تحریر : یاسر عرفات
ہم ایک ایسے پر فتن دور میں جی رھے ھیں جسے گرگ آشتی کہا جائے تو بے جا نہ ھو گا۔ گرگ فارسی میں بھیڑئیے کو کہتے ھیں اور آشتی کا مطلب ھے صلح صفائی ، دوستی۔ یعنی گرگ آشتی سے مراد ھے بھیڑیوں کی سی دوستی اور صلح صفائی۔ یہ دوستی اور صلح صفائی کیسی ھوتی ھے کہ انسانوں نے اس پہ محاورے بنا ڈالے۔یہ دیکھنے کے لئے آپ میرے ساتھ مولانا محمد حسین آزاد کو یاد کیجیے۔کیا غضب کے انشا پرداز تھے۔ کسقدر دلکش و مسجع مرفع اردو لکھا کرتے تھے کہ دوبارہ ان کا کوئی ثانی ابھی تک پیدا نہیں ھوا۔ خود اپنے دور میں تو وہ اپنی تحریروں کے بل پہ دنیائے ادب میں راج کرتے ہی تھے۔ آج بھی کوئی ان کی تحریریں پڑھ لے تو ان کے سحر سے آزاد نہیں ھو سکتا۔
اپنی کتاب سخندان فارس میں انہوں نے ایک مضمون میں اپنے ایران کے سفر کا احوال قلمبند کرتے ھوئے بتایا ھے کہ ایران میں موسم سرما میں اسقدر سردی پڑتی ھے کہ تمام کاروبار حیات ٹھپ ھو جاتا ھے۔ گلیاں بازار سونے پڑ جاتے ہیں اور انسان تو انسان تمام دیگر ذی روح بھی کہیں نہ کہیں روپوش ھو جاتے ھیں ایسے موسم میں بھیڑیوں پہ بڑا کڑا وقت آپڑتا ھے۔ بھیڑئیے ایران میں بکثرت پائے جاتے ھیں۔ یہ گوشت کے سوا اور کچھ نہیں کھاتے اور یہ خوراک کو ذخیرہ کرنا بھی نہیں جانتے۔ یہ اپنے جسم پہ موجود موٹے فر کی وجہ سے شدید موسم میں بھی باہر پھر سکتے ھیں لیکن پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے انہیں کوئی شکار ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔ کسان اپنے جانوروں کے گلے محفوظ مقامات پہ بند کر کے ان کی سخت حفاظت کرتے ھیں۔
لہذا کوئی بھیڑ بکری بھی ان کے ہتھے نہیں چڑھتی۔ ایسے پر آشوب وقت میں یہ بھوکے بھیڑئیے دس،دس بیس،بیس جمع ھو کر بیٹھ جاتے ھیں۔ اور ہر بھیڑیا اپنی چوکنی آنکھ دوسروں پہ جمائے رکھتا ھے۔ ہر چند بھوک،پیاس اور تھکن سے نڈھال ھوتے ھیں مگر کوئی دوسرے پہ اعتبار کرنے کو تیار نہیں ھوتا۔ سب ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بیٹھے رہتے ھیں۔ مگر نیند تو ایسی ظالم چیز ھے جو سولی پہ بھی آ جاتی ھے۔ یہاں بھی کسی نہ کسی پہ آخر نیند کا غلبہ ھو ہی جاتا ھے اور جونہی اس بد نصیب کی آنکھ جھپکتی ھے باقی سب جو اسی تاک میں ھوتے ھیں پل بھر میں اسکی تکا بوٹی کر ڈالتے ھیں اور جو جس کے ہاتھ لگتا ھے اس سے اپنا پیٹ بھر کر پھر اسی طرح ایک دوسرے کے ساتھ بھڑ کر بیٹھ جاتے ھیں اور ایک دوسرے کو گھورنے لگتے ھیں کہ دیکھو اگلی باری کس کی ھے۔ اسی سے اہل ایران نے گرگ آشتی کی اصطلاح نکالی ھے یعنی ایسی دوستی جو بھیڑیوں کے درمیان ھوتی ھے۔
ایرانیوں کا تو پتہ نہیں لیکن اگر محمد حسین آزاد زندہ ھوتے تو دیکھتے کہ آج انسانوں کی دوستی اور صلح صفائی اور بھیڑیوں کی گرگ آشتی میں کوئی خاص فرق نہیں رہ گیا۔کیا اب کسی ملک کی کسی دوسرے ملک سے دوستی اور میل ملاپ کا کوئی بھروسہ ھے؟ وہ ملک جو اچھے پڑوسی اور دوست ھونے کا دعویٰ کرتے ہیں پلک جھپکتے میں اپنا اصل رنگ دکھا جاتے ہیں اور سب سے بڑے بھیڑئیے کا تو جواب ہی نہیں ایسے مقام پہ اپنے پنجے نکالتا ھے کہ مقابل کو سانس لینے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ ملکوں اور قوموں کی سطح پہ گرگ آشتی دیکھتے ھوئے معاشرتی سطح پہ آ جائیے۔
یہاں بھی گرگ آشتی عروج پہ دکھائی دے گی۔اگر آپ دوسرے معاشروں کے باطن میں جھانکنے سے قاصر ھیں تو اپنیمعاشرے پہ ایک نگاہ غلط انداز ڈال لیجیے۔ حکومت، سیاسی جماعتیں، دینی گروہ، ڈاکٹر، تاجر ،وکیل، سیاستدان، طلبا، اساتذہ، ہمسائے، رشتیدار سبھی گرگ آشتی میں مصروف دکھائی دیں گے۔ معلوم ہی نہیں ھوتا کہ کون کب اور کہاں سے وار کرنے والا ھے۔
کبھی کبھی میں سوچتی ھوں کہ فرشتوں نے کچھ غلط تو نہ کہا تھا کہ اے رب تو ایسی مخلوق کو خلیفہ ارض مقرر کر رھا ھے جو زمین پہ فساد برپا کرے گی لیکن میرا رب جو جانتا ھے وہ ہم نہیں جانتے پھر بھی یہ کہنے کو جی تو چاہتا ھے کہ تخلیق کائنات کے دلچسپ جرم پہ۔ ہنستا تو ھو گا آپ بھی یزداں کبھی کبھی انسانوں کے اس جنگل میں کون کب دانت نکوس کر پنجے نکال لے ہم اس سے واقف ہی نہیں۔ اللہ ہم سب پہ رحم فرمائے۔ ہم نہ اس گرگ آشتی کا نشانہ خود بنیں نہ ہی دوسروں کو بنائیں۔آمین اس دور احتیاج میں جو لوگ جی لئے۔ ان کا بھی نام شعبدہ کاروں میں آئیگا
تحریر : یاسر عرفات