تحریر: عفت بھٹی
کچھ دن سے وہ بخار میں مبتلا تھی گھر میں موجود ادویات کھانے کے بعد بھی اسے آرام نہیں آیا۔ شاید سوچوں اور تذلیل کا دکھ بخار کی صورت بھڑاس نکال رہا تھا، آج اتفاق یا اس کی خوش قسمتی کہ کمال جلدی میں تالا لگانا بھول گیا، وہ سردی سے کانپتے ہوئے گھر سے باہر نکل آئی سڑک کے کونے پہ ایک کلینک تھا وہ وہاں چلی گئی۔
وہ ایک انڈین لیڈی ڈاکٹر تھی اس نے اس کی حالت کے بابت پوچھا ہانیہ نے سب کہہ سنایا ڈاکٹر نے اسے حیرانی سے دیکھا تم کب سے یہ سب برداشت کر رہی یہ پاکستان نہیں تم پولیس سے رجوع کرو وہ تمھیں تحفظ دے گی۔لو کال کرو،ہانیہ نے کال کی اور ساری صورتحال بتائی۔
پولیس نے کمال کو گرفتار کر لیا اور اس پہ ہانیہ کو حبس ِ بے جا میں رکھنے کا مقدمہ درج ہوا ۔اور ہانیہ کو لندن گورنمنٹ نے اپنے خرچے پہ ہاسٹل دیا جہاں اسے ہر ہفتے مخصوص رقم خرچ کے لئے دی جاتی۔
کمال کے والدین نے اس کی ضمانت کر وا لی وہ ہانیہ سے بھی ملنے آئے اور صلح کے لئے کہا مگر ہانیہ خلع لینا چاہتی تھی وہ قطعا کمال پہ اعتبار کرنے کو تیار نہ تھی ۔ہانیہ کے والدین بھی چاہتے کہ صلح ہو جائے ۔مگر ہانیہ نے ان کو بھی انکار کر دیا۔کمال نے غصے میں ہانیہ کو بد کردار قرار دیا اور اس کے والدین کو بھی اس کے متعلق گمراہ کیا پورے خاندان میں باتیں ہونے لگیں۔
ہانیہ کے والدین نے کمال سے وعدہ کیا کہ وہ ہانیہ کو واپس پاکستان بلوا کر اس رشتے کو از سر نو قائم کرنے کی کوشش کریں گے۔ہانیہ نے اپنے والدین سے فون پہ بات کی تو انہوں نے اسے کمال کے ساتھ واپس جانے کو کہا اس بات نے اس کے دل میں گرہ سی لگا دی وہ دوبارہ وہ زندگی جینا نہیں چاہتی تھی۔
اس نے اپنے تمام کانٹیکٹ نمبر بند کر دیئے اس کے خیال میں اسے اب خود اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے وہ کورٹ میں خلع کا مقدمہ دائر کر چکی ہے اور جلد علیحدگی کے بعد پاکستان واپس چلی جائیگی،مگر سوال یہ ہے کیا پاکستان میں اسے کوئی سپورٹ کرے گا ؟ایک اکیلی طلاق یافتہ عورت اس نام نہاد مردانہ معاشرے میں پنپ پائے گی؟شاید ان سوالوں کا جواب قبل از وقت ہے۔ ختم شد
تحریر: عفت بھٹی