تحریر: سلطان حسین
یہ 23 اکتوبر 1946 کی بات ہے جب ایک پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر نئی ائیر لائن کا وجود سامنے آیاابتدائی طور پر کلکتہ میں اورینٹ ایئرویز لمیٹڈ کے نام سے یہ رجسٹرڈہوئی’ چیئرمین ایم اے اصفہانی بنے جنرل منیجر کے طور پر کارٹرنئی ورک سامنے آئے اور اس کا بیس کو کلکتہ کو بنا دیا گیا آپریٹنگ لائسنس مئی 1947 میں حاصل کیا گیاچار ڈگلس DC-3S طیارے فروری 1947 میں ٹیکساس کے ٹیمپو سے خریدے گئے اور آپریشن کے لیے 4 جون 1947 کا انتخاب کیا گیا اورینٹ ایئر ویز ‘آپریشنل آغاز کے دو ماہ کے بعد پاکستان وجود میں آگیا پاکستانی ہوا بازی کی صنعت اورینٹ ایئر ویز سے شروع ہوئی جسے بعد میں پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کار پوریشن کے ساتھ ضم کر دیا گیا۔
یہ کہانی اتنی سادہ بھی نہیں ہے ۔اورینٹ ایئر ویز، جس کو حکومت پاکستان کی طرف سے چارٹر گیا تھا BOACطیاروں کی مدد کے ساتھ ساتھ، امدادی کاموں اور دہلی اور کراچی، دونوں دارالحکومتوں کے درمیان لوگوں کی نقل و حمل کے لئے شروع کر دیاگیاصرف دو DC-3S ، جہازاور اس کے عملہ کے تین اراکین، اور بارہ میکینکس کیساتھاس کنکال بیڑے کا آغاز کیا گیا اورینٹ ایئرویز ایک پریوں کی کہانی کی طرح ہے اس کے شیڈول کی کارروائیوں کا آغازہوا ”ابتدائی راستے کراچی لاہور پشاور، کراچی، کوئٹہ، لاہور اور کراچی سے دہلی کلکتہ ڈھاکہ تھییہ سلسلہ 1949 کے آخر تک جاری رہا 1950 میںینٹ ایئر ویزنے DC-3S دس اور Convair 240s کے تین مزید طیارے خریدے تاکہ اس اضافی صلاحیت سے برصغیر کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کیا جاسکے اور ینٹ ایئر ویز محدود سرمائے اور وسائل کے ساتھ، ایک نجی ملکیتی کمپنی تھی۔
اس سے توسیع کی توقع نہیں کی جا سکی تھی جس کی وجہ سے حکومت پاکستان نے ایک سرکاری ایئر لائن بنانے کا فیصلہ کیا اور نئی پاکستانی ائیر لائن کے ساتھ اورینٹ ایئر ویز کو ضم کرنے کی دعوت دی اس صورتحال کے پیش نظر 10 جنوری 1955 کو پی آئی اے سی( پاکستان ائیر لائن کارپوریشن) کا آرڈیننس جاری کیا گیا آپریشنل سرگرمیوں کے علاوہ اورینٹ ایئر ویز نے اور ہالنگ اور مرمت کی سہولیات کا مرکز قائم کیا اور پائلٹوں، انجینئرز اور تکنیکی ماہرین کی کھپ تیار کی جانے لگی اس ابتدائی مرحلے کے دوران یہ پی آئی اے کے لیے ایک عظیم اثاثہ ثابت ہوئے اور1955 میں پاکستان ائیر لائن نے مقابلے کے دوڑ میں شامل ہونے کے لیے بین الاقوامی پروازیں قاہرہ ‘روم اور لندن کے لیے شروع کیںمسٹرا یم اے اصفہانی اس وقت کی اس متحرک ایئر لائن کے پہلے چیئرمین اور پہلے منیجنگ ڈائریکٹر، ظفر الحق احسن تھے جنہوں نے اپنے 4 سالہ دور میں اس ائیر لائن کو ترقی دی کے بام عروج تک پہنچایا 1959 میں حکومت نے پی آئی اے کے منیجنگ ڈائریکٹر کے طور پر ایئر کموڈور نور خان کو مقرر کیاان کی بصیرت افزا قیادت کے ساتھ، پی آئی اے ‘چھٹی بڑی ائیرلائن بن گئی اور چھ سال کے مختصر عرصے کے اندر اندر، دنیا کی صف اول کیریئرز میں سے ایک قد آور حیثیت حاصل کر لی۔
ہوا بازی کے حلقوں میں اس مدت کو اکثر پی آئی اے کے ”سنہری سال”کے طور پر حوالہ دیاجاتا تھا1962 میںپی ائی اے نے اپنے لیے بین الاقوامی حالات سازگار بنانے کے لیے لندن اور کراچی کے درمیان تیز ترین پرواز کا ریکارڈ توڑااور چھ گھنٹے،43 منٹ 51 سیکنڈ میں مسلسل پرواز کا ایک ریکارڈقائم کیا پی آئی اے وسط ساٹھ کی دہائی میں پاکستان میں ایک گھر کا نام بن گیا 1965 کے بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ میںقومی ایئر لائن کا ایک اور تجربہ کیا گیاپی آئی اے کے بوئنگ، سپر برج، اور Viscounts استعمال کرتے ہوئے خصوصی پروازوںسے کام لے کر مسلح افواج کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیاگیااور بابائے قوم کی پاکستان میں خاص حالات میں ایک سول ایئر لائن کی ائیرفورس کی پیشن گوئی درست ثابت کی پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائن جب قائم ہوئی تو اس کا سلوگن تھا ”باکمال لوگ لاجواب سروس ” اور اس سروس نے واقعی لاجواب سروس فراہم کی جب تک یہ سیاسی اثرو رسوخ سے آزاد تھی۔
لیکن جب اس میں سیاست کا عمل دخل شروع ہوا تو اس کی منیجمنٹ ”باکمال ” بن گئی اور حکمرانوں کے ساتھ مل کر اس کی تباہی میں کوئی کسر نہ چھوڑی جس کی وجہ سے اس ادارے نے تنزلی کا سفر شروع کر دیا باکمال لوگ لاجواب سروس سلوگن پی آئی کا طورہ امتیاز تھا اٹھائیس ممالک میں یہ ملک کا منافع بخش ترین ادارہ اور ملک کی وقار کی علامت تھا لیکن بیس ممالک کی ائیرلائن کو کامیاب بنانی والی یہ ائیرلائن آج خود ناکام ثابت ہورہی ہے اوردلدل میں دھنسی ہوئی ہے یہ اس حالت تک پہنچی کیسے یہ بھی ایک المناک کہانی ہے بام عروج حاصل کرنے والی پی آئی اے جب سے چہتوں کو نوازنے کا ذریعہ بنی تو اس نے اس ادارے کو گنگال کر دیا اس ادارے کی 58 فیصد فلائٹس اندورن ملک اور 42 فیصد فلائٹس بیرون ملک پرواز کرتی ہیںصرف چالیس طیاروں کے لیے چودہ ہزار سے زائد ملازمین بھرتی کئے گئے ہیںستم ظریفی کا عالم یہ ہے۔
کہ ایک ایک پرواز کے لیے 700 ملازمین تعینات ہیںجس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ ادارہ آج 320 ارب روپے کا ناہندہ ہے رواں برس اس ادارے کو 27 ارب روپے گذشتہ برس 32 ارب پچاس کروڑروپے اوراس سے قبل ساڑھے 44 ارب روپے خسارے کا سامنا کرنا پڑا پچھلے دوبرس میں 22 ارب روپے جاری کرنے کے باوجود حکومت اس ڈوبتے ہوئے واپڈا کی طرح سفید ہاتھی کو بچانے میں ناکام رہی سیاسی بھرتیوں ‘اضافہ عملے کی تعیناتیوںاور بدعنونیوں نے اس ادارے کو مالی طور پر محتاج بنادیا بدعنونیوں ‘بے ضابطگیوں اور قرباپروری کا اس سے بڑا کیا ثبوت ہوگا کہ پی آئی اے اور سی ا ے اے بورڈ آف ڈائریکٹر کے اندر ابھی سیاسی تعیناتیاں کی گئیں ہیں بورڈ آف ڈائریکٹر ز میں ہر شعبے میں اس شعبے کے ماہرین کو تعینات کرنے کی بجائے من پسند لوگوں کو نوازا گیا ہے جس میں کچھ سیاسی افراد کچھ بینکر اور کچھ پراپرٹی مافیا والے ہیں جبکہ اس میں بیوروکریٹس بھی ہیں۔
آڈٹ رپورٹ میں بھی اس ادارے کی ہوش ربا بے ضابطگیوں کا انکشاف کیا گیا ہے بیرون ملک جس میں مختلف اسٹیشن جس میں پیرس’لندن اور ٹوکیو کے اسٹیشن شامل ہیں ان پر ایک ارب 31 کروڑ روپے بے ضابطگیوں کی نذر ہوگئے 86 کروڑ روپے صرف ایک مانچسٹر کے اسٹیشن پر خلاف ضابطہ خرچ کئے گئے دس کروڑ روپے کا سامان رولز کے خلاف خریدا گیا کارپوریشن کو دوکروڑ روپے محض اس لیے دینا پڑ گئے کہ کارپوریشن کے عملے کی غفلت سے مسافروں کاسامان گم ہوا’ اسی طرح عملے کے لیے پوسٹ پیڈ کنکشن کی خریداری پر ایک کروڑ روپے ساٹھ لاکھ روپے اڑائے گئے اور مسافروں کی تفریح کے لیے خریدی گئی فلموں پر 63 لاکھ روپے اس طرح لٹائے گئے جیسے یہ ان کے دادا جی کا خزانہ ہو ۔۔
بدعنوانیوں کی یہ داستان 57 ارب روپے تک پہنچ رہی ہے اس کارپوریشن میں بدعنوانیوں کی حالت یہ ہے کہ” باکمال” لوگوں کی ان خدمات کی وجہ سے 104 منافع بخش روٹس دوسری ائیرلائنز کو دے دئیے گئے اور اب نجکاری کے لیے فضا ساز گار بنانے کے لیے 59 انٹرنیشنل اور سترہ مقامی روٹس صرف ایک نجی ائیر لائن اتحاد ائیرلائن کے حواے کر دئیے گئیحکومت کے پاس اب ان سرکاری اداروں سے راہ نجات کا آسان فارمولا سبیسڈیز گرانٹس اور قرضے رہ گئے ہیں جس سے ان اداروں کی حالت مزید بگڑگئی اب حکومت اس کی نجکاری میں لگی ہوئی ہے خود قرضوں پر چلنے والے ملک کے سالانہ بجٹ میں 500 ارب روپے صرف ان سرکاری اداروں کی سبسڈی کے لیے رکھا جارہا ہے 2008 سے 2013 تک آٹھ قومی اداروں کا مجموعی خسارہ 25 کھرب روپے تھا حکومتی لوگوں کا دعوی ہے کہ حکومت پی آئی اے کی بہتری کے لیے آخری آپشن کی طرف بڑھ رہی ہے۔
مگر ملازمین اسے معاشی قتل سے قرار دے رہے ہیں ملازمین جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے زیر اہتمام احتجاج کر رہے ہیں مطالبہ صرف یہ ہے کہ پی آئی کی نجکاری کسی بھی صورت قبول نہیں ہے چند دن قبل حکومت نے ملازمین سے مذاکرات کے بعد نہ صرف نجکاری چھ ماہ کے لیے موخر کر دی بلکہ ساتھ یہ یقین دہانی بھی کرادی کہ کوئی ملازم بے روزگار نہیں ہوگا مگر ملازمین نے ہڑتال اور آپریشن بند کرنے کی دھمکی دے ڈالی معاملات اس وقت مزید بگڑ گئے جب حکومت نے احتجاج ‘ہڑتال اور تالہ بندی کا حل پی آئی اے لازمی سروس ایکٹ سروس کے ذریعے سلب کر لیاایکٹ کے نفاذ سے ہڑتالی ملازمین کو برطرف کیا جاسکے گا انہیں ایک سال قید بھی دی جاسکے گی جس کے خلاف ملازمین سراپا احتجاج ہوگئے فلائٹس آپریشن کی بندکر دی گئی اور احتجاج میں میں تین افراد جاں بحق ہوگئے ہیں ملازمین کے احتجاج پر گولی چلنے پر جہاں ایک طرف وفاق سے جواب مانگا جارہا ہے وہاںرینجرز اور پولیس کے انکار کے بعد کسی ”دوسرے ”کا کھوج بھی لگایا جارہا ہے۔
اپوزیشن پارٹیز اس ایشو کو کیش کرنے میں لگی ہوئی ہیںاور وہ ملازمین کے شانہ بشانہ کھڑی ہوگئی گئی ہیں پیپلز پارٹی پی آئی اے کو اپنی شاہی سواری سمجھ رہی ہے جس کے با عث یہ ادارہ من پسند لوگوں کو نوازنے کا ذریعہ بن رہی ہے جبکہ طرف مسلم لیگ نون کا مزاج سرمایہ دارانہ ہے وہ اس ادارے کو اپنے من پسند سرمایہ داروںکو مزید دار مالدار بنانے کے لیے اسے اونے پونے داموں دینے کی تیاری کر رہی ہے جہاں تک ملازمین اور منیجنٹ کا تعلق ہے وہ اسے اپنی پراپرٹی سمجھ رہے ہیں اور ہر قسم کی مراعات لینے کو اپنا قانونی حق تصور کر رہے ہیں قارئین یہ وہ حالات ہیں جس کی وجہ سے کارپوریشن تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہے اس کارپوریشن کو کیسے دوبارہ قومی ادارہ بنایا جاسکتا ہے یہ حکومت بھی جانتی ہے اور سیاست دان بھی پی آئی اے کے ملازمین ہوں یا منیجمنٹ انہیں بھی یہ معلوم ہے لیکن سب اپنے اپنے مفادات کے اسیر ہیں اس لیے اس ادارے کی بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آرہی ہے یہ تب ہی دوبارہ پہلے کی طرح فعال ہوگی جب سب سٹیک ہولڈر اپنا اپنا قومی فرض سمجھ کر اس کو فعال بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
تحریر: سلطان حسین