پشتون بھی آج تک اپنے آپ کو نہایت اعلیٰ اور برتر نسل کہنے کے باوجود اس بات پر متفق نہیں ہوئے کہ وہ اصل میں ہیں کون؟ اور یہ اس جدی پشتی اور خاندانی وصف کا ثبوت ہے کہ وہ کسی بھی معاملے میں اتفاق نہیں کریں گے اور ہر بات میں ایک دوسرے کی مخالفت کریں گے چنانچہ پشتو میں اب یہ بات ایک ضرب المثل کی شکل اختیار کر چکی ہے کہ پشتون کو اس اس بات پر مکمل اتفاق ہے کہ وہ کسی بھی بات میں اتفاق نہیں کریں گے۔
چنانچہ اس وقت تقریباً پانچ چھ نظریات پشتونوں کی اصل نسل کے بارے میں پائے جاتے ہیں جن میں دو نظریئے نہایت زور شور سے ایک عقیدے کے طور پر بیان کیے جاتے ہیں، ایک گروہ کا کہنا ہے کہ وہ بنی اسرائیل ہیں جب کہ دوسرے کے مطابق آریا ہیں اور یہ دونوں گروہ یہ بات جانتے بوجھتے نظر انداز کیے ہوئے ہیں کہ تاریخ میں آریا ، پشتونوں سے بہت بعد کی پیداوار ہیں لیکن عقیدہ ہے اور عقیدہ جب بن جاتا ہے تو پھر اس کی مخالفت میں کوئی بات نہیں سنی جاتی اور تائید میں ہر لولی لنگڑی دلیل کو مانا جاتا ہے، کم از کم یہودی تو کسی بھی حال میں نہیں ہو سکتے کہ یہود روز اول سے پیدائشی طور پر تاجر اور دکاندار ہیں جب کہ پشتونوں میں سب سے ذلیل پیشہ ’’بنیا توب‘‘ہے، ترکڑی صرف نبیوں کا کام سمجھا جاتا ہے۔
ہاں دونوں کی ایک اورعادت کا تو ذکر ہم نے کیا ہی نہیں جو آج کل دونوں میں نہایت عروج پر ہے اور وہ یہ کہ جب کوئی ’’خود‘‘ کچھ بھی نہیںہوتا تو وہ اپنے آباء واجداد کی قصیدہ گوئی اور مدح سرائی میں لگ جاتا ہے، چن چن کر بڑے بڑے نام اپنے شجرے میں جوڑتا ہے اور اس پر مونچھوں کو تاؤ دیتا رہتا۔ ہاں مونچھوں کے معاملے میں یہ دونوں قومیں بے مثل ہیں اور ان کو تاؤ دینے میں بھی۔
پشتونوں نے بھی اپنی تاریخ میں دنیا کے تقریباً سارے بڑے لوگ اپنے کھاتے میں ڈالے ہوئے ہیں، جمشید بھی پشتون تھا، ضحاک بھی پشتون تھا، فریدون، افراسیاب، رستم و سہراب ،گشتا سب، زرتشت اور دور جدید میں ہندوپاک کے تقریباً سارے اکابرین محمد علی برادران، ذاکر حسین، جوش ملیح آبادی، نیازفتح پوری اور نہ جانے کون کون؟ ایک نے تو مہاتیر محمد، اور بوسنیا ہرزگوونیا تک بات پہنچائی ہے۔ ہم اس کی تردید یا تصدیق کی پوزیشن میں نہیں ہے لیکن تقریباً گجروں کا بھی یہی حال ہے۔ رام چندر بھی گجر تھا، کورو پانڈو بھی گجر تھے، مطلب یہ کہ سب کے سب گجر تھے، ان دونوں معززاقوام کی خدمت میں ہم رحمان بابا کا ایک ہی شعر ہدیہ کرتے ہیں
ھغہ ناوی چہ پخپلہ خائستہ نہ وی
سوک بہ ئے سہ کاندیِ خائیست د مور او نیا
’’وہ دلہن جو خود خوبصورت نہ ہو کوئی اس کی ماں اور دادی کی خوبصورتی کو لے کر کیا کرے‘‘
ہم در اصل تاریخ کو اقوام کی یادداشت اور حافظہ سمجھتے ہیں جس طرح انسان اپنی یادداشت کھونے کے بعد دوسروں کے سہارے جیتاہے اسی طرح اقوام بھی اپنی یادداشت یعنی تاریخ بھول جائیں تو ان کی نہ منزل رہتی ہے نہ کوئی سمت بلکہ خود بھی آخر کار ایک دن کھو جاتی ہے۔
لیکن تاریخ یاد رکھنے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے آباواجداد میں صرف خوبیاں ہی خوبیاں ڈالتے رہیں اور ان کے عیوب کے لیے طرح طرح کے جوازات ڈھونڈتے پھریں بلکہ اپنے آباو اجداد کی خوبیاں یاد رکھنا اتنی ضروری نہیں ہوتیں جتنی کہ غلطیاں یاد رکھنا ضروری ہوتی ہیں تا کہ ہم آیندہ ان سے بچنے کی کوشش کریں، اگر ہم یہ سمجھ لیں کہ ہمارے آباو اجداد صفت ہی صفت تھے اور ان سے کوئی غلطی نہیں ہوئی ہے تو پھر تو بات ہی ختم تاریخ کی ضرورت ہی کیا ہے۔
حالانکہ ہمارے آباو اجداد بھی انسان تھے، طرح طرح کی انسانی مجبور یاں ان کو بھی لاحق تھیں اور ان مجبوریوں کی وجہ سے وہ جانے ان جانے میں غلطیاں کر سکتے تھے، کر چکے ہیں، اب ہمیں تاریخ کو اصلاح کرکے انھیں چھپانا نہیں بلکہ اجاگر کر کے مشعل راہ بنانا ہے بہر حال ہمیں اس بات کی تسلی ہوگئی ہے کہ گجر اور پشتون آپس میں واقعی کوئی مضبوط رشتہ رکھتے ہیں لیکن تاریخ کی تاریکیوں میں ایک دوسرے سے ایسے بچھڑچکے ہیں کہ اب ان کو یکجا کرنا ممکن ہی نہیں رہا لیکن ایک بار پھر عرض کردوں کہ عادات و اطوار میں، جذبات میں، رجحانات میں، افتاد طبع میں اب بھی کافی قریب ہیں۔
ہاں تھوڑی سی بات اس روایتی چیز کے بارے میں کردیں جسے تاریخ کہا جاتا ہے جو افسانہ و افسوں سے زیادہ ناقابل اعتبار ہے کیونکہ یہ پندرہ فیصد حکمران یا اشرافیہ کی لکھی ہوئی یا لکھوائی ہوئی ’’بڑہانکیاں‘‘ ہیں،اس لیے تاریخ کی ہر کتاب، کتاب نہیں ہوتی، ہر حوالہ ، حوالہ نہیں ہوتا اور تاریخ نہیں ہوتی جب تک اسے دلائل و شواہد کی میزان پر رکھا نہ جائے اور غالباً نہیں بلکہ یقیناً پشتونوں اور گجروں کی تاریخ اسی تاریخ نویسی کا شکار ہوئی ہے کیونکہ بچارے خود تو’’بے سواد ‘‘ تھے، اس لیے ان کے بارے میں جو کچھ بھی لکھا دوسروں نے لکھا خاص طور پر فارسی اور یونانیوں نے تو تاریخ کو کوڑا دان بنا کر رکھا ہوا ہے (یہ سلسلہ ابھی ختم نہی ہوا ہے کبھی کبھی اس موضوع پر بات ہوتی رہے گی )