لاہور (ویب ڈیسک) آج کل نیب کی جانب سے گجرات میں گزشتہ پانچ سال کے دوران ڈی پی اوز تعینات رہنے والے باپ بیٹوں رائے ضمیر اور رائے اعجاز کی کروڑوں روپے کی مبینہ کرپشن کے ہر طرف بڑے چرچے ہیں۔ رائے اعجاز کو نیب نے کراچی سے گرفتار کر لیا ہے جبکہ نامور مضمون نگار طاہر محمود چوہدری اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔تاحال رائے ضمیر کی گرفتاری عمل میں نہیں آ سکی۔ میڈیا رپورٹس مطابق دونوں پر پولیس کی گاڑیوں میں استعمال ہونے والے ڈیزل اور پولیس ملازمین کو وردیاں نہ دینے سمیت دیگر کئی طرح کے الزامات نیب نے عائد کیے ہیں۔ ان دونوں باپ بیٹے کو یہ منفرد اعزاز حاصل رہا ہے کہ وہ نہ صرف پنجاب کے دو اضلاع سیالکوٹ اور گجرات میں بیک وقت ڈی پی او تعینات رہے۔ بلکہ دونوں کو مختلف اوقات میں ایک ہی ضلع گجرات میں بھی ڈی پی او لگنے کا شرف حاصل ہوا۔ رائے ضمیر پرموٹی تھے اور گجرات میں اپنی سروس کے دوران ہی ریٹائر ہو گئے تھے، جبکہ رائے اعجاز سی ایس پی آفیسر ہیں۔ضلع گجرات شروع ہی سے سرکاری آفسران کے لیے” سونے کی چڑیا” رہا ہے۔ خصوصاً ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی / ڈی پی او حضرات کے لیے۔ جس آفسر کی ایک دفعہ اس ضلع میں پوسٹنگ ہو گئی وہ اپنے تبادلہ رکوانے اور بار بار اس ضلع میں تعیناتی کے لیے ماضی سمیت حال میں بھی سر توڑ کوششیں کرتا دکھائی دیتا ہے۔میرا مشاہدہ ہے کہ ضلع گجرات کی کشش اپنے مخصوص پس منظر کے باعث بہت سوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ اکثر سرکاری محکموں کے آفسران جو ضلع گجرات میں تعینات ہو کر آئے مگر پھر یہیں کے ہو رہے۔ کئی ایک نائب تحصیلدار، تحصیلدار اور مجسٹریٹ بن کر آئے، بیچ میں تھوڑا عرصہ باہر گزار کر وہ ڈپٹی کمشنر بن کر یہیں ریٹائر ہوئے۔ اکثر آفسران اپنے تبادلوں کے بعد کچھ عرصہ دوسرے اضلاع میں گزار کر پھر گجرات آ جاتے ہیں۔ حال ہی میں ایک آفسر جس کو میں نے 90ء کی دہائی میں نائب تحصیلدار دیکھا تھا، انہوں لگ بھگ اپنی ساری سروس یہیں پوری کی، بلکہ گزشتہ دنوں ہی الیکشن کے دنوں میں تبادلوں کے “جھکڑ” کے بعد دوبارہ ترقی پا کر گریڈ 18 میں ایک اور اہم انتظامی پوسٹ پر آکر لگے ہیں۔اور بہت ساری وجوہات کے علاوہ چند دیگر بڑے شہروں کو چھوڑ کر گجرات پاکستان کا امیر ترین ضلع ہے، روپے پیسے کی یہاں بہتات ہے۔ تقریباً ہر چوتھے گھر کا ایک فرد یا زیادہ افراد بیرونِ ملک مقیم ہیں۔ جو ہر ماہ کروڑوں روپے کا زرِ مبادلہ اپنے گھروں کو بھجیتے ہیں۔ جس کا ظاہر ہے ایک کثیر حصہ مذکورہ ضلع میں ہی خرچ ہوتا ہے۔ گجرات شہر کی پراپرٹی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے خصوصاً کمرشل پراپرٹی کے تو وارے نیارے ہو گئے ہیں۔ گجرات شہر کو چھوڑ کر دوسرے چھوٹے شہروں کی جائدادیں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ مثال کے طور گجرات کا ایک قصبہ ہے کڑیانوالہ، جہاں کے دیہات کی اکثریت امریکہ سمیت دیگر ممالک میں مقیم ہے۔ اس علاقے میں 10 لاکھ روپے سے بھی زائد فی مرلہ زمین کی قیمت پہنچ گئی ہے۔ خصوصاً کڑیانوالہ چوک میں پرائم پراپرٹی کی قیمتیں گجرات شہر سے بھی زیادہ ہیں۔ قیمتوں کے بڑھنے کی بڑی وجہ لوگوں کے پاس زیادہ پیسے کا ہونا ہے۔ یا پھر شریکہ برادری میں اپنی ناک اونچی کرنے کے لیے منہ مانگی قیمت دینے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔جائیدادوں کی خرید و فروخت اور انکی رجسٹریوں کے لیے جب لوگ ضلع کچہری کا رُخ کرتے ہیں تو یہاں تعینات سرکاری آفسران کی چاندی ہو جاتی ہے ، سرکاری فیسیں بچانے کے لیے “اندر خانے” مُک مکا ہوتا ہے، فیس بچانے کے لیے رجسٹری بہت ہی کم پیسوں کی لکھوائی جاتی ہے۔ اس مک مکا کی بدولت بہت کم ریونیو سرکار کے خزانے میں پہنچتا ہے ۔ بعض چھوٹے آفسران خصوصاً سب رجسٹرار، تحصیلدار، نائب تحصیلدار اور رجسٹری محرر اپنی سرکاری حیثیت کو استعمال کرتے ہوئے بڑی مچھلیوں کے ساتھ مل کر ایک متوازی پراپرٹی کے لین دین کے نظام سے بھی منسلک ہوتے ہیں۔ ناجائز پیداوار کے بڑے محکمہ مال کے افسران تحصیلدار اور سب رجسٹرار، نائب تحصیلدار، محرر اور پٹواری سمیت دیگر آفسران براہ راست ضلع کے ڈپٹی کمشنر کے ماتحت ہوتے ہیں۔ سارے اکھٹے ہونے والے “مال” میں سے سب آفسران اور ماتحتوں کو “حصہ بقدر جسہ” ملتا ہے۔حتیٰ کہ ڈپٹی کمشنر کی بھینس،اس کے گھر کے سارے خرچے، گھر کے کچن سمیت دیگر پارٹیوں اور اوپر کی سطح تک “بوتی فیٹیک” کے سارے خرچوں کے لیے “زرِ مبادلہ” اکھٹی کی گئی رقم میں سے سب رجسٹرار اور تحصیلدار فراہم کرتے ہیں۔محکمہ مال سے پرموٹ ہو کر ڈپٹی کمشنر لگنے والے اکثر آفسران کو ڈی ہاؤس کے وسیع وعریض رقبے پر پھیلے ہوئے گھر میں بھینس رکھنے کا بڑا شوق ہوتا ہے۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ 1997ء میں گجرات میں خیر محمد ٹوانہ ڈپٹی کمشنر لگے، سرگودھا کی ایک بڑی اور سینکڑوں مربعوں پر مشتمل زرعی اراضی رکھنے والی بڑی جاگیردار فیملی کا فرد ہونے کے باوجود بڑی مرنجاں مرنج اور رکھ رکھاؤ والی شخصیت تھے۔ وہ تین سال گجرات میں تعینات رہے اتنا عرصہ ایک عدد بھینس بمع “کٹا یا کٹی” ہمیں ڈپٹی کمشنر ہاؤس میں نظر آتی رہتی تھی ۔ بھینس کے خالص دودھ کی چائے، لسی اور مکھن سے آنے والے خاص مہمانوں کی تواضع کی جاتی تھی۔ ہر چھ ماہ کے بعد پرانی بھینس کے دودھ چھوڑتے ہی اس کی جگہ نئی آ جاتی تھی۔ اور اس عرصے میں کوئی پانچ چھ بھینسوں کو میں نے” بچشم خود” بدلتے دیکھا۔ ان بھینسوں کے لیے حالانکہ چارہ ڈپٹی کمشنر کی کوٹھی کے رقبے پر بھی کاشت کیا جاتا تھا تاہم کھل وغیرہ اور بھینس کی دیگر ضروریات کے اخراجات اس خود کار اکھٹے والے والے”ماہانہ” کے حصے سے پورے ہوتے تھے۔اسی دوران ڈپٹی کمشنر ہاؤس کے ایک ملازم نے رازداری سے بتایا تھا کہ فلاں گاؤں کے فلاں مالدار معروف “چوہدری” اپنے گاؤں اور اپنی “شریکا برادری” میں اپنی” واہ واہ” اور ڈپٹی کمشنر سے اپنے تعلقات کو محض اپنے “شریکوں” کو مرعوب کرنے کے لیے اعزازی بھینسیں فراہم کر کے استعمال کرتے ہیں۔کئی اور اضلاع کی گجرات میں روپے پیسے کی فراوانی اور بعض دو ایک مخصوص زمیندار برادریوں کو” سُکی چوہدراہٹ” کا بہت شوق ہے۔ اپنے شریکوں کو جلانے اور اور آخری حد تک کلپانے کے لیے سرمائے کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔