تحریر: شاہد شکیل
عالمی بینک کی سروے رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ایک ارب سے زائد افراد بجلی سے محروم ہیں حتیٰ کہ گزشتہ بیس برسوں میں توانائی میں ترقی ہوئی تاہم اسی مدت میں دنیا کی آبادی میں ایک ارب سے زائد اضافہ بھی ہوا ہے،عالمی توانائی ایجنسی کا کہنا ہے قابل تجدید توانائی کی پیش رفت سے آنے والے برسوں میں بجلی کی کمی کو پورا کیا جا سکتا ہے،انیس سو نوے میں سولہ فیصد سے زائد اور دوہزار دس کے بعد اٹھارہ فیصد پانی ، ہوا اور شمسی توانائی میں ترقی کے باعث توانائی میں کئی گنا اضافہ ہوا لیکن عالمی سطح پر کمی پوری نہ ہو سکی ،عالمی توانائی ایجنسی کے ترجمان کا کہنا ہے دو ہزار پچاس تک قابل تجدید توانائی میں اضافہ کیا جائے گا جس سے عالمی سطح پر دنیا کا کوئی خطہ توانائی سے محروم نہیں رہے گا۔
دوسری طرف گرین پیس نے پیشن گوئی کی ہے کہ دو ہزار پچاس تک زمین ہمیں قابل تجدید توانائی فراہم کر سکتی ہے اور ممکن ہے کہ ہم مکمل طور پر آنے والے پینتیس سالوں میں توانائی کے بحران پر قابو پا لیں گے،ادارے کے مطابق کاربن ڈائی آکسائیڈ میں تبدیلی اور کمی ہونے کے سبب مزید اخراج کم کیا جائے گا جو اقتصادی طور پر بھی مفید ہو گا اندازے کے مطابق دوہزار پچاس تک اس پروجیکٹ پر سالانہ اوسطاً ایک ارب ڈالر سے زائد لاگت آئے گی اور ایک ہی وقت میں ایک ارب ڈالر سے زائد ایندھن کے اخراجات میں بھی بچت کی جائے گی
اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کیلئے عالمی مارکیٹ کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ آنے والے سالوں میں چوگنی توانائی کی بچت ہو، گرین پیس کے مطابق دوہزار پچاس تک مکمل طور پر نہ صرف تیکنیکی طور پر بلکہ مالی لحاظ سے بھی کئی تبدیلیاں رونما ہونگی اس توانائی انقلاب کو گرین پیس کے علاوہ جرمن نظام تجزیہ اور ٹیکنالوجی انسٹی ٹیوٹ ایرو سپیس کے توسط سے مکمل کیا جائے گا۔گرین پیس اور جرمن انسٹی ٹیوٹ ڈی ایل آر کے سائنسدانوں نے تمام منظر نامے اور توانائی رپورٹ کی صورت حال واضح کر دی ہے اور اس انقلابی پروجیکٹ میں دنیا بھر کے چند ممالک مثلاً شمالی امریکا ، بھارت ، کینیڈا ،چین ، افریقا ،لاطینی امریکا اور یورپ شمولیت اختیار کریں گے۔
سائنسدان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ قابل تجدید توانائی کی تبدیلی اور ترقی نہ صرف ممکن ہو گی بلکہ معاشی طور پر دنیا بھر کے لئے فائدہ مند ثابت ہوگی اور اس تبدیلی کے سبب دنیا بھر میں بیس میلین سے زائد نئے روزگار کے مواقع پیدا ہونگے،قابل تجدید توانائی کے ا نقلابی پروجیکٹ کی تکمیل کیلئے مزید کارکنوں کی ضرورت ہے جو کول پاور پلانٹس سے منسلک ہوں اور تیکنیکی تجربہ رکھتے ہوں ،نئی ٹیکنالوجی مہنگی اس لئے نہیں ہو گی کیونکہ ایک ہی وقت میں دیگر مقامات پر ایندھن کو کم سے کم استعمال کیا جائے گا جس سے توانائی میں خاطر خواہ کمی واقع ہوگی۔گرین پیس کے نمائندے کا کہنا ہے آج ہم جو سرمایہ ایندھن پر خرچ کر رہے ہیں آنے والے برسوں میں دیگر ٹیکنالوجی پر استعمال کریں گے۔
جس سے انسانوں کو فائدہ ہوگا ۔گرین پیس کا کہنا ہے چین کی ونڈ انرجی میں سرمایہ کاری ایک مثبت قدم ہے اور اگر قابل تجدید توانائی حالیہ برسوں کی رفتار سے توسیع جاری رہی تو یہ ٹیکنالوجی اگلے بیس اور پچیس برسوں میں مکمل طور پر پانی اور حرارتی نقل و حمل میں مثبت کردار ادا کرے گی کیونکہ ونڈ انرجی وقت کی اہم ضرورت ہے اور زیادہ سے زیادہ توانائی فراہم کرتی ہے ،چین نے گزشتہ پانچ برسوں میں بہت زیادہ تعداد میں ونڈ ٹربائین تعمیر کئے ہیں اور توانائی کی ترقی میں اہم اقدامات و سرمایہ کاری کی بدولت جرمنی کے اشتراک و پارٹنر شپ سے فلاح و بہبود میں مثبت کردار ادا کیا ہے جو قابل تعریف ہے۔
علاوہ ازیں فوٹو وولٹیک میں بھی بدستور اضافہ ہوا ہے یہ ٹیکنالوجی بہت سستی ہے اور مستقبل میں مزید سستی ہونے کے ساتھ مفید ثابت ہو گی مطالعے میں بتایا گیا کہ مستقبل قریب میں جدید ٹیکنالوجی کے سبب ایک دو یا چار کمروں کے رہائشی افراد خود توانائی مثلاً بجلی پیدا کر سکیں گے جس سے توانائی کا استعمال مزید آسان اور سادہ ہونے کے علاوہ آج کے مقابلے میں کئی گنا بچت ہو گی۔
لیکن اس عمل کیلئے عالمی مارکیٹ کاتحفظ لازمی ہے منظر نامے کو حقیقت میں ڈھالنے کیلئے گلوبل مارکیٹ کو قابل تجدید انرجی کے استعمال میں کمی کرنی ہوگی یعنی کاربن ڈائی آکسائڈ کا اخراج کم کرنا ہوگا تاکہ درجہ حرارت دو ڈگری کی حد تک رہے۔دسمبر میں پیرس میں منعقد ہونے والی اقوام متحدہ کی ماحولیاتی کانفرنس میں دنیا بھر سے ماہرین شرکت کریں گے جس میں جدید ٹیکنالوجی ، انسانی تحفظ اور دیگر توانائی معاملات پر بات چیت کی جائے گی۔
تحریر: شاہد شکیل