سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے حدیبیہ پیپرز ملز کیس سے متعلق بات کرتے ہوئے اس کیس کو قومی احتساب بیورو (نیب) کے بجائے سپریم کورٹ کی ذمہ داری قرار دے دیا۔
ڈان نیوز کے پروگرام ‘نیوز وائز’ میں گفتگو کرتے ہوئے سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کا کہنا تھا کہ اس کیس میں نیب پروسیکیوٹرز کا کوئی قصور نہیں ہے، کیونکہ خود سپریم کورٹ نے اسے طول دی ہے۔انھوں نے کہا کہ ‘جہاں تک میرا تجزبہ ہے تو اس طرح کے مقدمات میں ریکارڈ طلب کرنے کے بجائے قانونی حوالوں سے پیروی کی جاتی ہے، لہذا جو کیس ایک عرصے سے احتساب عدالت میں زیر التوا تھا اسے چلانا عدالتِ عظمیٰ کا کام تھا’۔ان کا کہنا تھا کہ نیب کو تو اس کیس کو دوبارہ سے کھولنے کی بھی ضرورت نہیں تھی، کیونکہ جب ایک معاملہ احتساب عدالت میں زیر سماعت تھا اور پھر لاہور ہائیکورٹ نے اس پر فیصلہ جاری کیا، لیکن اصل میں اس معاملے پر اُس وقت بات ہونا شروع ہوئی جب سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعتیں جاری تھیں۔
عرفان قادر نے کہا کہ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ 2014 کے فیصلے کے بعد جب پاناما کیس میں اس پر بات ہوئی تو ججز نے نیب پر ہی سوال اٹھائے کہ اُس نے اپیل کیوں دائر نہیں کی، جبکہ آج کی سماعت میں بھی پروسیکیورٹرز کو اپنا مؤقف دینے کی اجازت نہ مل سکی۔انھوں نے کہا کہ ‘مجھے حیرانگی ہے کہ ججز اس کیس کو پاناما کیس سے الگ کیوں سمجھ رہے ہیں، کیونکہ پاناما کیس سے یہ معاملہ پھر سے اٹھایا گیا تھا’۔ان کا مزید کہنا تھا کہ جب پروسیکیوٹرز کو اسی طرح سے خاموش کروا دیا جائے گا تو پھر وہ 16 یا 17 سال پرانے اس کیس کی تاریخ کی حقیقت کو کیسے بیان کرسکتے ہیں اور بعد میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ پروسیکیوٹرز مکمل طور پر تیار ہو کر نہیں آتے۔گذشتہ روز نیب کی جانب سے لاہور ہائیکورٹ کے حدیبیہ پیپرز ملز ریفرنس سے متعلق فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر اپیل کی سماعت کے دوران گذشتہ روز عدالت نے ریفرنس کا مکمل ریکارڈ طلب کرلیا۔شریف خاندان کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے لاہور ہائیکورٹ کے حدیبیہ پیپرز ملز ریفرنس سے متعلق دیئے گئے فیصلے کے خلاف دائر اپیل کی سماعت سپریم کورٹ کے جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔
سماعت کے آغاز میں نیب کے اسپیشل پروسیکیوٹر نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کا کہ ہائیکورٹ نے ریفرنس تکنیکی بنیادوں پر خارج کیا، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اصل ریفرنس کہاں ہے؟پروسیکیوٹر نے بتایا کہ اصل ریفرنس ان کے پاس نہیں ہے، جس پر جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیئے کہ اصل ریفرنس کا ہونا ہمارے لیے ضروری ہے۔پروسیکیورٹر نے عدالت کو بتایا کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے اپنی تحقیقات میں اس کیس کے حوالے سے مزید دستاویزات اکٹھی کی ہیں اور والیم 8 اے حدیبیہ پیپرز ملز کیس سے متعلق ہے، جس کے بعد عدالت نے جے آئی ٹی کی رپورٹ کا والیم 8 اے منگوا لیا۔
اسپیشل پروسیکیوٹر نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ اسحٰق ڈار کے ذریعے جعلی بینک اکاونٹس کھولے گئے، شریف خاندان کی آمدن کم اور اثاثے زیادہ ہیں، ریفرنس کے دوران اسحٰق ڈار کا نام ای سی ایل میں ڈالا گیا تھا۔اسپیشل پروسیکیوٹر نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ ملزمان کی واپسی پر مقدمہ احتساب عدالت میں دوبارہ شروع ہوا، این آر او کے تحت نواز شریف کی وطن واپسی الیکشن کے قریب ہوئی، 2008 میں عدالت نے از سر نو ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ 27 مارچ 2000 سے 10 دسمبر 2000 تک کچھ نہیں ہوا، کیا نواز شریف، پرویز مشرف پر بھی اثر انداز ہوئے تھے جبکہ نواز شریف کی واپسی پر بھی حکومت پرویز مشرف کی تھی، 27 نومبر 2007 کو نواز شریف آئے، نیب پھر نو ماہ خاموش رہا، 9 ماہ بعد نیب نے ریفرنس بحالی کی درخواست دی۔
حدیبیہ پیپرز ملز کیس
سابق وزیر اعظم نواز شریف اور اسحٰق ڈار کے خلاف نیب نے حدیبیہ پیپر ملز کا ریفرنس 2000 میں دائر کیا تھا، تاہم 2014 میں لاہور ہائی کورٹ نے یہ ریفرنس خارج کرتے ہوئے اپنے حکم میں کہا کہ نیب کے پاس ملزمان کے خلاف ثبوت کا فقدان ہے۔پاناما کیس کی تحقیقات کے دوران سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) نے جے آئی ٹی کو حدیبیہ پیپر ملز کیس کا ریکارڈ جمع کرایا تھا، جس میں2000 میں اسحٰق ڈار کی جانب سے دیا جانے والا اعترافی بیان بھی شامل تھا۔اسحٰق ڈار نے اس بیان میں شریف خاندان کے کہنے پر ایک ارب 20 کروڑ روپے کی منی لانڈرنگ کرنے اور جعلی بینک اکاؤنٹس کھولنے کا مبینہ اعتراف کیا تھا، تاہم بعد ازاں انہوں نے اپنے اس بیان کو واپس لیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ بیان ان سے دباؤ میں لیا گیا۔