تحریر : اقبال زرقاش
اقتدار کی ہوس ایک ایسی لعنت ہے جس نے حکمرانوں کے دلوں سے قناعت کی دلکشی چھین لی ہے۔ اُصول پرستی عملاً ختم ہو گئی ہے۔ ہمارے ملک کا ہر سیاستدان دائو پر ہے اس کے سامنے ایثار اور قربانی کا کوئی جذبہ نہیں ہے۔ انسانیت سے محبت کا جذبہ ناپید ہو چکا ہوتا جا رہا ہے۔ اقتدار کی ہوس میں حکمران طبقہ سب کچھ کر گذرنے پر تُلا ہوا ہے۔ زندگی کا کوئی شعبہ لے لیجئے وہاں بدنظمی اپنے کمال پر نظر آ رہی ہے۔ رشوت، اقربانوازی، فریب او ر بے ایمانی اس قدر عام ہے کہ خوف خُدا دلوں میں باقی نہیں رہا۔ الغرض ہمارے معاشرے کا ہر رُخ داغدار اور ہر انداز افسوس ناک ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں بدکردار، چور، ڈاکو جن کو جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیے تھا وہ اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ خلق خُدا سراپا احتجاج ہے مگر ان کے کانوں پر جون تک نہیں رینگتی۔
خوابِ خرگوش کے مزے لینے والے یہ حکمران فرعون کے مظالم کو بھی پیچھے چھوڑتے جا رہے ہیں۔ کرپشن اور لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ انصاف کی مسند پر بیٹھے ہوئے قاضی آج خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہے ہیں۔ معاشرے کے ایسے بگڑے ہوئے خال و خط کسی نہ کسی بڑی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہو ا کرتے ہیں۔آج ہمارے ملک کے حکمرانوں نے ملک کو کنگال کر کے رکھ دیا ہے۔ ملک سے دولت کو لوٹ کر بیرون ملک بنکوں میں اپنی ناجائز دولت کو چھپا یا جا رہا ہے۔ کہیں سرے محل ، کہیں آف شور کمپنیوں کے چرچے زبان و زد وعام ہیں۔ ہمارے ملکی ادارے نااہل کرپٹ لوگوں کے حصار میں ہیں۔
آج پانامہ لیکس کے ذریعے ہمیں ہمارے حکمرانوں کے بدنما داغ سے آلودہ چہرے دکھائے جا رہے ہیں جنکو ہم نے صادق اور امین بنا کر اقتدار پر بیٹھایا ہو اہے۔ دراصل یہی لوگ ملک کے سب سے بڑے ڈاکو اور لُٹیرے ہیں جو آج فرعون ثانی کا کردار ادا کررہے ہیں۔ زمانہ قدیم میں جرائم پیشہ افراد، چوراور ڈاکو پہاڑوں اور جنگلوں میں رہا کرتے تھے۔ یہی جگہیں ان کے لیے محفوظ پناہ گاہیںتھیں مگر آج چور اور ڈاکوئوں نے ہمارے اقتدار کے ایوانوں میں پناہ گاہیں تلاش کر لی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ان کا محاسبہ نہیں ہو رہا۔ انہوں نے کئی لبادے اوڑھ رکھے ہیں۔ یہ قوم کے مسیحا کے روپ میں وہ درندے چھپے بیٹھے ہیں جن کے ہاتھ خلق خدا کے خون سے رنگین ہیں ۔ کراچی کی صورت حال ہو یا ماڈل ٹائون کا واقعہ ان درندوں نے انسانیت کو شرما کر رکھ دیا ہے۔ جنگل کے قانون میں بھی مقافات عمل کا نظام رائج ہے جو جانور ظلم کرتا ہے اک نہ اک دن وہ بھی گرفت میں آجاتا ہے مگر ہمارے ہاں تو چودہ افراد کو لاہور میں دن دیہاڑے قتل کر دیا گیا مگر آج تک وہی لوگ اقتدار پر بُرجمان ہیںجن پر قتل عام کا الزام ہے۔
لاقانونیت کی اس سے بڑی مثال کیا ہو سکتی ہے کہ انصاف مانگنے والوں کو دیوارکے ساتھ لگا دیا گیا ہے۔مظلوموں کی چیخ و پکار سننے والا کوئی نہیں۔حالانکہ انصاف بانٹنے والے تمام ادارے موجود ہیںمگر ایک مخصوص طبقہ ہر قسم کی قانونی گرفت سے ستر سال سے محفوظ نظر آ رہا ہے۔ قانون کی پاسداری صرف اورصرف غریب اور محکوم طبقہ تک ہی قائم ہے ۔ دوچارسوروپے رشوت لینے والا پکڑا جاتا ہے جبکہ اربوں کی کرپشن کرنے والا دولت کی چمک دکھا کر اقتدارکے ایوانوں میں پناہ لے کر تاحیات محفوظ رہتا ہے۔لوٹ مار،قتل و غارت گردی اک ہی راستہ باقی بچا ہے کہ عوام کو اب اس ظلم و بربریت کے خلاف سڑکوں پر نکلنا ہو گا۔ یہ گلہ سڑا بدبودار نظام اب مزید عوام کی سکت سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔ اگست کا مہینہ ہماری تاریخ میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اسی مہینے میں پاک و ہند کے مسلمانوں نے ایک علیحدہ وطن کا خواب پورا ہوتے دیکھا تھاآج پھر یہ مہینہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ ان ظالم حکمرانوں سے نجات دلا کر ملک میں حقیقی جمہوریت کا سورج طلوع ہونے کی بشارت دے رہا ہے۔ بشرطیکہ عوام اپنے حقوق کے لیے باہر نکلیں۔
ْ وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
آج وقت ہے کہ عوام تحریک انصاف اورعوامی تحریک کے احتجاج میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور ان ظالم حکمرانوں کو اپنے اعمال کا ثمر چکھائیں جنہوں نے پاکستان میں ہر پیدا ہونے والے بچے کو بھی ایک لاکھ بیس ہزار کا مقروض بنا دیا ہے۔ لوٹ مار اور کرپشن مافیاء اک بار پھر سرجوڑ کر بیٹھ گیا ہے اور احتجاج کو ناکام بنانے کے لیے گھناونی سازشوں میں مصروف ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق موجودہ حکمران اور مک مکا”دبئی والی سرکار” آج بھی ایک صضحہ پر نظر آ رہے ہیں اور احتجاجی تحریک کو ختم کرنے کے لیے گھناونی سازش ترتیب دی گئی ہے۔ جس کے مطابق احتجاج کے دوران خاص طور پر پنجاب میں مصنوعی سیلاب کی صورت حال پیدا کی جائے گی یعنی مختلف نہروں اورندی نالوں کے بند توڑ کرسیلابی پانی آبادیوں میں داخل کیا جائے گا اور اسطرح بڑی تعداد میں پنجاب کے بہت سے دیہات متاثر ہونگے اورسیلاب سے بھاری اموات کا بھی خطرہ مول لیا جائے گا اور اس طرح عوام کی توجہ احتجاج سے ہٹا کر مصنوعی سیلاب پر مرکوز کرکے احتجاجی تحریک کو ناکام بنانے کی گھناونی منصوبہ بندی کا انکشاف ہوا ہے۔
اللہ کرے ایسانہ ہو۔ حکمرانوں کی تمام حفاظتی تدابیر ناکام ہوں اور میرے ملک کے عوام کو اللہ پاک سیلاب جیسی آفت سے محفوظ رکھے تاہم یہ گھناونی سازش تیار کی جار ہی ہے۔ خدشہ ہے کہ اس سلسلے میں حکمران اپنے ہمسایہ ملک کی بھی مدد حاصل کریںگے جو ہر سال پاکستان کی طرف اضافی پانی چھوڑ کر تباہی و بربادی کا ساماں پیدا کرتا رہتا ہے۔ اب کی بار شریف مودی گٹھ جوڑ ملک کے لیے سیکورٹی رسک بن چکا ہے اور عوام ہر سازش سے آگا ہ ہیں لیکن بدقسمتی سے دور حاضر میں فساد اور شر اپنے کمال پر ہے۔ زندگی کی شاہراہ پر کانٹے پھول بنے ہوئے ہیں۔ دام خوشنما نظر آتے ہیں۔صیاّد مہربانوں کے روپ میں جلوہ گر ہیں۔ رہزن رہنما دکھائی دیتے ہیں۔ بظاہر سازشیں نوازشیں لگتی ہیں۔ گویا شیطانی قوت نے ہر بُری بات کو ہمارے لیے خوبصورت بنا رکھا ہے۔ ہر چمکتی شئے کو سونا سمجھ کر ہم دھوکے میں آ جاتے ہیں۔ ملک دشمن اندرونی و بیرونی قوتیںاس سادہ لوھی سے فائدہ اُٹھاتیں ہیںجیسا کہ آج کل ہو رہا ہے۔ کشمیر جل رہا ہے اور ہمارے حکمران اپنے کاروبار اور دوستیاں نبھا رہے ہیں اور ظلم کے خلاف آواز اُٹھانے والا کوئی نہیں ہے۔ اللہ ہمارے حال پر رحم کرے۔
تحریر : اقبال زرقاش