یہ اُن دنوں کی بات ہے جب نہ موبائل ہوتے تھے اور نہ ہی واٹس ایپ، وائی فائی، فیس بک، انسٹاگرام کی سہولت حاصل تھی۔ لوگوں کے ایک دوسرے سے رابطوں کا انحصار صرف خط کتابت پر ہوتا تھا اور لوگ اپنے عزیز و اقارب کے پیغامات کےلیے محکمہ ڈاک کے ڈاکیوں کا انتظار کرتے تھے جن کا سلسلہ گو کہ سال بھر جاری رہتا مگر عیدالفطر کے موقعے پر نہ صرف ڈاکخانوں میں کام بڑھ جاتا بلکہ ڈاک بانٹنے والے ڈاکیوں کی بھی موجیں ہوجاتی تھیں۔ ڈاکیے لوگوں کو خوشیوں کے پیغام پہنچانے کےلیے نہ صرف رمضان المبارک میں چوکس ہوتے تھے بلکہ عیدالفطر کی چھٹی والے روز بھی عید کارڈ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سرگرم نظر آتے تھے۔
اب یہ تو کوئی نہیں جانتا کہ عید کارڈ بھیجنے اور وصول کرنے کا رواج کب کہاں اور کیسے شروع ہوا لیکن اس بات کو یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ یہ رواج چند برسوں کا نہیں بلکہ صدیوں پر محیط ہے اور عید کارڈ کو نہ صرف ماضی میں پیغام پہنچانے کےلیے استعمال کیا جاتا تھا بلکہ اسی کے ذریعے خوشیاں محبت اور پیار بانٹے جاتے تھے۔ زمانہ قدیم زیادہ ترقی یافتہ نہیں تھا اسی لیے اس وقت چھپائی کےلیے انتہائی سادہ مشینیں ہوا کرتی تھیں جن سے چھاپے گئے کارڈ بھی بے رنگ اور سادہ ہوا کرتے تھے مگر ان پر لکھے گئے پیغام اور دعائیہ کلمات میں خلوص، محبت اور پیار کی ایسی خوشبو ہوا کرتی تھی جو فی زمانہ میسر نہیں۔
اس کے بعد جیسے جیسے زمانے نے ترقی کی، مشینیں جدید و رنگ دار ہوئیں تو ایسے ایسے دیدہ زیب عید کارڈز چھاپے جانے لگے جنہیں دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی تھی۔ اس زمانے میں کیونکہ دور دراز رہنے والوں کو ایک دوسرے سے عید کی خوشیاں بانٹنے کےلیے کوئی دوسرا سہارا میسر نہیں ہوا کرتا تھا لہذا عید کارڈز کی چھپائی نے ایک صنعت کا درجہ اختیار کرلیا تھا جس سے لاکھوں لوگوں کے روزگار وابستہ تھے؛ جہاں رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی رنگین اور دیدہ زیب عید کارڈز کی پرنٹنگ کا کام شروع کردیا جاتا تھا جو رمضان المبارک کے آخری عشرے تک جاری رہتا تھا اور پھر اس صنعت سے منسلک کارڈز فروخت کرنے والے چند سال قبل تک رمضان المبارک میں ہی دکانیں کرائے پر لے کر عید کارڈز کی فروخت شروع کردیتے تھے۔ یہاں تک کہ نوجوان اور بچے بھی رمضان المبارک اور عید کی خوشیاں بانٹنے کےلیے شہر بھر کی فٹ پاتھوں پر، گلی کوچوں میں اسٹال سجاتے۔
عید کے نئے کپڑوں اور جوتوں کی خریداری سے قبل لوگ اپنے عزیز و اقارب اور دوست احباب کو عید کارڈ بھیجنے کےلیے کارڈوں کی خریداری کرتے تھے۔ ان عید کارڈوں میں زیادہ تر قرآنی آیات، قومی ہیروز، فلمی ہیروز اور ہیروئنز، کھلاڑیوں اور رنگ برنگے پھولوں سے مزین کارڈز جن پر عید مبارک، عید سعید مبارک، عید آئی خوشیاں لائی سمیت بزرگوں، نوجوانوں اور بچوں کےلیے نہ صرف علیحدہ علیحدہ پیغامات درج ہو تے بلکہ ان سے خلوص اور محبت کی خوشبو بھی آتی تھی، بڑے پیمانے پر فروخت ہوتے تھے۔ اس سے بچوں، جوانوں اور بزرگوں کو رشتوں کا لحاظ کرتے ہو ئے ایک دوسرے کو پیغامات بھیجنے کا سلیقہ آتا تھا اور ساتھ ہی ساتھ ان کے دلوں میں محبتوں کے ساتھ ساتھ رشتوں کا احترام بھی نظر آتا تھا۔
گو کہ یہ محبتوں سے مزین کارڈ بھیجنے کا سلسلہ رمضان المبارک کے پہلے عشرے سے ہی شروع ہوجاتا مگر رمضان کے آخری عشرے میں اس میں بے پناہ اضافہ نظر آتا تھا جس کے تحت دنیا بھر سے آنے والے اور جانے والے عید کارڈوں کی تعداد کی، جو لاکھوں میں ہوا کرتی تھی، ڈیلیوری اور تقسیم کا مرحلہ شروع ہوجاتا تھا جس کےلیے پوسٹ آفس کو اپنے عملے سے ڈبل ڈیوٹی لینا پڑتی تھی۔ بسا اوقات پوسٹ آفس میں تین تین شفٹوں میں صرف عید کے کارڈز بھیجنے اور آنے والے کارڈوں کو تقسیم کرنے کےلیے کام کرنا پڑتا تھا۔ اسی طرح بیرون شہر سے آنے والے عید کارڈوں کی تعداد بھی لاکھوں سے کم نہیں ہوتی تھی جس کے سبب پوسٹ مینوں کے کام میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا تھا اور پوسٹ مین انہیں دن اور رات میں تقسیم کرتے نظر آتے تھے۔ مگر بہت سے پوسٹ مین ایسے بھی ہوتے تھے جو آنے والے عید کارڈز چھپا کر رکھ لیتے تھے اور عین عید والے روز انہیں گھر گھر تقسیم کرکے عیدیاں وصول کرتے اور لوگ انہیں بخوشی عیدی دیا کرتے تھے۔ بلکہ اکثر گھروں میں محبت کا پیغام لے کر آنے والے ان پوسٹ مینوں کی سویوں اور کھانے پینے کی اشیاء سے تواضع بھی کی جاتی تھی۔
پھرجب زمانے نے ترقی کی اور انٹرنیٹ، سوشل میڈیا، واٹس ایپ، فیس بک، انسٹاگرام اور ایس ایم ایس کے ذریعے مہینوں کا سفر سیکنڈوں میں طے ہو نے لگا تو گویا تو لوگوں کی دنیا ہی بدل گئی اور انہوں نے عید کارڈ کی خریداری ہی چھوڑ دی جس کے پیش نظر نہ صرف عید کارڈ چھاپنے والے پریس نے عید کارڈ چھاپنے بند کردیئے بلکہ وہ نوجوان جو رمضان المبارک کے مہینے میں ٹائم پاس کرنے اور عید کے خرچے نکالنے کےلیے شہر بھر میں عید کارڈوں کے اسٹال لگایا کرتے تھے، انہوں نے بھی عید کارڈ کی خرید و فروخت میں دلچسپی لینا چھوڑ دی۔
بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ انہوں نے بھی اپنا کاروبار تبدیل کرلیا جس کے سبب عید کارڈوں کے ذریعے شہر کے گلی کو چوں، محلوں اور شاپنگ سینٹروں میں لگائے جانے والے عید کارڈ کے اسٹال یکسر ختم ہو کر رہ گئے اور ان کی جگہ بزرگوں، نوجوانوں اور بچوں نے جدید سہولیات کا سہارا لے کر بجائے اپنے عزیز و اقارب، دوست احباب کو خوشیوں بھرے عید پیغامات بھیجنے کے صرف ’’ہیلو ہائے‘‘ پر اکتفا کرنا شروع کردیا ہے جس میں نہ تو محبتیں ہوتی ہیں اور نہ ہی وہ پہلے جیسا خلوص نظر آتا ہے جسے عموماً لوگ وقت کی کمی قرار دیتے ہیں۔
مگر یہ وقت کی کمی نہیں بلکہ رشتوں میں فاصلوں اور محبتوں کی کمی ہے جسے دور کر نے کےلیے ہمیں مل جل کر ایک بار پھر عید کارڈوں کے پرانے اور فرسودہ نظام کو زندہ کرنا ہوگا جس سے نہ صرف آپس میں پیار بڑھے گا بلکہ نوجوان، بوڑھے اور بچے ایک دوسرے کے قریب آئیں گے۔