تحریر:علی عمران شاہین
”میرا خاندان سمجھوتہ ایکسپریس میں ہی مر گیا، ہماری حکومت ہمارے لئے مر چکی ہے، باتیں سب نے کیں لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا، میری بیٹی، میرا داماد، میرے نواسوں اور نواسی کی قبریں بھی پانی پت میں بنا دی گئیں۔ میں وہ جگہ دیکھنے کو ترس گئی ہوں، میں نے بھارتی ہائی کمیشن کو اپنی ڈی این اے رپورٹ دی، مجھے بھارتی ہائی کمشنر نے کہا کہ ہم آپ کو بلائیں گے لیکن آٹھ سال ہو گئے مجھے کسی نے نہیں بلایا۔”
یہ الفاظ ہیں سمجھوتہ ایکسپریس میں اپنے خاندان کے 11افراد آگ میں زندہ جل کر اس دنیا سے رخصت ہوتے دیکھنے والی مشتری بیگم کے جو ایک نجی ٹی وی پر گفتگو کرتے ہوئے دنیا کو اپنی دکھ بھری داستان سنا رہی تھیں لیکن متاثرین سمجھوتہ ایکسپریس کی فریاد کوئی بھی سننے والا نہیں۔ ان کی 8سال پہلے کی کہانی کا آغاز 18فروری 2007ء کی نصف شب سے ہوتا ہے جب سمجھوتہ ایکسپریس میں سوار یہ لوگ بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سے لاہور کیلئے روانہ ہوئے تھے۔ ٹرین میں عورتیں اور بچے بھی سوار تھے تو بیشتر مسافر سو رہے تھے۔ انہیں کیا پتہ تھا کہ ان پر اگلی گھڑی ایسی آنے والی ہے کہ وہ اپنی اس نیند سے کبھی بیدارنہیں ہوں گے اور ان کی موت بھی ایسے ہونے والی ہے کہ ان کے جسم کا معمولی سا حصہ بھی ان کے کسی پیارے کو دیکھنے کیلئے نہیں ملے گا۔
یہ ٹرین جب نئی دہلی سے 80 کلومیٹر دور تاریخی مقام پانی پت پہنچی تو اچانک دھماکے ہوئے اور دو بوگیاں یک لخت آگ کے بھڑکتے شعلوں کی لپیٹ میں تھیں۔ آگ میں زندہ جلتی مائیں اپنے بچے چھاتیوں سے چمٹائے باہر چھلانگیں مارنے کو تیار ہوئیں لیکن یہ کیا…؟ ٹرین کے سبھی دروازے، کھڑکیاں بند تھیں اور پھر ساتھ ہی ٹرین میں کئی دھماکے ہوئے توآگ مزید بھڑک اٹھی اور پھر یوں ٹرین میں بند 68لوگ چیختے چلاتے خاکستر ہو کر راکھ میں تبدیل ہو گئے۔
بھارت نے جلنے والی دونوں بوگیوں کو اپنے ہاں روک کر دیگر 8بوگیاں پاکستان روانہ کر دیں اور پھر زندہ جلنے والوں کی راکھ کو تابوتوں میں ڈال کر دفن کر دیا گیا۔ بھارت نے تو حسب روایت ملبہ لشکر طیبہ پرڈال دیا لیکن جب بعد میں عقدہ کھلا تو صاف صاف پتہ چلا کہ یہ کارروائی ہندو انتہا پسند ابھینو بھارت نے کی تھی۔ ممتاز بھارتی ہندو رہنما سوامی اسیمانند اس کارروائی کا ماسٹر مائنڈ تھا اور بھارتی فوج کے کرنل پروہت کے ذریعے سے اسے پوری منصوبہ بندی سے انجام دیا گیا یوں بھارت ہر لحاظ سے جھوٹا اور سفاک درندہ تو ثابت ہوا لیکن … 8سال بیتے
آج تک بھارت میں کوئی ایک فرد بھی اتنی بڑی سفاکیت اور نمرودیت کی پاداش میں گرفتار نہیں ہوا… کسی ایک بھارتی شہری کو نامزد کر کے مقدمہ نہیں چلایا جا رہا… زندہ جل جانے والوں کے لواحقین خون کے آنسو رو رو کر آج بھی ان کی فرضی قبروں تک کو دیکھنے سے محروم ہیں جن میں نجانے ان کے کسی پیارے کی راکھ یا کوئی ہڈی دفن بھی ہو پائی تھی یا نہیں… یہ دوسری کہانی ہے، اسی ماہ فروری کی 27 تاریخ کی لیکن یہ سال ہے 2002 ئ…بھارتی ہندو یاتریوں سے بھری ایک ٹرین جو بابری مسجد کی جگہ بنے رام مندر میں پوجا پاٹ کے بعد واپس بھارتی ریاست گجرات آ رہی تھی کہ صبح 7بج کر 43منٹ پر گودھرا ریلوے سٹیشن پر اسے اچانک آگ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ٹرین میں سوار ہندو یاتریوں میں سے 59زندہ جل کر ہلاک ہوئے تو پورے بھارت میں کہرام مچ گیا۔ مرنے والے یاتری کارسیوک تھے
جنہیں مسلمانوں کی جانی دشمن تنظیم وشوا ہندو پریشد نے ایودھیا کا مذہبی دورہ کروایا تھا۔ واقعہ کے ساتھ ہی وشوا ہندو پریشد نے شور مچا دیا کہ یہ کارروائی گجرات کے مقامی مسلمانوں کی ہے اور اب اس کا انتقام یہاں کے مسلمانوں سے لیا جائے گا۔ وشوا ہندو پریشد کی پکار پر سارے بھارت سے ہندو انتقامی کارروائی کیلئے گجرات پہنچے… بس پھر کیا تھا… لاکھوں ہندو بندوقوں، لوہے کے راڈوں، ڈنڈوں، ترشولوں، کلہاڑیوں، تلواروں سے مسلح ہو کر یک لخت ریاست گجرات کسی طوفان کی صورت ٹوٹ پڑے۔ مقامی پولیس ان کے ساتھ تھی، پٹرول اور مٹی کے تیل کے گیلن ان کے پاس تھے۔
وہ مسلمانوں کے محلوں اور گھروں میں داخل ہوتے، عورتوں کو مردوں کے سامنے بے لباس کرتے… ان کی کھلے عام ان کے مردوں کے سامنے اجتماعی عصمت دریاں کرتے… نازک حصوں پر ضربیں لگاتے، ان کی چھاتیاں کاٹتے اور پھر یوں روتی، تڑپتی، سسکتی، مائوں، بہنوں کے سامنے ان کے مردوں کوبھی بے لباس کر کے ان کے مختلف اعضا کاٹتے اور انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے، پھر ان کے گھروں کو آگ لگاتے اور سب کچھ جلا کر راکھ کر کے جلنے والی ٹرین اور اس کے کارسیوکوں کا انتقام لینے کے فاتحانہ نعرے بلند کرتے۔ ایک جگہ ایک تالاب میں 40 کے قریب مسلمانوں کو پھینک کر اس میں کرنٹ چھوڑ کر انہیں تڑپا تڑپا کر مارا اور ان کا تماشہ دیکھا گیا۔
ایک مسلمان کے گلے میں ٹائر ڈال کر آگ لگائی اور اسے سڑکوں پر بھگا بھگا کر مارا گیا۔ عالمی میڈیا بشمول بی بی سی نے لکھا کہ یہاں 500سے زائد مساجد شہید کی گئیں۔ مسلمانوں کا ایک پوش اور جدید رہائشی علاقہ گلبرگہ سوسائٹی تھا جہاں سابق ممبر پارلیمنٹ 73سالہ احسان جعفر ی بھی مقیم تھے۔ یہاں انہیں اس علاقے کے رہائشی 70سے زائد لوگوں سمیت کاٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کر کے جلا دیا گیا۔ گلبرگہ سوسائٹی کے عالیشان گھر عرصہ 13سال سے بھوت بنگلوں کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ ریاست گجرات میں موجودہ وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت تھی جس نے پولیس کو بھی اس سارے کام میں بھرپور حصہ لینے کی تاکید کر رکھی تھی۔
یوں یہاں سرکاری بندوقوں سے بھی مسلمانوں کو بڑے پیمانے پر قتل کیا جاتا رہا۔کیا یہ حیران کن نہیں کہ روئے زمین پر ایک بدترین دہشت گردی تین ہفتوں تک مسلسل جاری رہی اوراس سارے عرصے میں اسے کوئی روکنے والا نہیں تھا۔ آج گجرات فسادات کو13سال ہو رہے ہیں تو یہاں کے ہی باسی 50 ہزار مسلمان وہ ہیں جو اپنے علاقوں اور گھروں سے دور نام نہاد پناہ گزین بستیوں میں رینگ رینگ کرکیڑے مکوڑوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔
ان کے بچے سکول نہیں جا سکتے۔انہیں بنیادی ضروریات زندگی میں سے کچھ میسر نہیں۔ریاست گجرات کے مسلمانوں کے ہزاروں گھروں، دکانوں اور دیگر املاک کولوٹ مار کرکے تباہ کر کے ان پر ہندو مستقل قابض ہوئے۔ بیشتر تباہ حال مساجد کو مندروں میں تبدیل کر دیا گیا۔ لگ بھگ مہینہ بھر قہر ڈھانے کے بعد جب ہندوئوں کا غصہ کچھ کم ہوا تو انہوں نے اپنا یہ سلسلہ کم کیا۔ بعد میںجب تحقیقات ہوئیں تو پتہ چلا کہ گودھرا سٹیشن پر جلنے والے کارسیوکوں کی ٹرین یاتریوں کی اپنی غلطی سے جلی تھی۔ آتش گیر مادہ وہ خود اپنے ساتھ رکھ کرسفر کر رہے تھے
لیکن پھر بھی صرف اس مقدمے میں 90مسلمان جیل پہنچے، کتنے جیل میں پڑے پڑے قبروں میں اتر گئے اور کئی ایک اب تک گل سڑ رہے ہیں۔ یہاںلگ بھگ 30ہزار سے زائد مسلمان تڑپا تڑپا کر مارے گئے۔ ہزاروں مسلم خواتین کی عصمت ریزی ہوئی۔ جب مہینے بعد مسلمانوں کی سوختہ لاشیں عورتوں، بچوں سمیت نکالی جاتیں تو انہیں ایک ہی لمبا کپڑا ڈال کر اور ایک ہی برتن سے پانی چھڑک کر غسل دے کر ایک ہی جگہ دفن کر دیا جاتا۔آج اس جرم میں آج کوئی گرفتار ہندو نہیں۔جن چند ہندوئوں پر مقدمے بنے تھے
وہ سب باعزت بری ہو گئے۔ 2سال پہلے بی بی سی ایسے نشریاتی ادارے نے یہاںکے کچھ مناظر بیان کئے تھے کہ مسلمان اب بھی ریاست کی طرف اپنی زمینوں اور املاک کی طرف آنے سے ڈرتے کانپتے ہیں لیکن اس پر کوئی آواز اٹھانے والا نہیں۔کہنے کو تو فروری کی 18اور 27ایک ہی مہینے کی دو تاریخیں ہیں لیکن دونوں کی کہانی کا آغاز بھی ایک جیسا ہے تو انجام بھی ایک جیسا کہ چھری چاہے اوپر ہو یانیچے، کٹنا مسلمانوں نے ہی ہے۔ ہر دو صورتوں میں یہ سب مسلمان ہی تھے جو کٹ گئے۔ یہ سب آخر کب تک یوں ہی کٹتا رہے گا۔ یہ سوال ان تاریخوں کا ہے کہ کیا آنسو بہانے، رونے دھونے، آہ و زاریاں کرنے کا کام صرف مسلمانوں کے ہی حصہ میں کیوں لکھا ہے؟
تحریر: علی عمران شاہین