یورپی یونین کو توقع ہے کہ اگلے برس کے آخر تک تیس ہزار مہاجرین کو یونان سے دیگر یورپی ممالک میں منتقل کر دیا جائے گا۔ یورپی کمیشن نے اس بات پر زور دیا ہے کہ مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے ’اہم پیش رفت‘ کی جا رہی ہے۔
رواں برس مارچ کے مہینے میں ترکی اور یورپی یونین کے مابین طے پانے والے معاہدے کے بعد یورپ کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ چکی ہے۔ لیکن معاہدے سے قبل ہزارہا تارکین وطن یونان پہنچ چکے تھے جو مغربی یورپ جانے کے راستے بند ہو جانے کے باعث ابھی تک یونان ہی میں پھنسے ہوئے ہیں۔
گزشتہ برس اٹلی اور یونان میں پھنسے انہی ہزاروں تارکین وطن اور مہاجرین کو آباد کاری کے لیے یونین کے دیگر رکن ممالک میں تقسیم کر دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس ’لازمی تقسیم‘ کے منصوبے کے تحت ایک لاکھ 60 ہزار مہاجرین کو دیگر ممالک میں منتقل کیا جانا تھا تاہم ہنگری سمیت کئی مشرقی اور وسطی یورپی ممالک کی مخالفت کے باعث یہ منصوبہ سست روی کا شکار تھا۔ یورپی کمیشن کا کہنا ہے کہ اب اس عمل میں تیزی لائی جا رہی ہے اور اگلے سال کے اواخر تک 30 ہزار مہاجرین کو یونان سے نکال کر دوسرے یورپی ممالک میں منتقل کر دیا جائے گا۔
یورپی یونین کے مہاجرین سے متعلقہ امور کے نگران کمشنر دیمیتریس آوراموپولوس کا کہنا تھا، ’’ہم ایک طویل فاصلہ طے کر کے یہاں تک پہنچے ہیں اور مہاجرین کے بحران کے خاتمے کے لیے اب تک کافی پیش رفت ہو چکی ہے۔ لیکن اب بھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔‘‘
یورپی یونین میں مہاجرین کی لازمی تقسیم کے منصوبے کی سب سے زیادہ مخالفت ہنگری کی جانب سے کی جا رہی ہے۔ ہنگری نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ ایک یورپی کوٹہ سسٹم کے تحت مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ ایک عوامی ریفرنڈم کے ذریعے کرے گا۔ گزشتہ ایک برس کے دوران اسی کوٹہ سسٹم کے تحت 5651 مہاجرین کو یونان اور اٹلی سے منتقل کیا جا چکا ہے۔ تاہم یورپی کمیشن کے مطابق اب اس عمل میں تیزی لائی جا رہی ہے اور رواں ماہ کے دوران 1202 مہاجرین کو دیگر یورپی ممالک بھیجا جائے گا جو ماہانہ بنیادوں پر اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہے۔
یورپی کمیشن کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے، ’’یونان میں پناہ کے نظام کی بہتر ہوتی ہوئی صلاحیت کے بعد اگر رکن ممالک کے تعاون میں بھی بہتری ہوئی تو اگلے سال کے دوران تیس ہزار مہاجرین کی یونان سے دیگر یورپی ممالک میں منتقلی ممکن ہو سکے گی۔‘‘ یورپی یونین کے اس منصوبے کے تحت صرف شام، عراق اور اریٹریا سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کو ہی اٹلی اور یونان سے نکال کر دیگر یورپی ممالک میں آباد کیا جائے گا۔
دیمیتریس آوراموپولوس نے ترکی اور یورپی یونین کے مابین طے پانے والے معاہدے کو بھی کامیاب قرار دیا۔ اعداد و شمار کے مطابق حالیہ دنوں کے دوران روزانہ اوسطاﹰ 85 تارکین وطن بحیرہ ایجیئن عبور کر کے ترکی سے یونان پہنچ رہے ہیں۔ رواں برس مارچ میں جب یہ معاہدہ طے پایا تھا، تو اس وقت اوسطاﹰ 1700 پناہ گزین غیر قانونی طور پر یونان پہنچ رہے تھے جب کہ پچھلے برس اکتوبر میں ایسے تارکین وطن کی تعداد سات ہزار یومیہ تھی۔