تحریر:مہر بشارت صدیقی
ملک میں جاری پٹرول بحران نے حکمرانوں کے گڈ گورننس کے دعوئوں کی قلعی کھول دی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قلت کا مسئلہ اس قدر خراب ہو چکا ہے کہ اگر اب حکومت ہنگامی انتظامات بھی کرے تو صورتحال میں بہتری آتے آتے دو ماہ لگ سکتے ہیں۔ پی ایس او، اوگرا اور وزارت پٹرولیم کی بے تدبیری سے جنوری میں ایک قطرہ تیل بھی درآمد نہیں کیا گیا جبکہ عدم ادائیگیوں کی وجہ سے بین الاقوامی منڈی میں پاکستان کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
پی ایس او نے ڈیفالٹ کرنے والے اداروں کو ادائیگیاں نہ کرنے کے باوجود ایندھن کی سپلائی جاری رکھ کر قومی جرم کیا ہے جبکہ نجی مارکیٹنگ کمپنیوں نے بھی دو ہفتے سے کم کا سٹاک رکھ کر قانون توڑا ہے۔پی ایس او کی ناکامی کے بعد نجی شعبہ کو تیل کی درآمدات کی اجازت دینے سے صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔لاہور سمیت پنجاب بھر میں پٹرول کی قلت برقرار ہے۔ پانچویں روز بھی شہری پٹرول کی تلاش میں مارے مارے پھرتے رہے۔ پٹرول کی عدم دستیابی سے معمولات زندگی مفلوج ہو کر رہ گئے۔ گیس ، بجلی اور پانی کی قلت کے شکار عوام اب پٹرول کے حصول کے لئے خوار ہو رہے ہیں۔ پٹرول کی عدم فراہمی سے دفاتر جانے والے افراد ، سکولوں ، کالجوں کے طالبعلموں کو بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ پٹرول پمپوں پر ملازمین اورصارفین کے درمیان جھگڑے معمول بن گئے۔
صوبے کے 80 فیصد اور لاہور کے 95فیصد پٹرول پمپس پر پٹرول دستیاب نہیں ،باقی 5فی صد کھلے پمپوں پر لوگوں کا غیر معمولی رش رہا جہاں موٹر سائیکل کو 100روپے اور گاڑی کو 500روپے تک کا پٹرول دیا جاتا رہا۔ پٹرول کی قلت کے باعث لاہور میں ایدھی ایمبولینس سروس بند ہے جبکہ ریسکیو 1122 کی بھی صرف 4 گاڑیاں آپریشنل ہیں۔ راولپنڈی اسلام آباد ، گوجرانوالہ سمیت دیگر شہروں میں بھی صورتحال مختلف نہیں۔ 90فیصد پٹرول پمپوں پر پٹرول ختم ہے جن پمپوں پر پٹرول دستیاب وہاں پر گاڑیوں کی لمبی لمبی لائنیں لگی رہیں۔عوام پورا پورا دن اور ساری ساری رات لائنوں میں لگے حکمرانوں کو کوستے رہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے پٹرول کی شدید قلت کا نوٹس لیتے ہوئے وفاقی وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی سے سی این جی سٹیشن کھولنے کا مطالبہ کر دیا۔
پہلے پورے پنجاب میں 2 دن کیلئے سی این جی دینے کا فیصلہ ہوا جس کے بعد یہ سہولت صرف لاہور تک محدود کر دی گئی۔ پنجاب حکومت کی جانب سے ضلعی انتظامیہ کو ہدایت کی گئی کہ فوری طور پر سی این جی سٹیشن کھلوائے جائیں لیکن سی این جی ایسوسی ایشن نے حکومتی فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا۔سی این جی مالکان کے انکار کے بعد وزیراعلیٰ نے سی این جی سٹیشنز فوری کھولنے کے حوالے سے متعلقہ اداروں کو دوبارہ ہدایات جاری کیں اور کہا کہ ضلعی انتظامیہ متعلقہ اداروں کے ساتھ مل کر سی این جی سٹیشن فوری کھولنے کیلئے اقدامات اٹھائے۔ وزیراعلیٰ کی ہدایت پر لاہور کے 500 سی این جی سٹیشنوں میں سے صرف چند سی این جی سٹیشن کھولے گئے جس کے بعد شہری گھروں میں کھڑی گاڑیاں نکال کر سی این جی سٹیشنوں پر لے آئے اور سی این جی سٹیشنوں پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں تاہم لاہور میں کئی مقامات پر سی این جی مالکان نے اضافی ڈیوٹی کے نفاذ کی وجہ سے سی این جی سٹیشن نہیں کھولے۔
ان کا موقف ہے کہ موجودہ نرخوں پر گیس فروخت کرنے میں انہیں نقصان ہے۔ ایم ڈی سوئی ناردرن عارف حمید نے کہا کہ صرف لاہور میں سی این جی سٹیشنز کو گیس بحال کی جارہی ہے کیونکہ پٹرول بحران سے لاہور ہی پنجاب میں زیادہ متاثر ہوا ہے تاہم ابھی طے نہیں ہوا کہ گیس کی بحالی کتنے روز تک جاری رکھی جائے گی۔ دیگر شہروں کو سی این جی فراہم کرنا فی الحال ممکن نہیں۔ ایم ڈی سوئی ناردرن نے کہا کہ نادہندگی کی وجہ سے بند سی این جی سٹیشن نہیں کھولے جائیں گے۔ چیئرمین سی این جی ایسوسی ایشن راجہ شجاع انور نے کہا ہے کہ 2 دن کیلئے سٹیشن کھولنا گھاٹے کا سودا ہے۔ حکومت پورے ماہ کا شیڈول جاری کرے یا ایم ڈی آئی چارجز معاف کرے۔
غیاث پراچہ نے لاہور میں دو دن کیلئے سی این جی سٹیشن چلانے کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ بحران سے سارا پنجاب متاثر ہوا ہے اسلئے صوبہ بھر میں سی این جی سٹیشن کھولنے کی اجازت دی جائے۔ ریلیف صرف لاہور نہیں بلکہ صوبہ کے ہر رہنے والے کا حق ہے۔موجودہ حالات میں ہفتہ میں دو دن سی این جی سٹیشن چلانا مالکان کیلئے ناممکن ہے۔بجلی بنانے والے کارخانوں، کمرشل صارفین کو بھی گیس کی سپلائی بند کر دی گئی ہے۔ گیس بند ہونے سے بجلی کا شاٹ فال چارسو میگا واٹ بڑھ گیا۔پٹرولیم ڈیلرز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ سی این جی سٹیشن کھلنے سے عوامی مشکلات میں قدرے کمی ضرور آئے گی۔ پٹرول کی سپلائی بہتر ہونے میں تین سے چار روز لگ سکتے ہیں۔ عوام بھی پٹرول ضرورت کے مطابق لیں سٹاک نہ کریں۔
وزیراعظم نوازشریف نے پٹرول کے سنگین بحران پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سیکرٹری پٹرولیم اور ایم ڈی پی ایس او سمیت 4 اعلیٰ افسران کو معطل کر دیاہے۔ وزیراعظم نے صوبائی حکومتوں کو پٹرول مہنگے داموں فروخت کرنیوالوں کیخلاف کارروائی کی ہدایت کی جبکہ پٹرول کی قلت کی وجوہات کا پتہ لگانے کے لئے تحقیقات کا حکم دیا اور وزارت خزانہ کو پٹرول کی درآمد کے لئے رقم جاری کرنے کی ہدایت کر دی اور اوگراسے بھی رپورٹ طلب کرلی۔ وزیراعظم نواز شریف نے سعودی عرب کے دورے سے واپسی پر لاہور ایئرپورٹ پر ہنگامی اجلاس بلایا جس میں ملک میں پٹرول کے بحران کا جائزہ لیا گیا۔ وزیراعظم نے بحران کے ذمہ دار وزارت پٹرولیم اور پی ایس او کے چار افسران کو فوری طور پر معطل کرنے کا حکم دیدیا
جن میں سیکرٹری پٹرولیم عابد سعید ، ایڈیشنل سیکرٹری نعیم ملک ، ڈی جی آئل محمد اعظم اور پی ایس او کے ایم ڈی امجد جنجوعہ شامل ہیں۔ نوازشریف نے چاروں صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی کہ وہ پٹرول کی بلیک میں فروخت کا پتہ لگا کر ذمہ داران کے خلاف کارروائی کریں اور پٹرول کی فوری رسد اور ترسیل یقینی بنائی جائے۔ پٹرول پمپس پر تیل کی قلت نہیں ہونی چاہیے۔ نوازشریف نے ہدایت کی کہ پٹرول بحران سے متعلق تحقیقات کی جائیں اور یہ دیکھا جائے کہ پٹرول کی قلت تھی یا مصنوعی طورپر بحران پیدا کیا گیا ہے۔
بتایا جائے کہ میری عدم موجود گی میں اتنا بڑا بحران کیسے پیدا ہوا اور اس سے نمٹنے کے لئے بروقت اقدامات کیوں نہیں کیے گئے ؟نواز شریف نے وفاقی وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی کی جانب سے بروقت اقدامات نہ اٹھانے پر بھی برہمی کا اظہار کیا اور انہیں ہدایت کی کہ ملک میں پٹرول کی مہنگے داموں فروخت کی روک تھام یقینی بنائی جائے۔ وزیراعظم نے وزارت خزانہ کو بھی ہدایت کی کہ وہ پٹرول کی درآمد کے لئے فوری طور پر رقوم جاری کرے۔ وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔پٹرول کی قلت میں میری کوتاہی ثابت ہوجائے تو آج ہی جانے کو تیار ہوں۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ملک بھر میں تیل کی مصنوعی قلت کو بدانتظامی اور بدعنوانی کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے وفاقی حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایااور کہا ہے کہ اس وقت ملک میں کوئی گورننس سسٹم موجود نہیں۔اپنے آپ کو بہت تجربہ کار کہنے والوں نے نااہلی کی انتہاکرتے ہوئے عوام کو بری طرح مایوس کیا ہے۔ ملک میں جاری پٹرول کے بد ترین بحران پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر بابر اعوان کا کہنا تھا کہ ایک ایٹمی ملک میں اس قسم کی صورتحال کا پیدا ہونا تشویشناک ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔
اگر ملک میں کوئی جنگی صورتحال پیدا ہو جائے یا کوئی نا گہانی آفت آجائے تو کیا ہوگا، حکومت کی توجہ کیوں ان امور کی جانب نہیں جاتی، پی ایس او کی بار بار یاد دہانی کے با وجود حکومت نے اس طرف کان نہیں دھرے۔ عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے سبب کئی ممالک اضافی ذخیرہ لینے میں مصروف ہیں جبکہ ہمارے ہاں صورتحال یکسر مختلف ہے۔ یہ حکومت کم اور ایسٹ انڈیا کمپنی زیادہ لگ رہی ہے کہ کماؤ اور جاؤ۔
تحریر:مہر بشارت صدیقی