تحریر: محمد یاسین صدیق
گزشتہ چند ماہ سے عوام کے ساتھ میرا بھی آگاہی کا سفر جاری ہے۔ عوام کرپشن ،جھوٹ ،غربت کے اسباب ،اور اس کے ذمہ داروں کو بھی جان رہے ہیں اور جو اب مزید مہنگائی ،غربت اور بے روزگاری ہونے جا رہی ہے اس کے ذمہ داروں سے بھی واقف ہو رہی ہے۔ اصل جمہوریت اور پاکستان میں رائج جمہوریت میں جو فرق ہے وہ قوم کے سامنے کھل کر آرہا ہے ۔سچ کیا ہے جھوٹ کیا ہے لوگ اس کو جان رہے ہیں۔
یہ آگاہی جمہوریت،آئین ،قانون کے ساتھ ساتھ ہمارے رہنماوں اور عوام کے بارے میں بھی ہے ۔رہنما ( ) کہ وہ کتنے با اخلاق ہیں ،انہیں بات کرنے کا سلیقہ کتنا ہے ۔وہ کتنے مہذب ہیں ،وہ کیسی دلیلں دیتے ہیں ،اور دلیل دینے کا انداز کیا ہے ۔ سب ایک دوسرے پر الزام لگا رہے ہیں اور اس پر عوام کاتالیاں بجانا ،واہ واہ کرنا ،اور اپنے اپنے پسندیدہ رہنماوں کا دفاع کرنا ان (عوام ) کے باشعور ہونے کی نشانی ہے ۔اور یہ بات ہمارے بہت سے رہنماوں، اینکرز سے ہم نے سمجھی کہ سچ کو جھوٹ کے پردوں میں کیسے چھپایا جا سکتا ہے ۔ اللہ سبحان تعالی کا فرمان ؛سچ کو جھوٹ کے پردوں میں نہ چھپاو: پر کتنا عمل ہو رہا ہے ہمارے بہت سے رہنماء یہ کارنامہ مسلسل سر انجام دے رہے ہیں یا ہم نے اب غور کیا ہے ۔اسی طرح جھوٹ بولنے کا فن کہ جھوٹ اتنی بار بولو کہ وہ سچ لگنے لگے اس سنہری قول پر ہمارے رہنما وںاور دانشوروں(کی اکثریت )نے عمل کر کے اس قول کی صداقت ثابت کر دی۔
جھوٹ بولا ہے تو اس پر قائم بھی رہو ظفر آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہیے۔
جن پارٹیوں میں کھبی پارٹی الیکشن نہیں ہوئے (غیر جمہوری)ہیں وہ جمہوریت کا دفاع کرتی ہیںکہ ہم ہی جمہوریت ہیں ۔اور ان کی تشریح یہ ہے کہ ہم نہیں تو جمہوریت نہیں ہوگی ۔جمہوریت کسی نظام کا نام نہیں ہے بلکہ یہ چند افراد کا نام ہے اگر وہ یا ان کا خاندان اقتدار میں ہو تو جمہوریت ہوتی ہے ورنہ نہیں ۔ اور اب اس جمہوریت کے مقابل بہت سے نئے جمہوریت کے دعوے دار بن کر سامنے آئے ان میں وہ بھی شامل ہیں جو آمریت کی پیدا وار ہیں ،آمر کے ساتھ بھی رہے ،اور وہ بھی جنہوں نے کئی دفعہ پہلے اسی طرح جمہوریت ڈی ریل کی یا کسی نے کوشش کی ۔ یا ان کی وجہ سے ہوئی ۔ اور وہ بھی جو پہلی دفعہ خود کو جمہوریت کہتے ہیں ۔ اور وہ بھی جمہوریت کے نام پر اب اقتدار میں آنا چاہتے ہیں۔
حالانکہ آج بھی پاکستان میں قانون صرف ایک ہی رائج ہے جسے جنگل کا قانون کہتے ہیں یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا ۔باقی جمہوریت وغیرہ اس کا مہذب نام ہے یا بادشاہت کہ لیںدنیا میں جو چار نظام رائج ہیں ان میں ایک تو صداتی نظام ہے دوسرا وزارتی نظام تیسرا بادشاہت اور چوتھا ڈکٹیٹر ۔پاکستان میں سوائے جماعت اسلامی کے کسی پارٹی میں پارٹی الیکشن نہیں ہوتے ،پاکستان کی دو بڑی جماعتیں خاندان کی جماعتیں بن چکی ہیں اور سب سے زیادہ یہی جمہوریت کے لیے قربانی دینے والی ہیں،تحریک انصاف عمران فین کلب ہے۔ ایسا ہی ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ ہے لیکن چند دن سے میںنے سب(رہنماوں ،اینکر ز،صحافیوں ،سیاست دانوں خاص کر فیس بکی دانشوروں وغیرہ ) کو سچا مان کر (بقول ان کے) ان کی تقاریریں سنی ہیں تحریریں پڑھیں ہیں تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں اور اس پر یقین کر لیا ہے کہ ہمارے سبھی رہنماء ()اسلام ،وطن ، مخلوق خدا سے پیار کرنے والے ہیں ، عوام کے لیے غربا کے لیے ،اسلام کے لیے جہدو جہد کر رہے ہیں ، اصل میں یہ سب عقل مند ہیں، (معاف کرنا عقل کل ہیں،جینیئس ہیں)،ہیرو ہیں، سب سے بڑے عالم ہیں،سیاست داں ہیں، وطن سے محبت کرنے والے ہیں،سچے ہیں،کرپٹ نہیں ہیں،سب سیاست میں خدمت کے لیے وطن کی محبت میں اسلام کے نفاذ کے لیے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔
دنیا سے دور ہو گیا ،دین کا نہیں رہا اس آگاہی سے میں تو کہیں کا نہیں رہا
۔قرآن کی اس آیت کی تشریح آپ خود کریں ۔(اور جب ان سے کہا جاتا ہے زمین میں فساد نہ پھیلاو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں )عوام بھی اب عقل مند ہو چکی ہے سب کے ساتھ 18 کروڑ عوام ہے ۔ بے چاری عوام ۔ان افراد کا شکر ادا نہ کرنا احسان فراموشی ہو گا جن کی بدولت آپ کو اور مجھ کویہ آگاہی حاصل ہورہی ہے ۔ہم ان سب کا شکریہ ادا کرتے ہیں ان رہنماوں اور اینکرز کی لمبی لسٹ ہے صرف ان کے ناموں سے ہی کالم کا پیٹ بھر سکتا ہے آگاہی کا عذاب دینے میں اخبارات کے کالم نویس ،چینلز کے اینکرز، اور سبھی رہنما شریک ہیں ۔ اس آگاہی کے عذاب نے میری زندگی مزید مشکل کر دی ہے ان سب کی بدولت جھوٹ اور سچ گڈ مڈ ہو گے ہیں اور ان کو الگ کرنا ناممکن بن گیا ہے ۔اپنے سچے ہونے کی سب کے پاس دلیلیں ہیں اس لیے میںنے سب پر یقین کر لیا ہے ۔کیونکہ سب خود کو سچا اور دوسرے کو جھوٹا کہ رہے ہیں۔
میں بھی کتنا سچا ہوبالکل تیرے جیسا ہوں
(نوٹ۔میں نے جہاں بھی لفظ رہنما ء لکھا ہے اس سے مراد وہ سبھی لیڈر ہیںجوحکومت کے ہوں یا اپوزیشن کے مذہبی ہوں یا سیاسی ہوںاسی طرح ہمارے تمام اینکرز ،دانشور،صحافی ،فیس بکی دانشور وغیرہ بھی اس میں شامل ہیں)
تحریر: محمد یاسین صدیق