counter easy hit

تحریک انصاف پھر بند گلی میں

Hafeez ullah niazi

Hafeez ullah niazi

تحریک انصاف ایک بار پھر بند گلی میں ، سیاسی ساکھ المیہ کے قرب میں، ذمہ دار کون ؟اب جبکہ وزیراعظم تاریخ کے انتہائی نازک موڑ پر یواین جنرل اسمبلی ، عازم سفر ہوا چاہتے ہیں۔ یقیناً مشیران باتدبیر اپنی سیاسی، سفارتی تجاویز، پینترے ، چالیں ترتیب دینے میں مگن ہوں گے ۔تقریر لکھنے والے ایسی تدبیروں ، تجویزوں کو کمال فن کا درجہ دینے کے متمنی ہوں گے۔ وزیراعظم کے پاس شیکسپیئرہے نہیں کہ بروٹس یا مارک انتھونی جیسی تقاریر لکھ پائے نہ ہی ایتھوپیا کا تاریخ ساز لیڈر ھیل سلاسی جس نے اپنی تقریروں سے لیگ آف نیشنز کے درودیوار ہلا کر رکھ دئیے تھے۔علیحدہ بات کہ تب بھی اقوام ِعالم کے کان پر جوں تک نہ رینگی ۔مانا کہ کہا، توصدابصحراہی رہے گا، اپنے تئیں سب کچھ کر ڈالنا ہوگا۔ تقریر کونکتہ سنجی ، زود فہمی ، باریک بینی ، جارحیت ، سفارتکاری ، ہوشیاری کا مرقع ومنبع بنانا ہوگاکشمیر کا مسئلہ تو مرکزی خیال ہو گاہی۔ اس باری سانحہ مشرقی میں بھارتی کردار کو تقریر کا حصہ بنانا ہوگا۔ خالصتان ، منی لینڈ ، میزولینڈ، آسام میں ہونے والے ظلم پر آواز اٹھانی ہوگی۔ پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث بھارتی کردار کو اجاگر رکھناہوگا۔
’’ظالما، مینوں وزیراعظم بنا دے‘‘، کی دوڑ ، کوشش، سعی میں ہر حربہ جائز ہو چکا ہے۔ حملہ، دھاوا، چڑھائی میں نئے سے نیا طریقہ ایجاد ہوچکا۔دلچسپی واجبی رہتی، قلم کی زد میں لانے کاتو سوال ہی پیدا نہ ہوتا، اگر خطے کے حالات روزانہ کی بنیاد پررنگ نہ بدلتے۔حیف بین الاقوامی افق پر رونماسرخی مائل قوس قزح ،تغیر تبدل کے غلبے میں۔ ارضی سیاست الٹ پلٹ ، تہہ و بالا ہوچکی۔ نئی حقیقتیں وقوع پذیر ہونے کو،تکلیف کہ وطن عزیز سیاسی دھینگا مشتی کی آماجگاہ بن چکا ہے۔آج کے دن قومی قیادت کی یکسوئی، یگانگت ، اتفاق رائے، ہم خیالی، ہم آہنگی ، ذہنی موافقت سے وطن عزیزنے سیسہ پلائی دیوار بننا تھا۔ بدقسمتی تفرقہ ، نااتفاقی ، تصادم روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔ سونامی گو قصہ پارینہ ،پیالی کے اندر طوفان برپا رکھنے کا نظام مستحکم اور مؤثربن کر سامنے ہے۔ تین رہنماء ، تین تحریکیں،’’ کہانی ایک‘‘ کو جنم دینے کے درپے ہیں۔ عمران خان تحریک احتساب ، طاہر القادری تحریک قصاص جبکہ شیخ رشید تحریک نجات جانب شانہ بشانہ آگے بڑھ رہے ہیں، منزل طے ہو چکی، رائیونڈ مارچ۔ تینوں رہنماء لاکھوں ساتھیوں کے جلو میں نوازشریف کی ذاتی رہائش گاہ پر چڑھائی، گھیرائو کا ارادہ پکا کرچکے ہیں۔نواز شریف کا وجود، موجب اعصاب شکنی ، ایسوں کی انا کے لئے توہین آمیزوتکلیف دہ ہو چکا ہے۔
حالیہ تقریریں حسب معمول رٹی رٹائی تکرار ہی۔ جھوٹ، مبالغہ ذہنی اذیت کا ساماں پیدا کر رہے ہیں۔ برازیلین صدر کی مواخذہ کی تحریک کو جھوٹ کا ملمع چڑھا کر پیش کرنے میں شرم نہ جھجک، نواز شریف سے مماثلت ہے ہی نہیں۔ پاناما لیکس کی افادیت پر شعور بیدار کرنے میں اس لئے ناکام کہ عمران خان اور ساتھیوں پرلگنے والے کسی الزام کا سنجیدہ جواب دینےسے دلچسپی ہے نہیں۔ چنانچہ اپنے کارکنوں میں بھی پاناما لیکس کو نزاع لفظی سے زیادہ اہمیت نہیں مل رہی۔ تینوں رہنماء ناکام تحریکوں کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں، 2014 کے دھرنے سے برآمد ہونے والی تاریخی پسپائی اور سبکی بھول چکے ہیں۔ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں126دن دھرنے کو مقام ملنے پر خوش ومطمئن ہیں۔کیسی خوش قسمت قوم کہ اخروٹ توڑنے ، تندور میں روٹیاں لگانے ، منہ سے گرہیں کھولنے، 126 دن دھرنا جیسے عالمی ریکارڈ قائم کر چکے ہیں، اگر آرمی پبلک سکول کا سانحہ نہ ہوتا تو ’’بند گلی میں مقید‘‘ تحریک انصاف کے پاس ’’دھرنا ایگزٹ پلان ‘‘ سرے سے موجود ہی نہ تھا،جبکہ ن لیگ کے ارادے انتہائی خطرناک تھے۔ پرویز رشید نے بتایاتھا کہ ’’ ان شاء اللہ 2018کے الیکشن تک عمران خان کو ڈی چوک میں دھرنے پر مجبور رکھیں گے‘‘۔ اس باری یقینا لیگی نابغے ایسے پکے پکائے پھل کو گود لینے میں بے تاب ہیں۔ رائیونڈ مارچ ، آتجھ کو بتائوں،ہے یہ راز کیا؟عمران خان، طاہر القادری اور شیخ رشید کی تمنا صرف اور صرف تصادم ٹکرائو اور کشت وخوں ہے۔ عابد شیر علی جیسےلوگوں کی بات کو درخوراعتنا نہیں سمجھتا کہ’’ اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے‘‘،البتہ رانا ثناء اللہ کے عزائم خطرناک بلکہ عین قرین عقل ومصلحت ، سیاسی سمجھداری اور تیز فہمی کا نمونہ ہیں۔ وہ ہر صورت جاتی امراء محاصرہ کے لئے عمران خان کی حوصلہ افزائی کے موڈ میں ہیں، اگر ن لیگ، کسی طور نواز شریف کے ذاتی مارچ کو کامیاب کروانے میں کامیاب رہتی ہے۔ گردونواح میں مارچ شرکاء کو مثالی سہولتیں اور کئی سال تک پڑائو اور محاصرہ کے بندوبست میں ممدومعاون رہتی ہے تو یقینا نکلنے کا راستہ نہ ہوگا۔ رائیونڈ مارچ یقینا تحریک انصاف کودوبارہ سے بند گلی میں داخل کر جائے گا۔
3 ستمبر کی ریلی / مارچ / جلسہ (کچھ خبر نہیں کیا) نے تاریخ رقم کرنی تھی ۔ ٹھاٹھیں مارتا سمندر دیکھ چکے تھے۔چشم تصور میں 1962کے خان عبدالقیوم خان کے مارچ اور اصغر خان کی 1977 کی کراچی ریلی کو مات دینا تھا، جبکہ لائیو کوریج نے بالآخر چیئرنگ کراس کو تاریخی جلسہ بنانا تھا۔ میڈیا نے جوش وخروش کو چارچاند لگانے میں کسر بھی نہ چھوڑی۔ایسے دعوئوں کا دعویٰ بلندوبانگ ضروررہامگر اختتام مایوس کن تھا۔ دن توقعات پر یقیناً پورا نہ اترا۔ طفل تسلیوں سے خود فریبی سے نہ نکلنا، بات دوسری ہے۔ 3 ستمبر نوازشریف حکومت کو مزید مضبوط کرگیا۔ ذمہ دار کون ہے؟
تحریک انصاف کے خلاف ایسی وارداتیں کون کرتا ہے، کرواتا ہے ؟ نااہلی کی بدترین مثال اور کیا ہوگی کہ باوجودیکہ 2012 میں انٹراپارٹی انتخابات نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ دو سال بعدہی مشہور زمانہ بدنام انتخابات، وجیہہ الدین ٹریبونل نے کالعدم قرار دے دئیے۔ تمام تنظیمیں توڑنی پڑیں، الزامات گھنائونے ، دوبار ہ انٹراپارٹی الیکشن کی ٹھانی ۔ اس دفعہ اس سے بدتر صورتحال سے دوچار رہنا پڑا۔آج کی تاریخ میںکچھ خبر نہیں کہ انتخابات ملتوی ہیں یا منسوخ ۔ آج تنظیمی طورپر پارٹی بدترین صورت حال سے دوچار ہے ۔ دوسرا بڑا بلنڈر انٹرا پارٹی الیکشن سے بھی گمبھیرہے۔ اگست 2014 میں دھرنے دینے کا فیصلہ کیا۔ دس دن پہلے لکھ دیا کہ ’’جناب سیاسی بند گلی میں جا رہے ہو‘‘۔ کنٹینر پر تکبر اور رعونت سے ہاتھ لہراتے جواب آیا کہ ’’بند گلی میں نہیں ہوں‘‘۔ ایمپائر کی انگلی کیا اٹھتی ، 126روزہ دھرنے نے پارٹی کی چولیں ہلا دیں ۔ایک واقعہ برمحل ، موضوع بحث سے مربوط ہے۔ یادِش بخیر ، بھلے دنوں میں،ایسے کئی پروگرام ملتوی یا کینسل کرواتا رہا کہ محنت سے کمائی سیاست ٹکے ٹوکری ہوتے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ 29اکتوبر2011کی رات کو جب تحریک انصاف کے اعلیٰ دماغ( اس وقت تحریک انصاف جہانگیر ترین، شاہ محمود قریشی، پرویز خٹک، علیم خان جیسوں نابغوں سے محروم تھی)مع چیئرمین کئی گھنٹوں کے غوروخوض بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ 30اکتوبر کے جلسے کا بھرپور فائدہ اٹھانا ہوگا۔ حاصل کلام تھا کہ ’’دسمبر 2014کے لئے اسلام آباد مارچ کا اعلان اور صدر زرداری کا گھیرائو، تاوقتیکہ پیپلز پارٹی کی حکومت مستعفی نہ ہو جائے‘‘۔
خاکسار کی موجودگی میں بھلاایسی بے ربط ،غیر سیاسی چال بھلا کیونکر کامیاب رہتی ۔رات گئے تگ ودو کرکے چیئرمین کو قائل کر لیا کہ ہم کسی طور سیاسی بند گلی میں نہیں گھسیں گے ۔ الٹی میٹم دے کر سیاسی قوت ضائع نہیں کرنی ۔ 30اکتوبر کا دن بہت اہم ہے۔اہل وطن کے سامنے مثبت پروگرام دے کر راہ عمل تجویرکر یں گے۔ میرے خیال میں 30اکتوبر کا جلسہ تحریک انصاف کی تاریخ کا واحد اجتماع، جس کے دوررس نتائج مرتب ہوئے۔ تحریک انصاف آسمانوں کو چھو گئی۔آج، عمران خان 2014کے دھرنے کی ناکامی سے سبق سیکھنے کی بجائے فرسٹریشن ازبر کر بیٹھے ہیں۔ ایک بار پھر سے اپنی ذات اور پارٹی کو خوار ورسوا کرنے پر تل چکے ہیں ۔اس عاشقی میںاپنی ذات انتہائی متنازع بنا چکے ہیں۔ ساکھ، صداقت ، دیانت قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔ وہ عمران ہی کیا؟ جو سبق سیکھے اور اپنی گوشمالی کا بندوبست کرے۔ رائیونڈ مارچ کا عزم ، آج کراچی پہنچتے دہرایا ۔ کہیں تو استقامت جناب میں موجود ہے۔ سیاست میں ایک بلنڈر یا بڑی غلطی کی گنجائش بھی نہیں ہے۔ عمران خان تودرجنوں غلطیاں اور نصف درجن سے زیادہ بلنڈر کرچکے ہیں۔

نالائقی ، جھوٹ ، حسد، حرص بدنیتی وتیرہ بن چکے ہیں۔کیا دوہفتوں بعد، رائیونڈ مارچ عمران کی سیاست کو ہمیشہ کے لیے المیہ بنا جائے گا؟ اگر اب قوم ن لیگ ہاتھوں بھگتے گی تو اس کا ذمہ دارکون ؟ فقط عمران خان ہی تو ہے۔ قوم نے تو 2011میں عمران خان کو واضح پیغام دے دیا تھا ، بام عروج تک پہنچا دیا تھا۔ عمران خان، حرص، لالچ، نالائقی، بے وقوفی، بدنیتی میں سب کچھ ضائع کر بیٹھے ہیں۔ وائے ناکامی، بدنصیبی کی کیسی گرفت، ذمہ دارکون؟فقط عمران خان!

بشکریہ جنگ

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website