اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی تخلیق سے بھی پہلے اس کے رزق کا انتظام فرما دیا تھا ۔پھر اس شاہکار قدرت انسان نے جو دنیا میں کرنا تھا اچھا یا برا بطور تقدیر تحریر کر دیا گیا ۔ صدقات و خیرات ،صلہ رحمی اور والدین و بزرگان دین کی دعا سے برکات دنیا و آخرت نصیب انسان میں رکھی گئیں۔ جب ہر چیز کا فیصلہ کر دیا گیا اور برکات والے عمل بتا دئیے گئے تو پھر انسان کا ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر لمبی امیدیں ،بے جا حرص و طمع اور لالچ بے مقصد ہے ۔ اسی عنوان کو آ ج زیر بحث لایا گیا ہے ۔
حضرت ابو دردا رضی اللہ عنہ کا خطاب:فقیہ رحمۃ اللہ علیہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو دردا رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا بات ہے تمہارے علماء اٹھتے جا رہے ہیں اور تمہارے جاہل لوگ علم حاصل نہیں کرتے ۔ علماکے اُٹھ جانے کے ساتھ علم کے رخصت ہو جانے سے پہلے پہلے علم حاصل کرو، اور فرمایا کیابات ہے کہ تم اس چیز پر حریص ہو جس کی ضمانت اللہ تعالیٰ نے دے رکھی ہے اور جو چیز تمہارے ذمہ اور سپرد داری میں دی گئی ہے اسے ضائع کر رہے ہو ۔ میں تمہارے شریر لوگوں کو یونہی پہچانتا ہوں جیسے حیوانات کا ماہر گھوڑوں کی نسل سے واقف ہو تا ہے ۔ایسے لوگ جو زکوٰۃ کو چٹی یعنی تاوان سمجھ کر ادا کرتے ہیں ۔نمازوں میں آخر وقت پر آتے ہیں ۔ قرآن کو بے توجہی سے سنتے ہیں ۔آزاد لوگوں کو آزاد ہوتے ہوئے بھی رہا نہیں کرتے ۔
فقیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حرص کی دو قسمیں ہیں: ایک مذموم اور ایک غیر مذموم۔ مگر چھوڑنا اس کا بھی افضل ہے ۔مذموم حرص تویہ ہے کہ انسان کو خدائی احکام کی ادائیگی سے روکنے لگے یا مال اس غرض سے جمع کرنا کہ دوسروں سے بڑھ جائے یا فخر و مباہات کرے ۔ غیر مذموم حرص یہ ہے کہ کسب مال میں اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کا بھی تارک نہ ہو اور نہ ہی اس سے مقصود دوسروں پر فخر کرنا ہو ۔ یہ مذموم نہیں کیونکہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم مال جمع کرتے تھے مگر حضور اکرم ﷺ ان پر منع نہ فرماتے تھے البتہ اس کے بھی ترک کو ہی افضل قرار دیا ۔
فائدہ:حضرت ابو دردا رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ حرص مذموم وہی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے احکام ضائع ہوتے ہوں کیونکہ فرمایا کہ تم ایسی چیز کی حرص کرتے ہو جس کی کفالت و ضمانت خود اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے لی ہے ۔مطلب یہ کہ تمہارے رزق کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر لی ہے مگر تم اس کی طلب میں خوب حرص دکھاتے ہو اور تمہارے ذمہ اطاعت رکھی ہے وہ تم ضائع کرتے ہو اور حرص کی ایک صورت یہ ہے کہ آزاد لوگوں سے یوں8 کام لیتے ہو جیسے غلاموں سے لیا جاتا ہے ۔
ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا جواب:ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے اپنے والد بزرگوار حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مالی فراوانی اور رزق کی وسعت عطا فرمائی ہے لہٰذا آپ عمدہ کھانا کھایا کریں اور موجودہ کپڑوں کی بجائے اعلیٰ اور نرم کپڑے پہنا کریں ۔فرمانے لگے یہ فیصلہ میں تیرے ہی سپرد کرتا ہوں ۔ اس کے بعد حضور اکرم ﷺ کی معیشت کا تذکرہ فرمانے لگے اور وہ جالات دہرانے لگے جو خود حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے حضور اکرم ﷺ کے ساتھ رہ کر گزارے تھے ۔حتیٰ کہ وہ رونے لگ گئیں ۔پھر فرمایا میرے دور فیق زندگی تھے جو ایک خاص طریق پر چلتے رہے ۔ اب اگر میں ان کے طریق کے علاوہ کسی اور طریق پر چلوں گا تو پھر میرے ساتھ ان والا طریق اختیار نہیں کیا جائے گا۔ بخدا ! میں انہیں جیسی تنگ حالی کی معیشت اختیار کروں گا تاکہ آخرت میں ان کے ساتھ خوش عیشی اور فراخ حالی میں شریک ہو سکوں۔
حضور ﷺ کا ارشاد گھر میں داخل ہوتے وقت:حضرت مسروق رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا اماں جان ! بھلا حضور اکرم ﷺ گھر میں داخل ہوتے وقت اکثر کیا فرمایا کرتے تھے ؟ فرمانے لگیں میں نے آپ کو گھر میں داخل ہوتے اکثر یہ فرماتے سنا کہ اگر ابن آدم کے پاس سونے کی دو وادیاں ہو ں تو وہ تمنا کرے گا کہ اس کے ساتھ تیسری بھی مل جائے اور ابن آدم کے پیٹ کو تو مٹی ہی پر کرسکتی ہے اور اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول فرمالیتے ہیں ۔اور اللہ تعالیٰ نے یہ مال تو اس لئے بنائے ہیں تاکہ ان کے ذریعہ نماز قائم کی جائے اور زکوٰۃ ادا کی جائے ۔
حرص اور لمبی امیدوں کا انجام:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ابن آدم کی ہر شے بوڑھی ہو جاتی ہے سوائے حرص اور امید کے ۔امیر المومنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ مجھے سب سے زیادہ اندیشہ تمہارے متعلق دو چیزوں کا ہے :لمبی امیدوں اور خواہشات کی پیروی کا ۔لمبی امیدیں آخرت کو بھلا دیتی ہیں اور خواہشات کی پیروی حق سے روکتی ہے ۔حضور اکرم ﷺکا ارشاد مبارک ہے کہ میں پوری ذمہ داری سے تین آدمیوں کے لئے تین باتوں کی خبر دیتا ہوں ، دنیا پر مرنے والے کیلئے ایسے فقر کی جس کے بعد کبھی غنا نہ ہو گا اور دنیا کی حرص رکھنے والے کیلئے ایسے شغل و مصروفیت کی جس سے کبھی فرصت نہ ہو گی اور دنیا میں بخل کرنے والے کیلئے ایسے غم کی جس کے بعد کبھی فرحت نہ ہو گی۔
حضرت ابو دردارضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے کہ وہ اہل حمص کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کیا تمہیں حیا نہیں آتی؟ ایسی ایسی عمارتیں بناتے ہو جن میں سکونت بھی نہیں رکھتے ،ایسی امیدیں باندھتے ہو جنہیں حاصل نہیں کر پاتے اور ایسا کچھ جمع کرتے ہو جس کا کھانا تمہیں نصیب نہیں ہوتا ۔تم سے پہلے لوگوں نے مضبوط عمارتیں بنائیں ،کثیر مال جمع کئے ،طویل طویل امیدیں باندھیں مگر قبور اُن کا مسکن بنیں اور امیدیں دھوکہ ثابت ہوئیں اور مالی ذخیر ے ہلاکت کا سامان بنے ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اگر اپنے رفیق یعنی حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ سے ملنے کا ارادہ ہے تو اپنے کرتہ کو پیوند لگایا کرو ، اپنے جوتے کی مرمت کیا کرو، اپنی امیدوں کو مختصر کرو اور کھانا شکم سیر ہونے سے کم کھایا کرو، حضرت ابو عثمان رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو منبر پر خطبہ دیتے ہوئے دیکھا کہ ان کے کرتہ پر بارہ پیوند لگ رہے تھے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے کہ وہ بازار میں داخل ہوئے ۔ان کے بدن پر موٹے موٹے کپڑے تھے اور وہ بھی میلے ہو رہے تھے ۔عرض کیا گیا امیر المومنین !ذرا اس سے نرم لباس پہن لیا ہوتا ۔ فرمایا اس سے دل میں خشوع پیدا ہوتا ہے ۔صالحین سے مشابہت حاصل ہوتی ہے اور ایک مومن کیلئے بہتر نمونہ ہے ۔
اچھے اور برے لوگ:حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں لوگوں کی نفسیات سے یوں واقف ہوں جیسے حیوانات کا طبیب ان کی طبیعتوں سے واقف ہوتا ہے ۔بس ان میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو دنیا میں زاہدانہ رو ش رکھتے ہیں اور برے لوگ وہ ہیں جو قدر کفایت سے زیادہ دنیا جمع کرتے ہیں ۔
خطاؤں کی جڑ:کسی دانا کا قول ہے کہ خطاؤں کی جڑتین چیزیں ہیں :حسد، حرص، تکبر، کبر کا منبع توابلیس ہے کہ اس نے تکبر کرتے ہوئے سجدہ سے انکار کیا تو ملعون ہوا اور حرص کا ابتدائی ظہور حضرت آدم علیہ السلام سے ہوا کہ ایک درخت کے سوا پوری جنت ان کے لئے مباح تھی مگر حرص نے اس درخت کا پھل کھانے پر آمادہ کر دیا حتیٰ کہ وہاں سے کوچ کرنا پڑا (مگر نبی خطا کار نہیں ہو تا)اور حسد کی اصل قابیل بن آدم سے جاری ہوئی کہ اسی بنا پر اپنے بھائی ہابیل کو قتل کیا ۔مبتلائے کفر ہوا اور ہمیشہ کے لئے جہنمی قرار پایا۔
آدم علیہ السلام کی وصیت:روایت ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت شیث علیہ السلام کو پانچ چیزوں کی وصیت فرمائی اور یہ بھی فرمایا کہ اپنی آئندہ نسل کو بھی اس کی تاکید کریں ۔پہلی یہ کہ اپنی اولاد سے کہہ دو دنیا پر کبھی مطمئن نہ ہونا ۔ میں نے جنت پر اطمینان کیا تھا جو ابدی بھی ہے مگر اللہ تعالیٰ کو پسند نہ آیا اور مجھے وہاں سے سفر کا حکم ملا ۔ دوسری یہ کہ انہیں کہہ دو کہ اپنی بیوی کی خواہشات پر کبھی عمل نہ کرنا ۔میں نے اپنی بیوی کی خواہش پر عمل کیا تھا کہ درخت کا پھل کھالیا ، اس پر ندامت دیکھنا پڑی، تیسری یہ بات کہہ دو کہ جو کام بھی کرنے کا ارادہ کرو پہلے اس کا انجام سوچ لو ۔ اگر میں انجام سوچ لیتا تو بعد میں جو کچھ دیکھا نہ دیکھتا ۔ چوتھی بات یہ کہ جب کوئی چیز دل میں کھٹکتی ہو تو اس سے اجتناب کرو کہ اکل شجرہ کے وقت میرے دل میں بھی کھٹک تھی مگر میں نے خیال نہ کیا تو ندامت اٹھانی پڑی ۔ پانچویں چیز یہ ہے کہ اہم امور میں مشورہ کر لیا کرو ۔ میں نے اگر ملائکہ سے مشورہ کر لیا ہوتا تو وہ ابتلانہ ہوتا جو بعد میں ہوا ۔
چار ہزار حدیثوں میں سے چار کا انتخاب:حضرت شفیق بلخی رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ میں نے چار ہزار حدیثوں سے چار سوا حادیث نکالیں اور چار سو سے چالیس کا انتخاب کیا پھر ان میں سے بھی صرف چار حدیثوں کو منتخب کیا ۔
1 عورت کے ساتھ دل نہ لگاؤ کہ وہ آج تیری ہے کل کسی اور کی ہو گی ۔ اس کا کہنا مانے گا تو تجھے دوزخ تک پہنچائے گی۔
2 مال کے ساتھ دل نہ لگاؤ کہ یہ مستعار چیز ہے ،جو آج تیرے پاس ہے کل کسی اور کے پاس ہو گا۔ لہٰذا غیر کی چیز کیلئے خواہ مخواہ مشقت نہ اٹھاؤ کہ اس کا منافع تو غیر اٹھائیں اورتکلیفیں تو برداشت کرے اور یہ بھی ہے کہ مال کے ساتھ دل لگاؤ گے تو تجھے حقوق اللہ کی ادائیگی سے روکے گا، فقر کا خوف پیدا ہو گا اور شیطان کی اطاعت ہونے لگے گی۔
3 دل میں جو بات کھٹک پیدا کرے اسے ترک کردو کیونکہ مومن کا قلب گواہ کی مانند ہے جو شبہات پر اضطراب محسوس کرتا ہے ،حرام سے بھاگتا ہے ،حلال سے سکون پاتا ہے ۔
4 کوئی عمل اس وقت تک اختیار نہ کرو جب تک کہ اس کی قبولیت کا یقین نہ ہونے لگے۔
* حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ دنیا میں یوں رہو جیسے کوئی اجنبی نو وار دہویا راہ گیر مسافر اور اپنے آپ کو اہل قبور میں شمار کیا کرو۔
* حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ مجھے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ صبح ہو جائے تو اپنے دل سے شام کی بات نہ کرو اور شام ہو جائے تو اپنے دل سے صبح کی بات نہ کرو ۔ مرنے سے پہلے اپنی زندگی سے اور بیماری سے پہلے اپنی صحت سے کچھ فائدہ اٹھالے کیونکہ تجھے کچھ علم نہیں کہ کل تیرا کیا نام ہو گا؟
مختصر امیدوں والے پر اللّٰہ تعالیٰ کا اکرام:حضرت فقیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس کی امیدیں مختصر ہوں ،اللہ تعالیٰ اسے چار طرح کے اکرام سے نوازتا ہے :
* اسے اپنی اطاعت و بندگی کی توفیق دیتاہے کیونکہ بندہ جب یقین کر لیتا ہے کہ وہ عنقریب مرجائے گا تو وہ طاعات میں محنت کرنے لگتا ہے اور کوئی تکلیف بھی آئے تو پرواہ نہیں کرتا ۔ اس سے اس کے اعمال بڑھ جاتے ہیں ۔
* اللہ تعالیٰ اس کے غم و افکار کو کم کر دیتا ہے کیونکہ جب بندہ کوعنقریب مر جانے کا یقین ہے تو ناموافق بات بھی پیش آجائے تو چنداں خیال نہیں کرتا۔
* اسے قلیل مقدار پر راضی اور قانع بنا دیتا ہے کیونکہ جب بندہ کو عنقریب مرجانے کا یقین ہے تو وہ کثرت کو طلب ہی نہیں کرے گا۔ اس کا تو سارا فکر فکر آخرت ہی ہوتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ اس کے قلب کو منور فرماتا ہے کیونکہ مشہور ہے کہ نورِ قلب چار چیزوں سے میسر آتا ہے ۔ایک بھوکا پیٹ ، دوسرے نیک ساتھی ، تیسرے یہ کہ اپنے سابقہ گناہوں سے بے فکر نہ ہو ۔چوتھے یہ کہ امید مختصر ہو ۔
لمبی امیدوں کا انجام:بندہ لمبی امیدیں لگانے پر چار چیزوں میں مبتلا ہو جاتا ہے :طاعات میں سستی ، دنیا کے افکار کا ہجوم ، مال جمع کرنے کی حرص ، دل میں قساوت یعنی سختی پیدا ہو جاتی ہے ،کہتے ہیں کہ سنگ دلی چار چیزوں سے پیدا ہوتی ہے :
* بھر ے ہوئے پیٹ سے۔ * برے ساتھی کی رفاقت سے۔
* سابقہ گناہوں کو بھلا دینے سے۔ * لمبی لمبی امیدیں باندھنے سے۔
فائدہ:لہٰذا مسلمان کو چاہیے کہ اپنی امیدوں کو مختصر کرے ۔کچھ پتہ نہیں کس سانس میں اور کس قدم پر موت آجائے ؟قرآن پاک کی آیت۔ وما تدری نفس بای ارض تموت۔مفسرین اس کی تفسیر میں یہ لکھتے ہیں کہ نہ جانے کس قدم پر موت آجائے؟ ایک اور آیت میں ہے ۔ انک میت وانھم میتون۔’’آپ کو بھی مرنا ہے اور ان کو بھی مرنا ہے ۔‘‘ایک اور آیت میں ہے ۔’’سو جس وقت ان کی میعاد معین آجائے گی ، اس وقت ایک ساعت نہ پیچھے ہٹ سکیں گے اور نہ آگے بڑھ سکیں گے ۔‘‘لہٰذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ موت کا ذکر کثرت سے کرتا رہے ۔
مومن کو چھ باتوں کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں:اول ایسا علم جو آخرت کے معاملے میں اس کی رہنمائی کرے۔ دوسرے ایسا ساتھی جو طاعات میں اس کا معین بنے اور معصیت سے روکتا ر ہے ۔تیسرے اپنے دشمن کی پہچان اور اس سے پرہیز کرے ۔چوتھے اللہ تعالیٰ کی آیات و علامات اور شب و روز کے اختلافات سے عبرت حاصل کرے ۔ پانچویں مخلوق سے انصاف قائم رکھنا کہ کل قیامت کے دن وہ مدعی اور خصم نہ بن جائیں ۔چھٹے موت سے قبل اس کی تیاری کرنا کہ قیامت کے دن رسوائی نہ ہو ۔
مختصر امیدیں اوراللّٰہ تعالیٰ سے حیا کرنا:حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے اپنے اصحاب سے ارشاد فرمایا کیا تم سب جنت میں جانے کا ارادہ رکھتے ہو؟ عرض کیا گیا ضرور یا رسول اللہ ! ہمیں اللہ تعالیٰ آپ پر قربان کرے ! ارشاد فرمایا تو پھر امیدیں مختصر رکھو ،اللہ تعالیٰ سے کما حقہ حیا اختیار کرو۔ عرض کیا گیا یا رسول اللہ ﷺ ! ہم سب اللہ تعالیٰ سے حیا کرتے ہیں ۔ فرمایا یہ حیا نہیں ،اللہ تعالیٰ سے حیا تو یہ ہے کہ قبور کو اور وہاں کی بوسیدگی کو یاد کیا کرو۔ پیٹ کی اور جو کچھ اس میں ہے اس سب کی حفاظت کرو ۔ سر کی حفاظت کرو اور ان چیزوں کی جو اس میں سماتی ہیں اور جو شخص آخرت کا اعزاز چاہتا ہے وہ دنیا کی زیب و زینت چھوڑ بیٹھتا ہے اور یہی وہ مقام ہے جسے اللہ تعالیٰ کی کما حقہ حیا کرنا کہہ سکتے ہیں اور اسی سے اللہ تعالیٰ کی ولایت نصیب ہوتی ہے ۔
نافع مال:حضرت حمید طویل عجلی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کہ حضور ﷺ نے الھکم التکاثر ،حتی زرتم المقابر۔کی تلاوت فرمائی پھر ارشاد فرمایا کہ بندہ میرا مال میرا مال پکارتا ہے حالانکہ اس کا مال وہی ہے جو اس نے کھا لیا اور ختم کر دیا ، پہن لیا اور بوسیدہ کر دیا یا صدقہ کر دیا اور آخرت کیلئے باقی رکھا۔
حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تورات میں پانچ باتیں لکھی ہیں:
* غنا قناعت میں ہے * سلامتی تنہائی میں ہے۔
* آزادی خواہشات کے چھوڑ نے میں ہے * محبت رغبت ترک کرنے میں ہے ۔
* اور طویل ایام میں نفع اٹھانا قلیل ایام میں صبر کرنے پر منحصر ہے ۔
دنیا کی بے ثباتی:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اے عائشہ ! اگر تو میری رفاقت چاہتی ہے تو تجھے اتنی سی دنیا کا فی ہو جانی چاہیے جتنی کہ ایک سوار مسافر کیلئے ہوتی ہے ۔غنی لوگوں کی ہم نشینی سے بہت بچتی رہو اور کسی کپڑے کو پرانا مت سمجھو جب تک کہ اس میں پیو ند نہ لگا لو ۔ حضور اکرم ﷺ سے یہ دعا منقول ہے کہ اے اللہ ! جو مجھ سے محبت رکھتا ہے اسے اتنا رزق عطا فرما جو اس کی ضروریات کے لئے کافی ہو اور سوال کرنے سے بچا دے اور جو مجھ سے بغض رکھتا ہے اس کو مال و اولاد کی فراوانی دے دے ۔
حضرت فقیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی سند کے ساتھ حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ سے حضور اکرم ﷺ کا یہ ارشاد مبارک بھی نقل کیا ہے کہ دنیا کی رغبت حزن کو بڑھاتی ہے اور اس کی بے رغبتی قلب کو اور بدن کو راحت پہنچاتی ہے اور میں تمہارے متعلق فقر کا خوف نہیں رکھتا بلکہ مجھے تو یہ ڈر ہے کہ کہیں تم پر بھی دنیا کی فراوانی عام نہ کر دی جائے ۔جیسے تم سے پہلے لوگوں پر ہوئی پھر تم بھی ان لوگوں کی طرح اسی دنیا کی دوڑ دھوپ میں لگ جاؤ اور وہ تمہیں ہلاک کر ڈالے جیسا کہ پہلوں کو ہلاک کیا ۔حضور اکرم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ اس امت کے پہلے لوگوں کی اصلاح زہد اور یقین کی بدولت ہوئی اور اس کے آخری لوگ بخل اور امیدوں کی وجہ سے ہلاک ہوں گے۔
مندرجہ بالا مضمون میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ دنیا میں حرص و لمبی امیدیں لگانا اپنے آپ پر مشکلات و مصائب مسلط کرنا ہے ۔جبکہ جو ملے اُس پر صبر و قناعت آخرت کی بہتری اور دنیا کے سکون کا باعث ہے ۔
آج ہر انسان ایک دوسرے سے مال و دولت ، جاہ و حشمت اور عہدہ و فضیلت میں آگے نکلنے کے چکر میں نظر آتا ہے ۔ہر جائز و ناجائز ذرائع استعمال کر کے اپنی لمبی امیدیں اور حرص و طمع کو پروان چڑھاتا ہے مگر سکون قلب اور راحت سے محروم ہے ۔
قرآن و حدیث جس چیز سے روکے ظاہرہے اُس میں انسان کی بھلائی نہیں ہوتی ۔ آئیے ! لمبی امیدیں اور حرص و طمع کوترک کر کے دنیا کو راحت کدہ اور آخرت کا مرانی کی راہ ہموار کریں ۔گناہوں سے بچ جائیں گے اور فکر آخرت سے نیکیوں کا جذبہ پروان چڑھے گا۔
اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے ۔ آمین