روزنامہ نوائے وقت و دی نیشن کے چیف ایڈیٹر جناب مجید نظامی مرحوم کی زیر صدارت اسلام آباد آفس میں روزنامہ نوائے وقت کی رپورٹنگ ٹیم کا اجلاس شروع ہی ہوا تو انہوں نے سب سے پہلے جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ محمدسعید کی رہائی کے بارے میں استفسار کر دیا۔ اگلے روز ہی حافظ محمدسعید کو طویل نظر بندی سے رہائی ملی تھی‘ ان کی رہائی کی خبر غیر نمایاں طور پر شائع ہوئی تھی جس پر جناب مجید نظامی نے مجھے مخاطب ہوکر کہا کہ ’’آپ حافظ محمدسعید صاحب کی زیارت کریں اور ان کی نظر بندی اور رہائی کے متعلق تفصیلی خبر فائل کریں۔ حافظ دورحاضر کے ولی اللہ ہیں‘‘ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا سے بے نیاز شخصیت سے میرا اس وقت سے تعلق قائم ہے جب وہ وہ اپنی’’ مجاہدانہ سرگرمیوں ‘‘ کی وجہ سے پوری دنیا کے میڈیا کی توجہ کا مرکز بن چکے تھے‘ میں ان کو راولپنڈی اسلام آباد پریس کلب میں ’’میٹ دی پریس پروگرام ‘‘ میں مدعو کرتا رہا ہوں۔ وہ ملاقات کے لئے بھی پریس کلب تشریف لاتے رہے ہیں لیکن انہوں نے کبھی اپنی شخصیت کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرنے کی اجازت دی اور نہ ہی انہیں فوٹو بنوانے کا شوق رہا ،کافی عرصہ تک وہ کیمرے کی آنکھ سے اوجھل ہی رہے لیکن جب ان کی اجازت کے بغیر ان کی کی تصاویر میڈیا کی زینت بننے لگیں تو پھر انہوں نے بھی کیمرے سے تصاویر بنانے پر پابندی ختم کر دی وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ’’جہادیوں‘‘ کو کیمرے کی آنکھ سے دور ہی رہنا چاہیے۔ میں نے میڈیا سے بے نیاز بہت کم لیڈر دیکھے ہیں‘ مجھے یاد نہیں میں نے کس سال یوم اظہار یکجہتی کشمیر کے سلسلے میں حافظ محمدسعید کی زیر صدارت آبپارہ میں منعقد ہونے والے جلسہ سے خطاب کیا لیکن جب کئی سال بعد چودھری شجاعت حسین کے ہمراہ بھارت جانے کا پروگرام بنایا تومجھے معلوم ہوا کہ بھارت نے مجھے جماعت الدعوۃ کے جلسہ سے خطاب کرنے کے ’’جرم‘‘ میں ’’بلیک لسٹ‘‘ کر دیا ہے۔ بھارتی ہائی کمشن کی جانب سے مجھے ’’ویزا‘‘ دینے سے انکار میرے لئے اعزاز کی بات ہو سکتی تھی۔ کشمیر کاز سے حافظ محمدسعید کی کمٹمنٹ نے ان سے میرا تعلق مستحکم کیا، میں کم و بیش مسلسل 16سال تک راولپنڈی اسلام آباد پریس کلب کا صدر رہا اس دوران جماعت الدعوۃ کے لئے پریس کلب کے دروازے کھلے رکھے بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہوگا کہ حافظ محمدسعید نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز اسلامی جمعیت طلبہ کے پلیٹ فارم سے کیا نوعمری میں ان کی شادی ہوگئی تھی تاہم انہوں نے شادی کے بعد لاہور جا کر یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ یونیورسٹی کی ہنگامہ خیز زندگی میں انہوں نے کھل کر طلباء سیاست میں حصہ لیا اور اسلامی جمعیت طلباء کے پلیٹ فارم سے بڑا کام کیا۔ پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس میں جمعیت کے ناظم بھی رہے۔ ممتازسیاستدان جاوید ہاشمی بھی اس زمانے میں اسلامی جمعیت طلباء میں ہوا کرتے تھے۔ فرید پراچہ بھی ان کے ہم رکاب تھے‘ تینوں ایک ہی طلباء تنظیم سے وابستہ تھے لہٰذا ان کاصبح شام کا ساتھ ہوا کرتا تھا۔ حافظ محمدسعید کا کہنا ہے کہ’’ جاوید ہاشمی ایک دلیر اور پیدائشی لیڈر تھے۔ انتہائی ہونہار اور تیزو طرار بھی۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی میں دو بار الیکشن لڑا اور کامیاب ہوئے۔ ان کی الیکشن مہم چلانے کی ذمہ داری ان پاس ہوا کرتی تھی جبکہ فرید پراچہ شروع سے ہی اعلیٰ شعری ذوق رکھنے والے ایک نستعلیق انسان تھے۔‘‘ یونیورسٹی میں طلباء سیاست کے ہنگامے جاری تھے کہ اس دوران سقوط ڈھاکہ کا سانحہ رونما ہوگیا۔ یہ ان کے لئے ایک بہت بڑا صدمہ تھا جس کی کسک وہ آج بھی اپنے دل میں محسوس کرتے ہیں‘ 1972ء میں بنگلہ دیش نامنظور تحریک چلی تو زندگی کی پہلی جیل بھی انہیں بنگلہ دیش نامنظور تحریک میں حصہ لینے پر ہوئی۔ جاوید ہاشمی ان کے جیل کے ساتھی تھے لیکن دونوں کو الگ الگ رکھا گیا تھا تاہم کچھ عرصے بعد انہیں رہائی مل گئی۔ حافظ محمدسعید نے یونیورسٹی میں پہلے عربی اور پھر اسلامک اسٹڈیز میں ایم اے کیا۔ 1974ء میں دو ایم اے کرکے فارغ ہوا تو اسلامی نظریاتی کونسل میں ریسرچ اسسٹنٹ کے طور پر ذمہ داری مل گئی۔ یہ ان پہلی ملازمت تھی، تنخواہ 500 روپے ماہانہ مقرر ہوئی۔ چھ سات ماہ بعد انجینئرنگ یونیورسٹی میں بطور لیکچر تقرری ہو گئی جہاں انہوں نے نے 25برس تک درس وتدریس کا فریضہ انجام دیا۔ 1981ء حافظ محمدسعید کی زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ ہے انہیں سعودی عرب میں مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے سکالر شپ مل گئی۔ کنگ سعود یونیورسٹی ریاض میں داخلہ مل گیا وہاں دو برس تک پڑھتے رہے۔ شیخ عبدالعزیز بن باز، سعودی عرب کے مفتی اعظم تھے۔ وہ صبح کے وقت ایک مسجد میں درس دیا کرتے تھے‘ جب تک سعودی عرب رہے شیخ بن باز سے دینی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ حافظ محمد سعید کہا کرتے ہیںشیخ بن باز سے ان کی ملاقات نہ ہوتی تو شاید جماعت الدعوۃ قائم کرنے کا خیال ان کے ذہن میں نہ آتا‘‘۔ 1983ء میں سعودی عرب سے واپسی ہوئی تو دوبارہ یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کر دیا اور ساتھ ہی جماعت الدعوۃ کے قیام کے حوالے سے بھی سوچ بچا ر جاری رکھی۔ انہوں نے 1985ء میں جماعت الدعوۃ کی بنیاد رکھی جس کے بانی ارکان کی تعداد پانچ چھ سے زیادہ نہیں تھی اور وسائل نہ ہونے کے برابر، لیکن آج 31سال بعدجماعت الدعوۃکا شمار پاکستان کی بہت بڑی دینی جماعت میں ہوتا جس کے کارکنوں کی تعداد کا کوئی اندازہ ہی نہیں ۔حافظ محمدسعید نے درس و تدریس ترک کرکے اپنے آپ کو ’’کشمیر کاز‘‘ کے لئے وقف کر دیا‘ حافظ محمدسعید جس کے ہاتھ میں توپ ہے نہ تلوار لیکن ان کے مشن میں صداقت نے ان میں اتنی قوت پیدا کردی ہے۔ بھارت جیسی ایٹمی قوت ہر وقت ان سے لرزاں برندام رہتی ہے‘ بھارت میں کوئی معمولی نوعیت کا واقعہ بھی ہو جائے تو ان کے سر تھوپ دیتی ہے۔ بھارت قلم و کتاب سے دوستی رکھنے والی شخصیت کو دنیا کے سامنے ’’دہشت گرد ‘‘ بنا کر پیش کرنے کی کو شش کرتا رہتاہے 2012ء میں اقوام متحدہ نے ان کے خلاف مواد فراہم کرنے کے لئے10ملین ڈالر کا انعام مقرر کر رکھا ہے۔ جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت فائونڈیشن اقوام متحدہ کی قرارداد کے تحت ’’واچ لسٹ‘‘ پر ہیں، گاہے بگاہے امریکہ اور دوسرے یورپی ممالک کے حوالے پاکستان پر ان تنظیموں پر پابندی لگانے کے لئے دبائو ڈال جاتا رہا ہے۔ حافظ محمدسعید کو بارہا نظربند تو کیا جاتا رہا لیکن ہر بار کوئی الزام ثابت نہ ہونے پر عدلیہ رہا کر دیتی یا حکومت اپنا حکم واپس لے لیتی۔ میں پچھلے کئی دنوں سے اسلام آباد میں پس پردہ پیش آنے والے ان واقعات کا عینی شاہد ہوں جن سے ’’جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت ‘‘ کو گزرنا پڑ رہا تھا اگرچہ حکومت پاکستان کی طرف سے دعویٰ کیا جا رہا ہے اس نے جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت فائونڈیشن کے حوالے تمام اقدامات کسی بیرونی دبائو کی بجائے ’’عالمی ذمہ داریوں ‘‘ کو پیش نظر رکھ کر کئے ہیں تاہم حقائق اس کے برعکس ہیں۔ مجھے کچھ دنوں سے جماعت الدعوۃ کی قیادت پر ہاتھ ڈالنے کے بارے میں سن گن ہوگئی تھی‘ حافظ محمدسعید جنہوں نے اپنی نظربندی سے چند روز قبل 2017 کو ’’کشمیر کا سال‘‘ قرار دے دیا تھا کو اس بات کا علم تھا ایک بار پھر ان کی نظر بندی کا پروانہ جاری ہونے والا ہے۔ جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت فائونڈیشن کی سرگرمیاں محدود کرنے کے بارے میں حکومت اور ریاستی اداروں کے درمیان کئی روز تک صلاح مشورے ہوتے رہے لیکن حکومت میں ایسے وزراء موجود ہیں جو ’’حق سچ‘‘ بات کہنے سے گریز نہیں کرتے‘ ایک وزیر تو ایسا بھی ہے جو دنیا میں کہیں کسی مسلمان کو کانٹا چبھ جائے توتڑپ جاتا ہے اور اس کی مدد کو جا پہنچتا ہے۔ آخری وقت تک جماعت الدعوۃ کے خلاف ’’کارروائی‘‘ کرنے میں حکومت کو اندر سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ جماعت الدعوۃکی قیادت پچھلے کئی ماہ سے ’’گرم پانیوں ‘‘ میں تھی‘ اسے اپنی معمول کی سرگرمیاں جاری رکھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا حافظ سعید بار بار وفاقی حکومت کو اس پریشان کن صورت حال سے آگاہ کر رہے تھے لیکن ان کی کو ئی شنوائی نہیں ہو رہی تھی تاہم وفاقی حکومت میں ایک’’ مضبوط لابی ‘‘ جماعت الدعوۃ جیسی ’’غیر سیاسی تنظیم پر‘‘ بلا جواز پابندیاںعائد کرنے کے خلاف تھی اور وہ وزیراعظم محمد نوازشریف کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہی تھی کہ جماعت الدعوۃ کا نام اقوام متحدہ کی ’’واچ لسٹ‘‘ پر ہونے کے باوجود اس پر پابندی لگانے کا کوئی جواز نہیں۔ پچھلے دو ہفتے کے دوران ’’واشنگٹن ‘‘سے جماعت الدعوۃ کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے مسلسل دبائو ڈالا جارہاتھا۔ امریکہ میں پاکستان کے سفیرجلیل عباس جماعت الدعوۃ کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر حکومت کو سنگین نتائج بھگتنے کے لئے تیار رہنے کا انتباہ کر رہے تھے بالآخر حکومت نے بیرونی دبائو کے سامنے ’’سرنڈر‘‘ کر ہی دیا۔ جماعت الدعوۃ کے امیر حافظ سعید سمیت 5رہنمائوں کو جہاں 90روز کیلئے نظربند کر دیا وہاں حافظ محمدسعید سمیت 38رہنمائوں کے نام ای سی ایل پر ڈال دئیے گئے ہیں۔ نیشنل کائونٹر ٹیررازم اتھارٹی کی طرف سے جاری کردہ نئی فہرست کے مطابق ’’جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت فائونڈیشن‘‘ کو 27جنوری 2017 کو ’’واچ لسٹ‘‘ میں شامل کرنے کے بعد ہی 31جنوری 2017ء کو حافظ سعید کی نظربندی کا حکم جاری کیا گیا ہے۔ بظاہر حافظ محمدسعید کی نظربندی فوری طور ختم ہونے کا امکان نظر نہیں آتا‘ 90روز کی نظربندی مکمل ہونے کے بعد اس میں مزید 90دن کی توسیع بھی کی جاسکتی ہے۔ اس بات کا قوی امکان ہے نظربندی میں اس وقت توسیع ہوتی رہے گی جب تک پاکستان پر امریکی دبائو ختم نہیں ہو جاتا۔ حافظ محمدسعید نے اس نظربندی کو چیلنج کرنے کا اصولی فیصلہ کرلیا ہے۔ وفاقی وزارت داخلہ میں شنوائی نہ ہونے کی صورت میں وہ ہائی کورٹ سے رجوع کریں گے۔ وفاقی وزارت داخلہ کے ترجمان نے بھارت کی طرف سے کی جانے والی الزام تراشی کا زور دار جواب دے دیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان نے جماعت الدعوۃ کے بارے میں جو کارروائی کی ہے وہ عالمی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی طرف قدم ہے۔ بھارت سے سرٹیفکیٹ لینا ضروری نہیں،مسلم لیگ(ن) کی حکومت میں ایک مضبوط لابی موجود ہے جوجماعت الدعوۃ کو ایک دینی فلاحی تنظیم سمجھتی ہے۔ زلزلہ ہو یاسیلاب ہر جگہ جماعت الدعوۃ کے کارکن متاثرہ افراد کی مدد کے لئے موجود ہوتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ کے بدترین زلزلہ میں بھی جماعت الدعوۃ کے کارکنوں نے امریکی ہیلی کاپٹروںکے ذریعے آنے والی امداد متاثرین تک پہنچانے اور دشوار گزار علاقوں سے لوگوں نکالنے میں جس جرأت و بہادری کا مظاہرہ کیا۔ امریکی پائلٹ بھی ان کی صلاحیتوں کے معترف نظر آتے تھے‘ اس وقت کسی امریکی پائلٹ نے جماعت الدعوۃکے کارکنوں کی موجودگی پر اعتراض نہیں کیا تھا۔ جماعت الدعوۃ نے رواں سال اپنی تمام سرگرمیوں کو کشمیر کا مسئلہ اجاگر کرنے تک محدود کر دیا ہے‘ حافظ محمدسعید کی نظربندی سے کشمیر کاز کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔