تحریر : شاہ بانو میر
اے پیغمبر ان کو کہنے دو یہ قیامت کے دن اپنے اعمال کا پورا بوجھ اٹھائیں گے٬ اور کچھ بوجھ اِن لوگوں کا بھی جن کو یہ بے تحقیق گمراہ کرتے ہیں ۔ سن رکھو !!کہ جو یہ بوجھ اٹھا رہے ہیں وہ برے ہیں۔ قرآن پاک کے جمال کا یہ کمال ہے کہ ماضی کے واقعات کے ساتھ ہی حال کا ذکر اس مستحکم انداز میں کیا گیاہے کہ جب آپ ترجمہ پڑھتے ہیں تو شعور جاگتا ہے اور آپکو محسوس ہوتا ہے کہ یہ کلام 1400 سال پہلے اترا ضرور تھا مگر یہ بیان قیامت تک کے لوگوں کیلیۓ ہے ۔ میں خود بھی اس قرآن کی پُکار میں “” والذین یومنون کی صورت موجود ہوں اور کیا میں بھی رہنما ہوں اور اگر ہوں تو کیا میں اپنے ساتھ اور اپنے ہمراہ لوگوں کیلیۓ اسلامی تعلیمات کے مطابق درست مکمل معلومات فراہم کرنے میں کامیاب ہوں یا محض لفاظی سے جھوٹ سے کامیاب ہوں؟ اگر ہم ایسا کر رہے ہیں تو کل ہمارا انجام اسی ترجمے میں موجود ہے۔
سوچئے کیا ہم اللہ کے بیان کردہ لیڈر کی صفات پر پورا اترتے ہیں؟ کیا ہم دوسروں کو اس پیغام حق کی دعوت دے رہے ہیں اور خود اس پیغام کو سمجھ چکے ہیں؟ اسلام ہمیں پہلے رول ماڈل دیتا ہے حضرت عمرؓ کی مثال آج بھی اسلامی اور غیر اسلامی ممالک میں پیش کی جاتی ہے ان کے رفاحی نظام کی خوبصورتیاں عمر ؓ نظام سے سے لی گئی ہیں ۔ سوچئے 24 ہزار میل تک جس فرما نروا کی حکومت ہو اس کے نام کی دھاک بیٹھی ہو ۔ اس سے ملنے رومی ایلچی آتا ہے تو کسی پرشکوہ محل میں نہیں زمین میں خاک پر سوئے ہوئے پاتا ہے۔ قبلہ اول کی چابیاں وصول کرنے جاتا ہے تو عسرت کے باعث سواریاں کم ہیں تو باریاں مقرر کی جاتی ہیں۔ اور جب منزل قریب آتی ہے تو عمرؓ کی ہیبت سے لرزنے والے دیکھ کر حیران ہیں اسلام کے اس عظیم رہنما کے ہاتھ میں مہار ہے اور غلام اپنی باری کی وجہ سے اونٹ پر سوار ہے۔
اسلام رہنما اسکو بناتا ہے جو کیس بھی مقصد میں کسی بھی منصوبےکے آغاز سے انجام تک وہاں موجود رہے تا کہ ذرہ بھر نا ناانصافی نہ ہو وہ ہر ایک عمل کا خود جائزہ لے اورتمام معاملات کو دیکھ کر کامیاب حکمت عملی طے کرے ۔اس کے برعکس آج کا رہنما سب سے آخر میں آتا ہے اور اس سے پہلے روانہ ہو جاتا ہے ۔ اس سے کمزور نظام پنپتا ہے۔ اس دھکم پیل میں ہُنر مند ہجوم میں روپوش ہی رہ جاتے ۔ طاقتور لوگ کمزور لوگوں کو رد کر کے خود ہر جگہ لڑ جھگڑ کر آگے آجاتے ہیں اور کچھ دیرکیلئے آنے والا رہنما دھوکہ کھا جاتا ہے اور یوں نا اہل لوگ آگے آکر ادارے کو برباد کرنے کا باعث بن جاتے ہیں یہاں اس آیت میں بتا دیا گیا کہ رہنما اس دنیا میں کتنا ذمہ دار ہو کہ خود اپنے شعبے پر مکمل دسترس رکھتا ہو اور اگر وہ بغیر علم کے گمراہ کن انداز میں چکاچوند پیدا کر کے عارضی فائدے لے گا تو دنیا تو نہیں جان پائے گی مگر اللہ ہاں ایسے رہنما اپنے اعمال کے مکمل ثبوتوں کے ساتھ پیش ہوں گے ۔ اپنے جرائم کے ساتھ اپنے پیچھے والوں کے گمراہ کُن اعمال کی سزا بھی اس پاداش میں بھگتیں گے کہ انکے اعتماد کو دھوکہ دیا۔ اگر آپ کسی بھی شعبے سے وابستہ ہیں اور آپ اس کے حقدار نہیں ہیں۔
لوگ اللہ کی رحمت کے سبب آپ پر بھروسہ کرتے ہوئۓ آپ کے پیچھے ہیں تو جان لیجیۓ آپ بہت بڑے امتحان میں گھِرے ہوئے ہیں۔اگر آپ نے اپنے پیرو کاروں کو اس شعبے میں ذاتی مفاد کیلئے استعمال کیا اور انہیں وہ رہنمائی نہ دی جو آپکے عہدے کا فرض تھا تو کل جو حشر ہوگا وہ کھلا بیان کر دیا گیا ہے٬ سوچئے نہیں ہم غور کرتے اور اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو محنت سے سچائی سے لوگوں میں لے کر جاتے؟ بار بار قرآن پاک پکارتا ہے کہ یہ کتاب (عقل مند) لوگوں کیلیۓ ہے ٬اہل علم والے ہی اس سے استفادہ حاصل کرتے ہیں ۔ کیا آپ عقلمند رہنما نہیں بننا چاہتے ؟ جو نیک لوگوں کے ہمراہ جنت میں جائے ؟ اِنّ فی ذٰلک لاٰية لِقوم یتفکّرون ( اس میں نشانیاں ہیں جو لوگ غور و فکر کرتے ہیں) یہ کتاب ہے لعلھُم یتفکرون (تا کہ وہ غور و فکر کریں ) افلا تزکرون ( کیا پس نہیں تم غور کرتے ) اور کون ہے جو اس کتاب کو کھول کر پڑھنا سمجھنا نہیں چاہتے وہ جو وھُم مستکبرون ( اور وہ تکبر کرنے والے ہیں ) اِنّہُ لا یُحُبّ المُستکبِریِن ( تحقیق وہ ہرگز پسند نہیں کرتا متکبرین کو) اور ان سب کو بیان کرنے کے بعد دنیا میں گُم لوگوں کو وہ عظیم رب پُکار کر کہتا ہے کہ بے شک تمہارا رب بخشنے والا بڑا مہربان ہے۔
وہ تمام لوگ جو کسی نہ کسی سطح پر لوگوں کے رہنما ہیں وہ ذرا احساس تفاخر سے باہر نکلیں اور آج اس آیت کو سمجھ کرذہنوں میں فخر کے خود ساختہ گرے ہوئے دبیز پردے اٹھائیں اور ذہن کے دریچوں کو تازہ افکار کی ہوا لگنے دیں٬ جہالت کی بنیاد پر رہنما بنے٬ نمرود٬ فرعون٬ شداد٬ نے دعوے کئے مگر اللہ نے اپنے احکامات کی سچائی کو ثابت کرتے ہوئے اسی دنیا میں انہیں نیست و نابود کر دیا گیا۔ آئیے اس آیت کے مطلب کو جان لینے کے بعد ہر رہنما کو چاہئے کہ خود کو عاجز بنا کر غلط علم کا پھیلاؤ روک کر گزشتہ رویے پر ندامت کا اظہار کرے ۔ آج سے عباد الرحمٰن بن جائیں جن کواللہ اپنے راستےکیلئے خالص کر لیتا ہے۔ متقین مفلحین میں نام لکھوائیں رہنما وہ نہ بنیں جن پر گمراہی چسپاں کر کے شیطان کا آلہ کار بنا دیتا ہے۔
پیش روہو یا امام یا سماجی رہنما۔ یا دینی عالم ۔ سیاسی رہنما یا استاد سب سے زیادہ بھاری ذمہ داری انہی لوگوں پر پر عائد کر دی گئی اس آیت کو بار بار پڑھنے کے بعد بھی آنکھیں نہ کھلیں اور اسی راستے پر لوگوں کو چلائیں جس راستےکے مقصد سے ہم ناواقف ہیں محض مرتبے کیلئے لوگوں کو بیوقوف بنا رہے ہیں ہم دنیا میں تومعروف ہو جائیں گے ۔ ؤ سب مل گیا مگر پھر بھی مستقل نقصان میں ہیں کیونکہ یہ دنیا اس کے فائدے عارضی ہیں دیرپا نہیں ہیں۔
جبکہ اصل صلہ جو دائمی ہے وہ آخرت ہے جہاں ہر عمل تولا جائے گا ٬ سوچئے وہاں کیا ہوگا جہاں مالک کائنات یہ کہ کر منتظر ہے کہ النحل 19 “” اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم چھپاتےکرتے ہو اور جو کچھ تم ظاہر ہو “” “”فا انی قریب”” “”میں تمہارے قریب ہوں “” کا دو ٹوک اعلان آج رہنماؤں کیلئے شعور جگانے کا موجب ہے ۔ اللہ سے ہماری سوچ کا یا نیت کا یا عمل کا خفیہ رہنا ممکن نہیں ہے۔ وہ تو شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے٬ وہ تو دل بنانے والا ہے پھراس سے پوشیدہ کوئی راز کیسے رہے گا؟ ہر رہنما کو سوچنا ہوگا کھکھناتی ہوئی گارے کی سڑی بدبودار مٹی سے بنایا خاک کا پتلا آج اپنے مالک کا ہر احسان بھول کر خود ناُخدا بن بیٹھا اور مصنوعی نظام قائم کر کےخود کو جو برتر سمجھتا ہے۔ جھوٹ کے اس بے بنیاد نظام میں لوگوں کے ہجوم میں کامیابی کا عنوان بناکیا وہ کامیاب ہے؟ فائدے میں ہے؟۔
حق سے متصادم قرآن کے برعکس یہ خود ساختہ نظام کسی بھی رہنما کے نامہ اعمال کو مسلسل بھاری کرتے ہوئے روز محشر ناکامی کاباعث ہے۔ کامیابی کا راز اسی میں ہےکہ اگر رہنما غلط راستے پرتھے اور لوگوں کواپنے شعبے سے متعلق جھوٹی معلومات سے اپنا قد بڑھا رہے تھے تواس آیت کو پڑھنے کے بعد تائب ہوں اور اللہ سے رجوع کر لیں۔ کہ وہ 70 ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والا جتلاتا نہیں معاف کر کے وہ معافی کی پکار پر فورا معاف کر دیتا ہےاور بطور انعام بہترین لوگوں کی قطار میں کھڑا کر دیتا ہے۔
سبحان اللہ اللہ پاک ان الفاظ میں وہ تاثیر ڈال دے جو پڑھ کر آپ کے دل کی مٹی کو زرخیز کرتے ہوئے آج سے وحدانیت کا بیج ڈال دے جو کل کی نسلوں کیلئے تناور شجر کی صورت اسلام کی تعلیمات کا سایہ فراہم کرے آمین اللہ پاک اس تحریر کو بناوٹ دکھاوے ریا کاری سے مبرا کر کے خالصة دینی سوچ کے پھیلاؤ کیلئے چُن لے آمین الھمہ آمین وما علینا الاالبلاغ المبین۔
تحریر : شاہ بانو میر