سرکاری سکولوں میں پڑھنے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپ وقت سے پہلے ہی بہت سی باتیں سیکھ جاتے ہیں جن باتوں کے میرٹ پر ہماری عمر کا وہ دورانیہ اور دماغی بالیدگی یقینی طور پر پورا نہیں اترتی۔ ابھی تو ناچیز پر جوانی پوری طرح حاوی و طاری ہے مگر ذہنی صحت کا یہ حال ہو چلا ہے کہ ابھی سے بچپن کی اکثر یادیں دماغ کی ہارڈ ڈسک میں سے ڈیلیت ہوتی جارہی ہیں۔ ہاں مگر سکول کی ایک یاد ابھی بھی لوحِ ذہن پر کسی صحیفے کی طرح واضح محفوظ ہے۔ کلاس میں دو گروپس تھے۔ ایک گروپ جو لڑاکو اور جھگڑالو گروپ کہلاتا تھا جس کے لیڈر کا نام اطہر تھا مگر کلاس میں سب لڑکے حتیٰ کہ اساتذہ بھی اسے ‘جیرا’ کہہ کر بلاتے تھے۔ ہم لوگ انہیں دیکھ دیکھ اس گمان پر ایمان کی حد تک یقین رکھتے تھے کہ ان لڑکوں کا شجرہ نسب ماضی میں کسی نہ کسی لڑی سے ہوتا ہوا چنگیز خاں اور اس طرح کی لڑاکو شخصیات سے ملتا ہوگا جو یہ ہر دم کسی نہ کسی طرح حالتِ جھگڑا میں رہتے ہیں۔ ان کے نزدیک کسی اور شخص کی ذرہ بھر بھی اوکات نہیں تھی یہاں تک کہ کلاس میں کوئی استاد بھی ان سے اونچی آواز میں بات کرنے کی جسارت کرتا تو وہ بزرگ استاد سے الجھ پڑتےاور پھر اس استاد کی ساری عمر کی عزت ان لڑکوں کے سب وشتم، گالم گلوچ کے شدید جملوں کے سامنے شرمندہ ہونے لگتی۔ مجھے آج بھی اپنے استاد کا شرمندگی میں ڈوبا وہ چہرہ یاد ہے۔
کلاس میں دوسرا گروپ ہم جیسے لڑکوں پر مشتمل تھا جن میں سے اگر کسی ساتھی کا خون استاد کی اس بے عزتی پر جوش مارتا اور وہ ان لڑکوں کو اس حرکت پر لعن طعن کرتا تو اس کا انجام استاد سے بھی بدتر ہوتا۔ وہ سارا گروپ ہم سب لڑکوں پر قہر بن کر ٹوٹ پڑتا۔
اور یوں کسی کی صدا احتجاج پر شروع ہونے والی اس لڑائی میں ہمیں بھی کودنا پڑتا اور اس لڑائی کا انجام ہمیشہ ایک جیسا ہی ہوتا تھا ہم لڑکوں میں سے کسی کے چہرے کا حلیہ بگڑ جاتا تو کوئی ایک دو ہفتے کے لئے سکول آنے سے ہی قاصر ہو جاتا۔
لڑائی کا پرامن اختتام صرف معذرت طلبی پر ہی ہوتا اور ایک بات طے ہوتی تھی کہ معافی ہمیشہ ہمیں ہی مانگی پڑتی تھی۔ گویا مفاہمت کے کسی دوسرے راستے کا سرے سے وجود ہی نہیں تھا۔
پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ سکول کے اعلیٰ عہدیداروں کے دباؤ اور روز روز کے ان لڑائی جھگڑوں سے سب ہی تنگ آ چکے تھے اور اس نتیجے پر سب فریقین متفق ہوگئے کہ کوئی گروپ دانستہ یا نادانستہ طور پر کوئی ایسی بات یا حرکت نہیں کرے گا جس سے محاذ آرائی والی کیفیت دوبارہ جنم لے سکے۔
اور کلاس کا ماحول ‘پُر امن’ ہونے لگا۔
کلاس میں کچھ ایسے لڑکے بھی موجود تھے جن کی دونوں فریقین کے ساتھ خوشگوار تعلق استوار تھے۔ ان لڑکوں کو ‘نیوٹرل’ گروپ کہا جاتا تھا اور کلاس میں سب کے سب طلبہ صرف اس گروپ کی عزت کرتے تھے۔ وہ خود کو بظاہر ہمیشہ ہر گروپ سے علیحدہ ہی رکھتے تھے، کسی لڑائی کا حصہ نہیں بنتے تھے، بس اپنے کام سے کام رکھتے تھے۔ مگر ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب ہم ان لڑکوں کی بھیانک عادت سے آشنا ہوئے۔
عادت کہہ لیجیے یا یہ ان لڑکوں کا ہنر تھا کہ وہ کلاس کے گروپس کے لڑکوں میں ہونے والی آپسی اور پرائیوٹ گفتگو کی پیغام رسانی بہت خطرناک انداز میں کیا کرتے تھے۔
نفرت اور رنجش میں بھجے ہوئے الفاظ سے ایسا واقعہ تخلیق کرتے جو کلاس کی تاریخ میں کبھی رونما نہیں ہوا ہوتا تھا۔ وہ لڑکے اسی نوعیت کے واقعات کبھی ہمیں اور کبھی جیرے گروپ کے لڑکوں کو ذمہ داروں کا ‘نام’ لئے بغیر سناتے تھے۔ ان واقعات کو سننے کے بعد جیرے اور اس کے گروپ کے لڑکوں کے چہرے جلالی کیفیت میں لال ہو جاتے اور اپنے مخالفین پر یلغار کرنے کے لئے کمر کس لیتے۔
ان واقعات کو سننے کے بعد ہمارے گروپ کے لڑکے ہمیشہ درگزر سے کام لیتے، خون تو ہمارا بھی کھولتا مگر کیا کرتے؟ انجام سے آشنا ہونا ہمیں کوئی سنگین قدم اٹھانے سے باز رکھتا۔
آج بھی اس ‘نیوٹرل’ گروپ کے لڑکوں کے چند جملے یاد آتے ہیں جو واقعات سناتے ہوئے دہراتے تھے:
“انہوں نے فیصلہ کرلیا ہے جن سے کلاس میں سب ڈرتے ہیں”۔ “وہ لوگ تمہارے خلاف پلاننگ کر رہے ہیں جو تمہارے گروپ کے ایک ایک لڑکے کو گھر واپسی کی راہ میں نامعلوم افراد بن کر پیٹتے ہیں”۔ “وہ بہت غصے میں ہیں جن کے پاس پاور ہے”۔
اور انہی چہ مگوئیوں کی وجہ سے کلاس میں کسی نہ کسی وجہ سے جھگڑا ہو ہی جاتا تھا۔ میٹرک کے امتحانات وقت پر ہوئے اور آخر ہماری جان اس عذاب سے آزاد ہوئی۔
آج کل کے سیاسی حالات کی بحران نما صورت، اداروں سے محاذ آرائی والی کیفیت اور میڈیا پر خفیہ اور ‘اندر’ کی خبریں دینے والے تجزیہ کاروں کی حالات کی تصویر کشی کو دیکھ کر اپنے سکول کے دن یاد آ رہے ہیں۔
ایک کام جو نامکمل خواہش کی طرح دل میں رہا اور شرمندہ تکمیل نہ ہوسکا کہ کاش ہم ‘نیوٹرل’ لڑکوں کا اصل چہرہ پہچان جاتے اور انہیں بلاوجہ لڑائی کا ایندھن بننے سے روک سکتے۔
ہمارا گروپ اور جیرے کا گروپ شائد پر امن طریقے سے مفاہمت کی راہ پر گامزن ہو جاتا اگر دونوں مل کر اس نیوٹرل گروپ کا بھرپور انداز میں سد باب کر لیتے۔