تحریر: آمنہ احسان اللہ ساہی
کافی کا مگ ہاتھ میں لیے اور ایک ہاتھ میں موبائل تھامے میں چھت پر واک کر رہی تھی۔ ہمسایوں کے گھر سے آنے والی خوشبو مجھے بالکونی کی طرف کھینچ لائی ۔یہ باربی کیو کی خوشبو تھی اور اس نے میرے دل کے موسم کو اور بھی خوبصورت کر دیا تھا۔ پھر میں اپنے موبائل پر آنے والے میسج پڑھنے لگی ۔یہ ان باکس کا پہلا میسج تھا میں تھوڑی سی آواز میں پڑھنے لگی ”دسمبر لوٹ آیا ہے ” اچھے وقت پر اچھا میسج آیا تھا ۔ میرے چہرے پر خوشی کی ایک مسکان دوڑی مگر یک لخت غائب ہو گئی ”دسمبر کے لوٹ آنے سے ”میر دل کا موسم نہ جانے کیوں بدل سا گیا ۔میر سریلے جذبات سلگنے لگے ۔پھر میرے جسم میں درد کی ٹیسیں اٹھنے لگیں۔
کافی کی کڑواہٹ بڑھ گئی ۔درد کی ٹیسوں پر کافی بھی بے اثر ہونے لگی ۔ فضا سے مجھے ”باربی کیو”کی خوشبو کی بجائے ”پٹ سن”کی بو آنے لگی۔ اس نے میر دل کے خوابیدہ تاروں کو چھیڑا ۔آج مجھے وہ شدت سے یاد آنے لگا۔اس سے بچھڑے آج غالباََ 44 سال ہوگئے ۔ مگر وہ 24 سال کے ساتھ کا عرصہ 44 سال سے بھی زیادہ محسوس ہونے لگا۔ آج اس بنگلہ دیش کو یاد کر کے جو کبھی مشرقی پاکستان تھا ۔میرا جی چاہنے لگا کہ پاکستان کی تاریخ ”سقوط ڈھاکہ”کے الفاظ کو مٹا ڈالوں مگر یہ اس پکی سیاہی سے لکھے گئے جو ہمیشہ ہمیں دکھ ، پشمانی اور ادھورے پن کا احساس دلاتی رہے گی۔
یہ 1971 کو پیش آنے والا حادثہ بلکہ قصئہ دیرینہ ہے بقول شاعر
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
اس قصے میں مختلف کردار مختلف صورتوں میں آئے اور قصے کی تکمیل کی ۔وہ کردار غداروں کی صورت میں بھی آئے۔ نفرتوں کے روپ میں بھی آئے ۔ خود غرضیوں کا لبادہ اوڑھے بھی آئے اور محرومیوں کی قبا پہنے بھی آئے۔
بقول شاعر
پھول کا بکھرنا تو مقدر ہی تھالیکن
اسمیں ہوائوں کی سیاست بھی بہت تھی
یہی حال اس وقت بھی تھا جب پاکستان دو لخت ہوا۔مانا کہ جسد پاکستان کے دائیں اور بائیں بازو میں ایک ہزار میل کا فاصلہ اور دونوں بازوئوں کے درمیان بھارت کی مکاریوں اور روباہیوں کا ہاتھ بھی حائل تھا۔تعلیمی اداروں میں ہندو اساتذہ معصوم ذہنوں کو تعصب سے پرا گندہ کر رہے تھے ۔مغربی سفارت کاروں کی سرگرمیوں اور سازشوں میں اضافہ بھی ہو رہا تھا۔مگر ہمیں ان زہر آلود نعروں کی گونج بھی سنائی دینی چاہیے ۔ جو انتخابات سے پہلے لگائے جا رہے تھے ۔ملی وحدت کی بجائے علاقائی سیاست کو چمکانے کے لئے ”ون یونٹ فارمولا ”کی مخا لفت بھی جاری تھی۔
دونوں بازوئوں کے اتحاد کی نائو میں بنگالی زبان کے نام کا چھید بھی کیا گیا تھا اور سب سے بڑھ کر پاکستان کے جسم پر قیمتی پوشاک مگر ایک بازو کو چیتھڑوں اور پیوندوں میں لپیٹا گیا تھا ۔یہی وجہ تھی کہ جب مشرقی پاکستان سے وزیر کراچی گیا تو اس نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا”مجھے یقین نہیں آرہا کہ یہ پاکستان ہے ۔ کیوں کہ جس پاکستان کو میں جانتا ہوں وہ اتنا خوشحال نہیں”ہم بھول گئے کہ ”پورے پاکستان” کے قیام کے لئے کس نے کیا کیا کوشش کی ۔ہم بھول گئے کہ پاکستان کے حصول کے لئے بنگالیوں نے 41 سال تک جدوجہد کی۔
1962 میں جب اسلام آباد میں تعمیرات ہو رہیں تھیں تو شیخ مجیب الرحمن نے کہا تھا ”اسلام آباد کی سڑکوں سے مجھے پٹ سن کی بو آتی ہے”آج ہمارے ملک سے علیحدگی پسندی اور قومیت پرستی کی چنگاریاں اٹھتی ہیں ۔خوف اس بات کا ہے کہ کہیں بلوچوں کو گیس کی بو نہ آنے لگے ۔ سندھیوں کو کوئلے کی کالک نہ نظر آنے لگے ۔ آج ہمیں علیحدگی اور قومیت پرستی کی چنگاریوں کو بجھانا ہو گا ورنہ ان سے وہ شرارے اٹھیں گے کہ سانس لینا محال ہو گا۔ ہمیں ہی ملک کی علاقائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرنی ہے ۔اس چمن کی محبتوں سے آبیاری کرنی ہے ۔نفرت اور مسائل کی آندھیوں سے بچا کر رکھنا ہے ۔چاک گل ولالہ کورفو کرنا ہے کہ ہمیں اس کے باغبان ہیں۔
حفاظت باغ کی جب باغ کے مالی نہیں کرتے
تو بھر موسم بہاروں کے بھی ہریالی نہیں کرتے
تحریر: آمنہ احسان اللہ ساہی