تحریر : حافظ جاوید الرحمان قصوری
قوم 16 دسمبر کو وطن عزیز کے دو لخت ہو نے کا سوگ منا رہی ہے بلاشبہ اس دن کا سورج ہمیں شرمندگی اور پچھتاوے کا احساس دلاتے ہوئے نمودار ہوتا ہے اور ہمیں آئندہ کے لئے بھی اپنے مکا ر دشمن ہندوستان کی ایسی ساز شوںسے ہوشیار رہنے اور ان سازشوںکا بر وقت توڑ کرتے رہنے کی تلقین کر تا بھی نظر آتا ہے جو 16دسمبر 1971کو پاکستان کے ایک بڑے حصے کو ہم سے جدا ہونے کا با عث بنی تھیںاور اس وقت کی بھارتی زنانی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو یہ بڑ مارنے کا موقع ملاکہ آج ہم نے مسلمانوںسے اپنی ہزار سالہ غلامی کا بد لہ لے لیا ہے۔ دنیا کے زیادہ تر ممالک کی تاریخ جنگوںکے واقعات اور شکستوںکی کہانیوںسے بھری پڑی ہے اگرچہ ہر قوم اپنی فتوحات پر فخر محسو س کرتی ہے شکست ان کے ذہنوںپر نا قابل فراموش نہایت تکلیف دہ اثرات چھوڑ تی ہے اور اس قوم پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ذلت کا داغ لگ جاتا ہے بد قسمتی سے ہماری ملکی تاریخ میںکوئی بھی قابل ذکر اور قابل فخر فتح نہیںہے 16دسمبر 1971کی ذلت امیز شکست اور ڈھاکہ کے پلٹن میدان میںہتھیار ڈالنے کا واقع ہماری المناک شکست کا بد ترین واقع ہے ۔تاریخ یہی بتاتی ہے اس تاریخ پر ذیادہ عرصہ نہیںگزرا کہ ملک توڑنے میںزیادہ حصہ پاکستانیوںکا تھا۔
بعض سیاست دانوں کی ناپاک ملی بھگت نے43 برس قبل یہ ملک توڑدیا بر صغیر کے مسلمانوںکو ایک ایسی ٹھیس لگی کہ جس کی کسک ہمیشہ محسوس ہوتی رہے گی ہندوستان کے مسلمانوںنے اعلان کیا کہ اب ہمارا محافظ کو ئی نہیںرہا ۔ہمیںاب خود اپنی طاقت پر جینا اور زندہ رہنا ہے لیکن پاکستان کے مسلمانوںنے اس شکست سے کو ئی سبق نہیںسیکھا ۔بد قسمتی سے پاکستان کو اللہ نے ایسے حکمران عطا کیے جن کو صرف اور صرف اقدار کی فکر ہوتی ہے وہ اس فکر میںرہتے ہیںکرسی بچی رہے ملک کا چاہے خانہ خراب ہو جائے سیاستدانوںنے اقدار کی خاطر اس ملک کو دو حصوںمیںتقسیم کیا ہے یہ بات درست ہے کہ بھارت اور دوسرے ممالک نے پاکستان تو ڑنے میںاہم کردار ادا کیا لیکن جب اندر انتشار ہو گا تو دوسروںکو تو موقع ملے گا ہی میںنے ایم اے ہسٹری کمیںپڑھا مجیب الرحمن نے اکثریت حاصل کی تھی اگر بھٹو اقتدار کے اس قدر دیوانے نہ ہوتے۔
مجیب الرحمن کو حکو مت بنانے کی دعوت دے دی جاتی تو ملک بچ سکتا تھا ۔ملک توڑنے میںبھٹو کی ہٹ دھر می نے اہم رول ادا کیا اور اس نے مینارپاکستان پر جلسے میںکہا جو منتخب نمائند ہ مشرقی پاکستان جائے گا میںاس کی ٹانگیںتوڑ دوںگا سوال یہ پیدا ہوتا ہے قیام پاکستان کے وقت لاکھوںکی تعداد میں قربانیاںپیش کرنے والے غدارتھے بھٹو خو د اپنی کتاب ”عظیم المیہ”میںلکھتے ہیںکہ ہم 21مارچ 1971 کی سہ پہر چار بجے ڈھاکہ پہنچ گئے تھے ہمارے طیارے کو ایمر جنسی لینڈنگ کرنا پڑی کیونکہ پرواز کے دوران اس کے چار انجنوںمیںسے دو خراب ہو گئے تھے مشرقی پاکستان کے اوپر پرواز کرتے ہوئے ڈھاکہ کے سبزے سے لہلہاتے میدانوںکودیکھ کہ مجھ پر ایک ناقابل یقین کیفت طاری ہوگئی مجھے۔
یہ یقین نہیںآ رہا تھا کہ یہ ہماری سرزمین اور یہ ہمارے عوام جنہوںنے قیام پاکستان میںبڑھ چڑھ کہ حصہ لیا تھا الگ ہوجانے کیلئے تیار کھڑے ہیں میں یہ تصور نہیں کر سکتاتھا کہ ہمارے سات کروڑ بیس لاکھ ہم وطنوں کو پاکستان سے کاٹ کر الگ کیا جا ر ہا ہے آگے لکھتے ہیں مجیب الرحمن مجھ سے تنہائی میں ملے اور کہا کہ ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا چاہیے اور محبت وآہنگی کو فروغ دینا چاہئے بھٹو نے خود اعتراف کیا کہ وہ غدار نہیں تھے بلکہ ملک بچانا چاہتے تھے بد قسمتی سے سب سے پہلے بنگلہ دیش کو پاکستان نے ہی تسلیم کیا اور بھٹو نے آدھے پاکستان کا وزیر اعظم بننے پر اکتفاء کیا حکمرانوں کو کوئی فکر نہیں بلوچستان اور گلگت ،بلتستان ، میں کیا ہورہا ہے انکو اگر فکر ہے تو اقتدارکی توڑ پھوڑکی کرپشن کی اور غریبوں کو ختم کرنے کی آج وطن عزیز جن حالات سے گزر رہا ہے ”خدا نہ کرے ” یہ سقوط ڈھاکہ جسے بلکہ اس بدتر حالا ت نظر آتے ہیں۔
اب ہماری سرزمین پر بھارتی ایجنسی ”را” نے ہی اپنی سازشوں کے جال نہیں بچھائے بلکہ امریکی فوجی اور بلیک واٹرکے ارکان بھی یہاںدندناتے اور دہشت گردی کی گھناونی کاروائیوں میں ملوث نظر آتے ہیں جگہ جگہ انھوں نے اپنے ا ڈے قا ئم کررکھے ہیں ۔ اب بھی موقعہ ہے ہمیں جتنی جلدی ہو سکتاہے امریکہ کی جنگ سے باہر نکلنا چاہئے اور وہ ہمارے تجزیہ نگا ر جو پہلے مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان پر بوجھ سمجھتے تھے کہ وہ ہمار ی معیشت پر بوجھ ہیں اب ان عقل کے اندھوں کو دیکھانا چاہئے کہ دیکھوں اب پاکستان کی ساری انڈسٹریز کہاں منتقل ہورہی ہے پاور لومز کہاں جارہی ہیں 36 لاکھ پاور لومز پاکستان سے بنگلہ دیش منتقل ہو گیں۔
سرمایہ دار پاکستان میں سرمایہ لگارہے ہیں یا بنگلہ دیش میں کاش سیاست دان اقتدار کے نشے میں اندھے نہ ہو تے اور میرے قائد محمد علی جناح کاپاکستان دولخت نہ کرتے تو ہم دونوں بازو ملکر ترقی کی نئی نئی منزلیں طے کرتے اور دنیا میں اپنا الگ مقام رکھتے۔
وہ میر ابھائی میرے دیس کا حصہ
کیوں ! مجھ سے جدا ہوا
کیوں دل ٹوٹا رنجورہوا
کیوں ! غیرکی باتوں میںآیا
کیوں ! جاملا دشمن کے سنگ
پھر آج دسمبر پو چھ رہا ہے
کہ ہم جیتے یا ہارے 71کی وہ جنگ۔
تحریر : حافظ جاوید الرحمان قصوری