لیکن ہمارے ملک میں انہیں سب سے زیادہ اندیکھا کیا جاتا ہے۔ جرمنی کی مثال ہے: پوری جرمنی کی گندگی لے کر راٹر ڈیم شہر کے پاس رائن ندی سمندر میں ملتی ہے اور یہ ندی پینے کے پانی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ لیکن رائن ندی کے پانی کو صاف کرکے ہر گھر میں پانی دینا سرکار کی ترجیحات میں شامل ہے اور حکومت برسوں سے یہ کرتی چلی آ رہی ہے اور آج بھی رائن ندی کے پانی سے صاف کیا ہوا پانی دنیا کے سب سے بہتر پیمانوں پر کھرا اُترتا ہے۔ ہمارے ملک میں ہر حکومت نے وہ سارے کام کیئے جن سے پیسے آئیں۔ کم از کم پچھلے پانچ سال یا پچھلے دس یا پھر بیس سال کا تو یہی قصہ ہے۔ لیکن کسی بھی حکومت نے بنیادی ضروری مسائل پر دل سے کام نہیں کیا ۔ بجلی، پانی اور سڑک کے اوپر کام نہیں کیا گیا۔ اعلانات تو بڑے بڑے ہوتے ہیں مگر کاروائی اور ترقی دیکھنے میں نہیں آتی۔بوسیدہ تعلیمی نظام میں کوئی بہتری نظر نہیں آتی، امن و امان ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے، لوگوں کی جان و مان تک محفوظ نہیں ہے، روزگار نہ ہونے کے برابر ہے، حکومت چاہے مرکزی ہو یا صوبائی کہیں بھی ایسے بنیادی سوالوں کی فکر مندی کے موضوع نہیں رہے۔ لیکن ترجیحات میں سارے ایسے پروجیکٹ آئے، ان میں پیسے خرچ ہوئے اور یہ بلا شبہ آسانی سے کہا جا سکتا ہے کہ ان میں پیسہ سیدھے راشی افسران کی جیب میں گیا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ رشوت مت لیجئے؟ آپ رشوت لیجئے جناب، کیونکہ کہ رشوت کو تو ہمارے رہبران اور خاص کر افسروں نے ہمارے ملک کی شریانوں میں گھول دیا ہے لیکن کچھ توکام عوام کے لئے کیجئے؟کچھ تو ایسے کام کیجئے، جن سے لوگوں کی زندگی میں بہتری آئے۔
اور اس سے بھی مزیدار بات یہ ہے کہ اب تو ایسی ایسی ٹیکنالوجی آگئی ہے کہ جس سے بجلی کی پیداوار کوبہتر کیا جا سکتا ہے، کہیں اخبار میں پڑھا تھا کہ ہمارے برادر ملک چین نے سستی بجلی بہم پہنچانے کی بھی آفر کر رکھی ہے لیکن ادارے اس سے فائدہ حاصل نہیں کرنا چاہتیں؟ وجہ صاف ہے کیونکہ اس طرح کی فائدہ مند طریقوں سے عوام کو تو سہولت میسر آ سکتا ہے لیکن ان کی جیب میں پیسہ نہیں پہنچتا۔ اور چونکہ انہیں فائدہ نہیں ہوتا اس لئے ایسے معاملات اور مسائل ان کی ترجیحات میں نہیں ہوتے۔ وفاقی سطح کے وزیروں کے بارے میں کیا کہوں؟ خود وزیر توانائی کے محکمہ میں زور و شور دیکھنے میں آتا ہے کہ ٢٠١٨ء سے پہلے لوڈ شیڈنگ ختم کر دیا جائے گا؟ اکثر ملکوں میں آج کل شمسی توانائی سے بھی بجلی حاصل کی جا رہی ہے تو ہمارے ملک میں شمسی توانائی سے ملک کی بجلی کی ضرورت کیوں پوری نہیں ہو سکتی، کیونکہ ہمارے یہاں بھی پانی کی قلت ہے، اور کوئلہ سے بجلی حاصل نہیں کر رہے؟ اوپر سے وزیر توانائی شہرِ قائد کو ملنے والی بجلی کے حصے میں بھی کٹوتی کے خواہاں ہیں۔وزیر توانائی صاحب! جاگیئے؟ شمسی توانائی کے پروجیکٹس کو ترجیح دیجئے یا پھر اس معاملے میں بھی یہی دیکھا جائے گا کہ کون سا پروجیکٹ کتنا پیسہ بہم پہنچاتا ہے۔
یہ سوال بالکل سیدھے ہیں اور اِن سیدھے سوالوں کو حل کرنا وفاقی حکومت کے لئے نہایت ضروری ہے۔ اگر وہ مرکز کی سطح پر اور صوبائی سطح پر تال میل قائم نہیں کریں گے اور مرکز اور صوبوں کو موٹی ویٹ نہیں کریں گے، تو ان کا یہ پورا پانچ سال کا دور بھی وعدوں کا دور رہ جائے گا، کیونکہ کہ ملک میں آج بھی سڑک، بجلی، پانی، امن و امان ، روزگار کی کی حالت ویسی ہی ہے جیسی کہ پہلے تھی۔ کیا آپ بھی چاہتے ہیں کہ پچھلے دورِ حکومت کی طرح ملک میں کوئی تبدیلی نہ آئے۔
ہمارے ملک میں ہمارا آئین موجود ہے جس کی رُو سے عوام کو ہر قسم کی اقتصادی، مذہبی اور سیاسی آزادی و حقوق کو تسلیم کیا گیا ہے، ملک کو جمہوری خطوط پر گامزن رکھنے کا تہیہ کیا گیا اور اس حقیقت کو بھی متفقہ طور پر قبولیت حاصل ہوئی کہ ملک کے تمام تر طبقات کی ہر شعبے میں برابری ، مساوات اور ترقی میں ہی ملک کی مجموعی ترقی و متقدم کا راز مضمر ہے۔ یہ تو ایک ظاہری فضا تھی ، مگر اس کے ساتھ ساتھ آزادی کے بعد ہی سے جمہوریت مخالف اور اس کی بنیادوں پر ضربِ کاری لگانے والی طاقتیں بھی مسلسل برسرِ پیکار رہی ہیں اور اب تک کی ارسٹھ سالہ پاکستانی تاریخ کا یہ ایک المناک سچ ہے کہ شعوری یا غیر شعوری طور پر پاکستانی حکومتیں بھی جمہوریت کے مکمل نفاذ میں ناکام رہی ہیں۔آج پاکستان ایک جمہوری ملک کے طور پر جانا جاتا ہے، جس کے بارے میں یہ تصور قائم ہے کہ یہاں کے تمام تر باشندوں کو جملہ شعبوں میں تمام تر حقوق حاصل ہیں اور وہ محفوظ بھی ہیں، مگر اندرونی صورتحال جن حقائق کی نشاندہی کرتے ہیں، وہ چونکاتے بھی ہیں اور اُن سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ پاکستانی جمہوریت کی بنیادوں میں روڑے اٹکائے جاتے ہیںاور اس پر عمل آوری بھی اُسی تیزی سے جاری و ساری ہے۔ جو یکبارگی ہی سامنے نہیں آ گیا ہے ، یہ مغربی سازشوں کے ساتھ ہماری مسلسل کوتاہیوں کا منطقی نتیجہ بھی معلوم ہوتا ہے۔اگر ایسا ہے تو اس کا سدِباب کون کرے گا؟
وزیراعظم صاحب! اور وزراء صاحبان! سائنس بہت آگے بڑھ گیا ہے۔ٹیکنالوجی دستیاب ہے، تو پھر دیر کیوں؟ اس ملک کے باسیوں کو ضرورت ہے امن و امان کی، موت بانٹنے والوں پر قدغن کی، شاہراہوں کی، سڑکوں کی، بجلی ، پانی اور روزگار کی، تعلیم کی، مہنگائی پر کنٹرول کی۔ یہی چند ضروری اور لازمی مسائل ہیں جن پر آپ نے قابو پا لیا تو آپ کامیاب رہیں گے ورنہ تو اقتدار پہلے بھی لوگوں تک آتا رہا ہے اور آتا رہے گا مگر عوام وہیں کے وہیں کھڑے تھے اور کھڑے رہیں گے۔
مجھے یقین ہے کہ اس ملک کے لوگوں کوابھی بجلی، پانی اور سڑک کی قلت جھیلنی پڑے گی اور یہ شاید اس ملک کی تقدیر ہے کہ ہم جسے بھی چُنیں گے ، وہ بدعنوانی کے دریا سے نئی نہر نکالنے کا منصوبہ بنائے گا۔ بدعنوانی ختم کرکے لوگوں کو بجلی، پانی، امن و امان اور دوسرے لازمی مسائل حل کب اور کون کرائے گا اس کا انتظار ہمیں بھی ہے اور آپ سب کو بھی ہوگا تو پھر انتظار کیجئے؟
تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی