تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
کرپشنی جوہڑ میں غوطے لگاتے حکمران اور ڈرون حملوں سے بھی تباہ نہ ہوسکنے والے دہشت گرد در اصل چکی کے وہ دو پاٹ ہیں جن کے درمیان بھوکی ننگی مظلوم طبقات پر مشتمل رعایا پس کرمیدہ بنتی جارہی ہے۔ایک طرف ظالم جاگیرداروں ،کرپٹ وڈیروں، نو دولتیے سرمایہ دار صنعتکاروں پرمشتمل حکمران اور منہ بولتے بھائیوں جیسی فرینڈلی اپوز یشن ہے دوسری طرف مزدور کسان اور ہاری ہیں کہ دو وقت کی نان جویں کو بھی ترس رہے ہیں ۔حکومتی پالیسیوں نے کسانو ں کی تو کمر ہی توڑ ڈالی ہے۔بھوک سے بلکتی خواتین بچوں سمیت مختلف طریقوں سے خود کشیاں کر رہی ہیں ۔اندھوں میں کانا راجا بنے شریفین،زرداری ،عمران اور کٹھ ملائیت کے علمبردار ملاں ہر قسم کے حربوں سے کرپٹ ترین افراد کواپنی نام نہاد سیاسی پارٹیوں میں شامل کرکے آئندہ عام انتخابات پیسے کے زورپر جیتناچاہتے ہیں ۔عمرانی گاڑی سر پٹ دوڑ رہی تھی کہ عرصہ درازسے مقتدررہنے والی سیاسی جماعتیںجنھیں کھلنڈرے بچوں کے حرام مال پر پلنے والے کلب کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ افراد کو اپنے انصافی بینر کے نیچے جمع کرنا شروع کردیااور آج تک یہ اقتدار کے حصول کی دوڑ جاری ہے ۔غریب عوام کدھر جائیں ؟الیکشن صرف سرمایہ داروں کا کھیل بن چکا ہے کہ اس کھیل کے میدان میں اترنے کے لیے بھی کروڑوں روپے فالتو موجود ہو نا ضروری ہیں ۔دینی پارٹیاں کہیں کہ ہیں مگر نہیں ہیں فرقہ وارانہ بنیادوں پر چند لو گوں کو ایک کٹھ میں باندھ رکھاہے۔
وگرنہ قومی اتحاد کے 1977کے دور کی تحریک نظام مصطفی میں جس طرح اس وقت کے سیاستدانوںنے کردار ادا کیا وہ رہتی دنیا تک یاد رہے گا۔سینکڑوں کارکن شہید اور ہزاروں معذور ہوئے اور لیڈروں نے ضیاء الحقی آمریت کے دست بستہ غلام بن کر فوراًوزارتیں سمیٹ لیں ۔اور فیکٹریاں لگانے و مال بنانے کا کاروبار عروج پر رہا۔دریں اثناء کرپٹ لادین بیورو کریسی میں مزید افراد کو پلانٹ کرڈالاجو آج تک ان کی اور ان کے لوٹے ہوئے سرمایہ کی حفاظت کر رہے ہیں اور خود بھی کرپشنی حمام میں ان کے ساتھ الف ننگے نہا رہے ہیں ۔اب موجودہ حکمرانوں کا تو ٹارگٹ ہی یہ ہے کہ تمام اہم ملکی ادارے واپڈا ،ریلوے ،پی آئی اے و سٹیل ملز وغیرہ فوراً اپنے عزیز و اقارب اور دوست احباب وکاروباری ساتھیوں کو اونے پونے داموں فروخت کر ڈالیں اور زرداری کے جمع اور دفن کردہ پندرہ ملین ڈالر سے بھی کم ازکم دگنا تگنا مال جمع کرلیں۔
تاکہ آئندہ انتخابات میں ووٹروں کی خرید و فروخت آسانی سے ہو سکے کرپٹ سیاستدانوں کے کٹھ پر مشتمل مقتدر طبقات الیکشن جیتنے کے لیے ووٹ کے اندراج سے لے کر پولنگ کے نتیجہ تک سینکڑوں ہیرا پھیری کے حربے اختیار کرتے ہیں اور ہر کل پر مال لگاتے ہیں تاکہ کوئی لوپ ہول نہ رہ جائے جہاں سے جیتنے کے بعد پکڑے جاسکیں اور انتخاب کالعدم قرار پائے اپنے پسندیدہ ووٹرز کو دوسرے حلقوں سے لاکر اپنے حلقہ میں درج کروانایعنی ووٹ ٹرانسفر ایک بڑا حربہ ہے ۔سود خوروں کا سارے پولنگ سٹاف کو خرید ڈالنابائیں ہاتھ کا کھیل ہے کہ کنجری اسی کی ہوتی ہے جو مال لگائے گا۔جب کسی گاہک سے مال ختم ہو جائے تو “اُس بازار”کے طبلے والے بھی اسے اٹھا کرکوٹھے سے نیچے پھینک ڈالتے ہیںشورش کاشمیری نے ٹھیک کہا تھاکہ
ہمارے ملک کی سیاست کا حال مت پو چھ
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
راقم الحروف ضلع بہاولنگر کے ایک قومی اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں جو کہ مشرف دور میں ہو ا شہر کے 60 پولنگ اسٹیشنوں میں سے57پر جیتا تھاکہ دیہاتوں کے پولنگ اسٹیشنوں سے بستہ اٹھائے آنے والے ماسٹر صاحبان کو گھیر کران کے ہاتھ سے پولنگ کا رزلٹ لے کرانتخاب کے نتیجہ کو مکمل الٹا دیا گیا۔ہر انتخابی نتیجہ پرفرض محال میرے چار سو اٹھاون ووٹ تھے اور ہارنے والے کے 68تو میرے 458کے ہندسے چار پر سفید سیاہی لگادی گئی اور اس کے58کے بائیں طرف چار لکھ ڈالامیں تقریباً400ووٹوں سے جیت رہا تھا ور میں آٹھ سو ووٹ سے ہار گیااس طرح تمام دیہاتی پولنگ اسٹیشنوں کا نتیجہ پولیس کے اعلیٰ افسران کی نگرانی میں مرتب کیا گیااور میری فتح کو شکست میں تبدیل کرکے وزیر اعلیٰ کے رشتہ دار اور برادری والے کو جتاڈالا گیاجس نے انتخابی مہم کے دوران تقریروں میں توہین رسالت بھی کرڈالی تھی اور اسے الیکشن سے قبل ہی حلقہ کے الیکشن سے بھاگ جانا پڑا تھاکہ جان کی سلامتی اسی میں تھی کہ لوگ بپھرے ہوئے تھے مقدمہ درج نہیں کیا جارہا تھااور وہ کسی صورت توہین رسالت برداشت کرنے کوتیار نہ تھے۔آئندہ انتخابات بھی اگر ایسے ہی منعقد کیے جاتے ہیں تو ملک کا خدا ہی حافظ ہو گااب تو سود خور کرپٹ امیدوار پہلے سے بھی زیادہ مال خرچ کریں گے اور پھر تین گناکرنے کے لیے سرکاری خزانہ کو لوٹیں گے اور شیر مادر سمجھ کر ہضم کر جائیں گے ضرورت اس امر کی ہے کہ غریب عوام سیاسی جماعتوں سے اسی طرح نفرت کا اظہار کریں جیسا کہ بلدیاتی انتخابات میں کیا ہے کہ بڑی مقتدر سیاسی پارٹیوں کی ٹکٹ لینا بھی گوارا نہیں کیا۔
آزاد رہ کر امیدوار بننا زیادہ ترجیح رہی نتیجتاًجتنے ووٹ آزاد امیدواروں نے حاصل کیے مقتدر پارٹیاں اس سے ایک تہائی بھی حاصل نہ کرسکیں۔اب لالچوں سرکاری بھرتیوں کا پنڈورہ باکس کھل چکا ہے۔مویشی منڈیوں میں بھیڑ بکریوں ،گدھوں کی طرح بولیاں لگ رہی ہیں ۔ضمیروں کی خرید و فروخت کا مکروہ ہول سیل کاروبار جاری ہے تاکہ ہر صورت اقتدار حکمرانوں کی جماعتوں کے حصہ میں آئے اور ویسے بھی ایسے قوانین مرتب کرڈالے گئے ہیں کہ بلدیاتی ممبران صرف حکومتی کٹھ پتلی بن کر ہی رہ سکتے ہیں ایسے پنجرے میں بند طوطوں کی جان اقتداری طوطے کے پاس ہی ہے ۔ حکومتی نامزد کردہ ایم پی اے چئیرمین تک کا احتساب کرسکتا ہے۔یہ انجمن غلامان شریفین جیسے بلدیاتی ادارے عوام کی کیا خدمت کریں گے کہ حکومتی اجازت کے بغیر شاید رفع حاجت کے لیے بھی نہ جاسکیں ۔بلدیاتی اونٹ رے اونٹ تیری کونسی کل سیدھی ہے ؟بہر حال خدائی کوڑا لازماً برسے گااور تمام آزاد ووٹرز کسی نئی بننے والی جماعت کا ساتھ دیں گے اور اللہ اکبر کے لفظ سے زیادہ کو ئی متبرک اور انتہائی قابل قبول نام ہو ہی نہیں سکتا ا س لیے عوام جس گائے کے ذبح کرنے پر انڈیا میں مسلمان ذبح کیے جارہے ہیںاسی گائے کے نشان پر مہریں ثبت کرکے اللہ اکبر تحریک کی کامیابی کا انقلاب برپا کرڈالیں گے۔
صنعتکارانہ حکمرانی میں توگیس بجلی سٹیل ملز بند ہیں ۔یوٹیلٹی سٹور تباہ حال وہاں چینی تک بھی کبھی نہیں ملتی بھوک مرتے ننگ دھڑنگ نوجوان دہشت گردوں کا جلد شکار بن جاتے ہیں اور ہر قسم کی وارداتوں کے لیے تیار بھی۔ڈرون حملوں میںناجائز طور پر ہلاک شدگان کے لواحقین بدلہ مہم کی وجہ سے ہر قسم کی دہشت گردی کے لیے ہر وقت تیار ملتے ہیں ۔خود کش بمبار توایٹم بم سے بھی خطرناک ہتھیار ہیں کہ جب چاہے تباہی کرسکتا ہے ۔ان کی ذہنی کیفیتوں کا اندازہ کرنا بھی اشد ضروری ہے پھر اس کے مطابق ہمیں اپنی پالیسیاں مرتب کرنا ہوں گی تاکہ یہ عذاب ٹل سکے معیشت کو سنبھالیں غربت دور کرنے کے اقدامات کریںکہ بھوک بھی کفر کے نزدیک کرڈالتی ہے اور آدمی دوسروںسے تو کیا خود اپنے آپ سے بدلہ لینے کے لیے تیار اور خود کشی پر آمادہ شخص دوسروں کو مارنے میں کوئی تردد محسوس نہیں کرتادہشت گردی ختم نہیں بلکہ معشوق کی زلف کی طرح دراز ہوتی جارہی ہے قوم سخت سراسیمگی کے عالم میں ہے اس کا قلع قمع حکمت اور طاقت سے کرنا ہو گاخدا افواج پاکستان کو کامیاب و کامران کرے تاکہ چارسدہ یونیورسٹی اور آرمی پبلک سکول پشاور جیسے واقعات کی تاریخ نہ دہرائی جاسکے۔
تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری