اسلام آباد (تحریر ؛اصغر علی مبارک سے )آئرن مین گول کیپر پاکستان کو ورلڈ کپ جتوانے والے سابق عظیم پلیئر منصور احمد کو کراچی کے مقامی قبرستان میں سپردخاک کردیا گیا۔سابق عظیم پلیئر منصور احمد میرے چند عزیز دوستوں میں سے ایک تھے جنکی شادی جب اسلام آباد میں ہوئی تو اسکے انتظامات کی ذمداری بھی ادا کی اور کی ممالک کا اکھٹے وزٹ کیا انتہا کے ملن سار ہردل عزیز ،انسان دوست شخصیت تھے ، سابق عظیم پلیئر منصور احمد کو سب گھر والے بھائی کہہ کے پکارتے تھے ،انکی خوائش تھی پاکستان ہاکی میں نمبرون بنے ،پاکستان کو ہاکی ورلڈ کپ 1998 اور چیمپیئنز ٹرافی جیسے بڑے اعزازات جتوانے والے سابق کپتان اور مایہ ناز گول کیپر منصور احمد دل کے عارضے کا شکار تھےاور گزشتہ روز کراچی کے مقامی ہسپتال میں دم توڑ گئے تھے۔
ہاکی کے اس عظیم سپوت کی نمازہ جنازہ کراچی کے علاقے ڈیفنس میں واقع سلطان مسجد میں ادا کردی گئی جس میں ہاکی، کرکٹ اور دیگر کھیلوں سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات نے شرکت کی۔منصور کی نماز جنازہ میں پاکستان ہاکی فیڈریشن(پی ایچ ایف) سیکریٹری شہباز احمد، اولمپیئن اصلاح الدین، کامران اشرف، حیدر حسین، سابق کرکٹر شاہد آفریدی، جلال الدین، سلیم جعفر اور اقبال محمد علی، وسیم فیروز، شاہد علی خان، محمد علی سمیت سابق ہاکی کھلاڑی بھی موجود تھے۔زندگی کے آخری چند سالوں میں معاشرے اور حکومت کی بے حسی کا سامنا کرنے والے منصور احمد کی نمازہ جنازہ میں بھی کسی حکومتی عہدیدار نے آنے کی زحمت گوارا نہ کی اور وفاقی و صوبائی حکومت کا بھی کوئی نمائندہ جنازہ میں شریک نہ ہوا۔اولمپیئن اصلاح الدین اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رہنما عامر خان نے منصور احمد کو عظیم کھلاڑی قرار دیتے ہوئے کہا کہ منصور احمد جس ستائش اور عزت کے مستحق تھے اس سے محروم رہے۔اس موقع پر شاہد آفریدی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ منصور احمد کے انتقال کا افسوس ہے، منصور بہت بڑا نام ہے، انہوں نے قوم کو بہت خوشیاں دیں مگر ہم نے اس کی قدر نہیں کی شاہد آفریدی نے نماز جناز میں کسی بڑی شخصیت اور سلیبرٹی کی غیرموجودگی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہی کچھ کسی اور ملک میں ہوتا تو سوشل میڈیا بھرا ہوتا جبکہ سیاست دانوں اور حکومتی عہد داران کو بھی آنا چاہیے تھاایک سوال کے جواب میں شاہد آفریدی نے کہا کہ آج منصور کی نماز جنازہ کے لیے آیا ہوں لیکن اب سوچوں گا کہ منصور احمد کے لیے کیا کر سکتا ہوں۔خیال رہے کہ منصور احمد کو ڈیڑھ سال قبل دل کا عارضہ لاحق ہوا تھا اور انھوں نے 22 اپریل کو بھارت جا کر ٹرانسپلانٹ کرانے کے لیے ویزے کی درخواست دی تھی، تاہم طبیعت کی ناسازی کے باعث ڈاکٹروں نے انھیں سفر کرنے سے منع کیا تھا۔1968 کو کراچی میں پیدا ہونے والے سابق قومی کپتان منصور احمد نے 1985 میں اپنا پہلا جونیئر ورلڈ کپ کھیلا جہاں سے ان کی کامیابیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔1986 میں پاکستان کی سینئر ٹیم کے لیے منتخب ہوئے اور ایشین گیمز میں سلور میڈیل حاصل کیا، مرحوم منصور احمد نے 14 سالہ کیریئر میں 338 انٹر نیشنل میچز میں پاکستان کی نمائندگی کی۔منظور احمد نے ہاکی میں بے شمار اعزازات حاصل کیے، 1988 میں انہیں صدارتی ایوارڈ جبکہ 1994 میں تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔مرحوم منصور احمد نے 3 مرتبہ اولمپکس اور عالمی مقابلوں میں نمائندگی کا اعزاز حاصل کیا اور 1990 کے عالمی کپ میں سلور اور 1994 کے عالمی کپ میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔انہوں نے 1990 کے ایشین گیمز میں گولڈ میڈل جبکہ 1992 کے اولمپکس میں کانسی کا تمغہ حاصل کیا، اس کے علاوہ انہیں 4 مرتبہ دنیا کے نمبر 1 گول کیپر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔