تحریر:انجم صحرائی
ایک زما نہ میں سر کلر روڈ پر واقع افضل بلڈ نگ سا بقہ یو بی ایل برانچ کے سا منے ایک ہو میو پیتھ ڈاکٹر عبد الحق کا کلینک ہوا کرتا تھا یہ دو بھا ئی تھے دوسرے بھائی کا نام علا مہ محمد ارشد تھا جو گورٹمنٹ ڈگری کالج میں پرو فیسر تھے دونوں کا نظریاتی اور فکری تعلق جماعت اسلامی سے تھا اسی نا طے ہمارے بھی مہربان اور محترم تھے ڈاکٹر عبد الحق ہمارے دوست تھے سو ہم نے لیہ میں ہو میو پیتھ کالج قیام بارے ان سے مشاورت کا فیصلہ کیا میں نے ان سے ملاقات کی اور ان سے کہا کہ کیوں نہ چند دوستوں کے اشتراک سے یہاں ہو میو پیتھ کالج کے قیام کی جدو جہد کا آ غاز کیا جائے انہوں نے میری تجویز سے اتفاق کیا اور طے پایا کہ دو ستوں کے ساتھ ایک میٹنگ کی جائے اور یہ معا ملہ دوستوں کی میٹنگ میں ڈسکس کیا جائے ۔ ہو نے والی میٹنگ میں علامہ ارشد ، ڈاکٹر عبد الحق ، ڈاکٹر ایم آر اختر اور ذو الفقار نیازی شریک ہو ئے ، متفقہ طور پر لیہ میں ہو میو پیتھ کالج کے قیام بارے فیصلہ کیا گیا اور طے پایا کہ ابتدا ئی اخراجات کے لئے ہر دوست پا نچ ہزار روپے جمع کرائے گا ، جمع شدہ سرمایہ کے لئے ایک جوائینٹ بنک اکائونٹ کھلوایا جائے گا جسے دو دوست آ پریٹ کریں گے ۔ پہلے مرحلے میں بلڈنگ کرایہ پر لی جائے ، ایڈ مشن کے اشتہارات اور بینرز چھپوائے اور لگا ئے جائیں اور جب طلباء کی ایک معقول تعداد ہو جائے تب ہو میو پیتھ کو نسل سے کالج رجسٹریشن بارے رابطہ کیا جائے گا فیصلہ کے مطا بق ہر دوست اپنے حصہ کی رقم اگلے ایک ہفتے میں ڈاکٹر عبد الحق کے پاس جمع کرا نا تھی ۔
اس زما نے میں ہم جیسے سفید پو شوں کے لئے پا نچ ہزار روپے ایک بڑی رقم تھی لیکن جیسے تیسے ہم نے یہ رقم اکٹھی کی ذو الفقار نیازی کو رقم جمع کرانے کی یاد دہا نی کرائی اور اگلے دو تین دنوں کے بعد اپنے حصہ کی رقم لے کر ڈاکٹر عبد الحق کے پاس جا پہنچے لیکن وہاں ایک اور کہا نی ہماری منتظر تھی ۔۔ڈاکٹر عبد الحق نے بتایا کہ ہو نے والی میٹنگ کے بعد ڈاکٹر ایم آر اختر نے ان سے رابطہ کر کے کالج قیام بارے علیحدہ ہو نے کی اطلاع دی ہے میرے استفسار پر ڈاکٹر عبد الحق نے کہا کہ ڈاکٹر رمضان کو مجھ پر تحفظات ہیں ۔ میں یہ سن کر خاموش ہو گیا اور پو چھا کہ آپ کی کیا رائے ہے تو بو لے کہ ابھی ہم نے بھی فیصلہ نہیں کیا ۔میں ڈاکٹر ایم آر اختر سے اس میٹنگ سے پہلے نہ کبھی ملا تھا اور نہ ہی میں انہیں جا نتا تھا مجھے یہ سب سن کر بہت افسوس ہوا ۔ میں نے سو چا کہ ڈاکٹر رمضان سے مل کر ان کے اپنے بارے تحفظات دور کئے جائیں ۔ ڈاکٹر صا حب کا کلینک ان دنوں جزل بس اسٹینڈ پر ایک چھوٹی سی دکان میں ہوا کرتا تھا ۔ میں دو چار دن کے بعد ان کے کلینک پر چلا گیا کلینک پر کئی مریض مو جود تھے چو نکہ وہ مجھے نہیں جا نتے تھے اس لئے میں ان کے فارغ ہو نے کا انتظار کرتا رہا فارغ ہو نے کے بعد وہ میری طرف متوجہ ہو ئے تو میں نے ان سے اپنا تعارف کرا یا تو بڑے خوش ہو ئے میں نے کہا کہ جناب ہم کبھی ملے بھی نہیں اور آپ ہم سے خفا ہو گئے تو کہنے لگے نہیں ایسی کو ئی بات نہیں میں نے رابطہ کیا تھا ڈاکٹر صاحب سے لیکن انہوں نے بتایا کہ کالج قیام کا فیصلہ ابھی پیڈ نگ ہو گیا ہے ۔۔ لیکن اب پتا چلا ہے کہ کچھ اور دوست مل کر کالج بنا رہے ہیں میں یہ سن کر بڑا حیران ہوا میں نے کہا کہ ہمارے بغیر تو بو لے۔۔ شا ئد
میرے اس سوال کا جواب تو مجھے نہیں ملاکہ کالج بنا نے والے کون لوگ ہیں ، لیکن مجھے یہ یقین ہو گیا کہ آ ئیڈیا چوری ہو گیا ہے اور ہم سے زیادہ با وسائل لو گوں نے اس پرا جیکٹ پر کام شروع کر دیا ہے ۔ہمارے مہربان بزرگ دوست ہوا کرتے تھے فضل حق رضوی ، محکمہ ریو نیو سے ریٹائرڈ تحصیلدار تھے ۔انہیں ہو میو پیتھی سے گہراشغف تھا اور اسی نا طے ہو میو پیتھ ڈاکٹر بھی کہلایا کرتے تھے ۔ ڈاکٹر فضل حق رضوی ایک علم دوست شخصیت تھے شاعر بھی تھے انہی دنوں ان کی ایک کتاب” دھوپ چھا ئوں “کے نام سے شا ئع ہو ئی تھی ہو میو پیتھی کے مو ضوع پر بھی ان کی ایک مختصر سی کتاب میری نظر سے گزری تھی جب کالج قیام بارے مجھے ان دوستوں سے ما یو س کیا تو میں نے اپنے اس پرا جیکٹ بارے رضوی صاحب سے ملنے کا پرو گرام بنا یا ۔رضوی صاحب میری پر پوزل سن کر بہت خوش ہو ئے انہوں نے میری ساری با توں سے اتفاق کیا سوائے اشتراک سے ، انہوں نے کہا کہ میں تو سا نجھے کی ہنڈیا پر یقین نہیں رکھتا یہ کمبخت ہمیشہ بیچ چو راہے میں ٹو ٹتی ہے آپ پرا جیکٹ شروع کریں اخراجات میرے ہوں گے آپ کے روزگار کا مسئلہ بھی حل ہو جا ئے گا ۔ میں نے کہا ٹھیک ۔۔ انہوں نے مجھے ابتدا ئی اخراجات کے لئے مبلغ سترہ سو روپے کا چیک دیا جس سے ہم نے بینر ، اشتہارات بنوائے لیٹر پیڈ اور ایڈ مشن فارم بنا ئے اور وٹر نری ہسپتال کے سامنے رضوی صاحب کی دکانوں میں سے ایک دکان میں ہو میو پیتھ کالج کا بورڈ لگا کر بیٹھ گئے اس حالت میں کہ دکان میں ایک شکشتہ سی ڈائینگ ٹیبل ایک پرانا صو فہ اور چند خالی فائل کور ہمارے دفتر کا کل ا ثا ثہ تھا ۔اگلے ہی دن جب تھل ہو میو کالج میں داخلہ کے اشتہارات اور بینرز دیواروں اور سڑ کوں پر لگے دیکھے ہوں گے تب آئیڈ یا چوری کر نے والے یقینا تلملائے ہوں گے لیکن اب کیا ہوت جب چڑ یاں چگ گئیں کھیت کے مصداق سوائے تلملانے کے وہ کر بھی کیا کر سکتے تھے ۔
تھل ہو میو پیتھ میڈ یکل کالج کا یہ ابتدائی آ فس جس مارکیٹ میں قائم کیا گیاتھا یہ فضل حق رضوی کے بڑے بیٹے اسد رضا کی تھیں ۔ ان دنوں اسد رضا الا ئیڈ بنک میں منیجر تھے اور بسلسلہ ملازمت ملتان میں ہی رہائش پذیر تھے ۔ اسد رضا لیہ کی معروف متحرک شخصیت علی رضا کے والد تھے ان دنوں علی رضا بہت چھو ٹے تھے اسد رضا کے ایک اور بیٹے سو نیری بنک لیہ میں منیجر ہیں ۔ اسی دفتر میں پہلی بار میری ملاقات مہر نور محمد تھند سے ہو ئی ، مہر نور محمد تھند کے والد کا رضوی صاحب سے خا صا گہرا تعلق تھا مہر نور محمد تھند جب مجھے پہلی بار ملے اس زما نے میں نہ تو مصنف تھے اور نہ ہی وہ اخبار نویس ۔اس ملا قات میں نو جوان نو ر محمد تھند نے مجھے محکمہ جنگلات پنجاب کے میگزین میں شا ئع ہو نے والا اپنا ایک مضمون دکھا یا جس پر انہیں محکمہ جنگلات کی طرف سے انعام بھی ملا تھا ۔ اس پہلی ملاقات سے مہر نور محمد تھند سے احترام اور پیار کا جو رشتہ استوار ہوا اللہ بخشے مہر نور محمد تھند نے تا حیات اس رشتہ کو نبھا یا ۔ مہر نور محمد تھند نے بعد میں تاریخ کو مو ضوع بنا تے ہوئے اولیائے لیہ ، تاریخ لیہ اور تاریخ بھکر سمیت بہت سی کتب تصنیف کیں ۔ ہفت روزہ اخبار لیہ کا آ غاز بھی کیا ۔ بطور صحافی وہ ایک نڈر اور بے باک جرنلسٹ تھے اخبار لیہ کے حوالے سے ایک یاد گار واقعہ جو میں یہاں قارئین کرام سے شیئر کرنا چا ہوں گا وہ کچھ یوں ہے کہ لیہ کے ایک ڈپٹی کمشنر ہوا کرتے تھے اور نام تھا ان کا انعام الحق ، ان کے زما نہ میں ضلع کو نسل میں ہو نے والے ٹھیکوں کی نیلامی کے روز مہر نور محمد تھند بھی اپنے صحافتی فرائض کی ادا ئیگی کے لئے ضلع کو نسل میںمو جود تھے شا ئد مہر صاحب کو محسوس ہوا کہ کچھ غلط ہو رہا ہے جب مہر نور محمد تھند نے ٹھیکوں میںہو نے والی مشکوک کاروائی کی نشا ند ہی کی تو مو قع پر موجود سرکاری اہلکاران کو نا گوار گذریابات تو تکار تک جا پہنچی مہر نور محمد تھند ضلع کو نسل سے واپس اپنے گھر آ گئے بعد میں خبر ملی کہ ضلع کو نسل کے اہلکاران کی رپورٹ پر مہر نور محمد تھند کے خلاف کار سرکار میں مداخلت کے جرم پر تھا نہ سٹی میں پرچہ درج کر لیا گیا ہے ۔
ہم نے اس اڑتی خبر کی تصدیق چا ہی تو خبر بالکل درست نکلی دوستوں کے مشورے سے مہر نور محمد تھند نے بھی ضلع کو نسل کے چند ملازمین کے خلاف تھا نے میں درخواست گذاردی جس میں زدو کوب کرنے اور دھمکیاں دینے کا الزام لگا یا گیا تھا لیکن تو قع کے عین مطا بق پو لیس والوں نے ان کی ایک نہ سنی جس پر انہوں نے ہم دوستوں سے رابطہ کیا ۔ اس زما نے میں ہم نے ڈسٹرکٹ پریس کلب کی ایک متوازی تنظیم قائم کی ہو ئی تھی ہم نے اپنی اس تنظیم کا اجلاس طلب کر لیا چوک اعظم سے عابد کھرل ۔ کروڑ سے طارق پہاڑ اور فتح پور سے اقبال اعظم چیمہ سمیت لیہ کے بہت سے دوستوں نے اس ہنگا می اجلاس میں شر کت کی فیصلہ ہوا کہ ڈسٹرکٹ انتظا میہ سے بات کی جائے کہ یا تو مہر نور محمد تھند کے خلاف درج پولیس پرچہ خارج کیا جائے یا پھر ضلع کو نسل کے ملازمین کے خلاف بھی مہر نور محمد کی طرف سے دی گئی درخواست پر کاروئی کرتے ہو ئے مقد مہ درج کیا جائے ۔ ہم نے ڈسٹرکٹ انتظا میہ سے بات کرنے کی بہت کو شش کی مگر کسی نے ہماری نہ سنی اور یوں مایوس ہو کر ہم سرفراز چوک (گھوڑا چوک ) پر احتجاجی کیمپ لگا کر بیٹھ گئے ۔
جوں جوں وقت گذرتا گیا دوستوں کی تعداد احتجاجی کیمپ میں بڑ ھتی گئی اور تھوڑے ہی وقت میںضلع بھر کے کثیر صحا فی دوست ہمارے ساتھ ا حتجاج میں شا مل ہو گئے آ کر چند گھنٹے گذ ر نے کے بعد ڈسٹرکٹ انتظا میہ کو بر لب سڑک بیٹھے صحا فیوں کا خیال آ ہی گیا ، مرحوم ملک ممتاز حسین کلول مجسٹریٹ اور ملک محمد رمضان مجسٹریٹ مذاکرات کے لئے کیمپ میں آ ئے ہمارے مطالبات سنے اور چلے گئے کچھ اور وقت گذرا تو چوہدری یعقوب جو اس وقت اسسٹنٹ کمشنر تھے کیمپ میں آ ئے اور خو شخبری سنا ئی کہ گو مہر نور محمد تھند نے کار سرکار میں مداخلت کر کے زیادتی کی ہے مگر ڈپٹی کمشنر کی خصو صی ہدا یت پر ضلع کو نسل کے ملازمین نے اپنی درخواست واپس لے لی ہے اور یوں یہ معا ملہ حل ہوا اور ہمارا احتجاج کا میاب ہوا ۔ احتجاجی کیمپ میں دیگر شریک ہو نے والے صحافی دوستوں میں گلزار شاہ ،مقبول الہی ، مختیار جوتہ ،جا وید لو دھی ،حنیف شیرازی ، شیر خان ، منیر عاطف ، عبد الرحمن قریشی اور مہر نور محمد تھند کے نام مجھے یاد ہیں ۔ڈپٹی کمشنر انعام الحق بڑے وضعدار ، دبنگ اور قدر شناش آ فیسر تھے میرے ذاتی طور پر ان سے اچھے تعلقات تھے بعد میں جب ہماری ان سے ملاقات ہو ئی تو وہ ہمارے اس احتجاجی کیمپ کے انعقاد پر خا صے ناراض تھے ا نہوں نے گلہ کرتے ہو ئے سوال کیا کہ اس دن وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف کا دورہ لیہ متوقع تھا وہ تو شکر ہوا کہ دورہ کینسل ہو گیا اگر وزیر اعلی آ جاتے تو ڈسٹرکٹ انتظا میہ کی کیا پو زیشن بنتی ؟ ان کا سوال سن کر میں نے عرض کیا کہ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں لیکن اگر پو لیس ہمارے صحافی دوست کو اٹھا لیتی تو سو چیئے کہ ہم صحا فیوں کی کیا عزت رہتی ؟ میرا یہ جواب سن کر وہ خاموش ہو گئے ۔
باقی اگلی قسط میں ۔۔۔
تحریر:انجم صحرائی