تم نے بچے ہمارے مار دئے تم نے پھر گھر کئی اجاڑ دئے
اب یہ شاہین اڑ نہیں سکتے خواب اقبال کے اجاڑ دئے
تم تو آئے تھے خودکشی کیلئے ساتھ میں جسم کتنے پھاڑ دئے
تم نے پھولوں میں بھر دیا بارود اور دامن سے کانٹے جھاڑ دئے
پاک دھرتی کو نوچنے کے لئے تم نے پنجے یہاں پہ گاڑ دئے
کتنے معصوم پھر شہید ہوئے کتنے گلشن تھے جو اجاڑ دئے
آج کتنا اداس تھا انجم
اس نے کاغذتمام پھاڑ دئے
پرنس انجم بلوچستانی