تحریر : اختر سردار چودھری
ہمارے آقا نبی کریم جب عہدہ رسالت پر فائز ہوئے تو اس سے قبل قبلہ بیت المقدس تھا۔ جبکہ حضور ۖ بھی نماز اس کی طرف ر خ مبارک کر کے ادا کرتے تھے۔ ہجرت کے بعد قبلہ بیت المقدس ہی رہا ۔سن 2 ہجری کا واقعہ ہے کہ ایک روز حضور سید الکونینۖ مدینہ منورہ کے قرب وجوار میں نماز ادا کر رہے تھے کہ یہ آرزوئے جمیل پیدا ہوئی کہ کیاہی اچھا ہو جو قبلہ کعبة اللہ مقرر ہو جائے، جو حضور کی جداعلیٰ حضرت سیدنا ابراہیم کے ہاتھوں تعمیر ہوا تھا۔اسی وقت رب کریم کے حکم سے حضرت جبرائیل وحی لے کرآ گئے(مفہوم)۔ اے حبیب ۖ ہم آپ کے چہرے کی گردش آسمان کی طرف دیکھتے ہیں پس ہم آپ کا روئے مبارک اس قبلہ کی طرف پھیرتے ہیں۔ جس کو (اللہ )نے پسند فرمایا ہے پس اب مسجد حرام کی طرف منہ پھیر لیجئے اور آپ جہاں بھی ہوں اپنا منہ اس طرف کر کے نماز ادا کیا کریں (القرآن)۔
اس روز حضورۖ کی دعا سے مسجد حرام ہمیشہ کیلئے تمام مسلمانوں کا کعبہ بن گئی اور تما م مسلمان ایام حج میں اس جگہ جمع ہو کر فریضہ حج ادا کرتے ہیں جہاں فرشتے بھی ادب سے اپنی نگاہوں کو جھکائے صلوة و سلام کے نغمات پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ حج کے لغوی معنی قصد کرنے ،گرد گھومنے ،بار بار لوٹ کر آنے کے ہیں ۔حج کے ایام ہر سال ،ماہ ذوالحج میں آتے ہیں، اس لیے اسے حج کہا جاتا ہے اور حجاجِ کرام دنیا کے گوشے گوشے سے جوق در جوق ،،مختلف راستوں سے اور مختلف اطراف سے مکہ مکرمہ (کعبة اللہ ) کی جانب کھینچے چلے آتے ہیں ۔جہاں ایمان والوں کے ساتھ لبیک اللھم لبیک کی صدائیں بلند کرتے نظر آتے ہیں۔ جہاں سلاطین کی سر بھی عقیدت سے خم ہیں۔
حج کے مقدس اور با وقار موقع پر دنیا بھر سے 35 لاکھ سے زائد مسلمانانِ عالم اسلام کا عظیم اجتماع پوری دنیا کا سب سے بڑا اجتماع دنیا کے کسی بھی ایک مقام پرصرف حج کا ہی ہوتا ہے حج مبارک اسلام کا پانچواں بنیادی رکن ہے ۔جس کی زینت قرآن پاک سے ثابت ہے آپ ۖ نے اپنی زندگی میں صرف ایک حج کیا اور ہرصاحب حیثیت مسلمان پر زندگی میں ایک بار حج کرنا فرض ہے مقدس مہینے ذوالحج کی 9 تاریخ کو انسانوں کا ٹھا ٹھیں مارتا ہواسمندرمیدان عرفات میں اپنے خالق و مالک کے ہاں سر بسجود ہو کر فریضہ حج ادا کرتا ہے۔ تمام عبادات ہر جگہ ادا ہوسکتی ہیں مگر حج اللہ تعالیٰ کے گھر پہنچ کر اور اس کا مہمان بن کر ہی ادا ہوتا ہے۔
تمام عبادات میں اطاعت غالب ہے کچھ عبادات مالی ہیں کچھ بدنی ہیں کچھ میں صرف اطاعت ہے کچھ عبادات عقیدے ہیں ۔مگر حج میں محبت و عشق غالب ہے کہ حاجی دیوانوں کی طرح کعبہ شریف کے گرد گھومتا ہے اور لبیک اللھم لبیک کے ساتھ چیخ و پکار کرتا ہے۔مگرحج مالی بھی ہے اور بدنی بھی ہے۔کوئی میزبان اپنے مہمان کو بلا کر خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا۔ چھوٹی اسناد ہر سکول تعلیمی بورڈ سے مل سکتی ہے ۔ مگر اعلیٰ ڈگری یونیورسٹی سے حاصل ہوتی ہے۔ تمام عبادات میں اطاعت غالب ہے۔ حج کے موقع پر ساری دنیا کے مسلمان ایک جگہ اکھٹے ہو کر اپنے مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں گو یا کہ ہر سال مکہ جو زمین کا قلب بھی ہے اس میں مسلمانوں کی بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہو تی ہے۔ حج کا سب سے اہم یہ بھی مقصد تھا مگر ہم دیکھتے ہیں اس پر اب عمل نہیں کیا جا رہا آپ ۖ کے زمانے اور اس کے بعد صحابہ کے زمانے میں ایسا ہوتا رہا ہے۔
کاش آج پھر اس پر عمل شروع ہو جائے آج اس کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے)۔موجودہ دور میں نفرت ، تعصب ،انتشار ،ظلم و ستم کا دور دورہ ہے ، آج کل نفرت محبت سے زیادہ طاقت ور ہو رہی ہے رنگ ،نسل ،زبان اور گروہی مفادات نے مسلمانوں کو تقسیم کر رکھا ہے اس میں اپنے پرائے سب شامل ہیں ۔ ایسے دور میں حج امن و سلامتی محبت و مساوات کا ایک درس ہے جو اپنی مثال آپ ہے ۔پوری دنیاسے مسلمان گورے ،کالے بناں کسی رنگ و نسل ،زبان کی تخصیص کے ایک جگہ اپنے اللہ کی خوشنودی کے لیے جمع ہوتے ہیں ۔حج کا اصل مقصد پوری دنیا کے مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانا ان میں بھائی چارے کو مضبوط کرنا ہے۔
حرم کعبہ میں مرد و زن اکٹھے طواف کرتے ہیں ، سعی کرتے ہیںاور سب کی توجہ اپنے خالق و مالک کی طرف ہوتی ہے ۔ایک جیسے لباس میں امیر و غریب ، حاکم و محکوم اور آقاو غلام کی تمیز مٹ جاتی ہے ۔سب ہی ایک اللہ کے بندے بن جاتے ہیں ۔اس کے سوا دنیا کے ہر بادشاہ کی غلامی انسان کے لئے شرک کا درجہ رکھتی ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ بادشاہوں کا بادشاہ ہے ہم نے لکھاکہ حج سے محبت حقیقی اور محبت مجازی کی محبت کا درس ملتا ہے اللہ سبحان تعالی کی خوشنودی کے لیے اللہ کے بندوں سے محبت ، عالمی بھائی چارہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اس رشتے کو تقویت ملتی ہے۔
مساوات اسلام میں سب برابر ہیں اس میں گورے کو کالے پر کوئی اہمیت حاصل نہیں ہے ،پابندی وقت ایک ایسی انسانی خوبی ہے جس پر زندگی کی کامیابی یا ناکامی کا بھی دارومدار ہوتا ہے حج میں ہم ہر کام کو اس کے وقت پر کرنا سیکھتے ہیں وغیرہ وغیرہ ،حج سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔ایک حقیقی مسلمان کیسا ہوتا ہے اس کی تربیت ہوتی ہے ۔ مگر حج میں محبت و عشق غالب ہے کہ حاجی دیوانوں کی طرح گرد آلود بالوں کے ساتھ کعبہ شریف کے گرد گھومتا ہے اور لبیک اللھم لبیک کے ساتھ چیخ و پکار کرتا ہے۔ باقی عبادات صرف بدنی ہیں مگرحج مالی بھی ہے اور بدنی بھی ہے۔ حج کے موقع پر ساری دنیا کے مسلمان ایک جگہ اکھٹے ہو کر اپنے مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں گو یا کہ ہر سال عرب کی سر زمین میں بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہو جاتی ہے(حج کا سب سے اہم یہ بھی مقصد تھا مگر ہم دیکھتے ہیں اس پر اب عمل نہیں کیا جا رہا آپ ۖ کے زمانے اور اس کے بعد صحابہ کے زمانے میں ایسا ہوتا رہا۔
مناسک حج کے دوران جو سبق ہمارے دلوں پر لکھا جاتا ہے ہم اس پر کس حد تک عمل کرتے ہیں؟ اپنے رب کے گھر میںاپنے رب سے جو عہد کر تے ہیں اسے بھول کیوں جاتے ہیں؟ حج میں وقت کی پابندی، مساوات ، احترام انسانیت، محبت، انس اور بندگی کو جو سیکھ کر آتے ہیں اسے ہم میں سے اکثر بھول کیوں جاتے ہیں؟ ،بدل کیوں جاتے ہیں ؟ حج کی ادائیگی سے دل میں نرمی ،اخلاق میں پاکیزگی پیدا ہو جاتی ہے۔یہ وقتی کیوں ہوتی ہے ؟۔ لوگ ایک سا لباس پہن کر سخت گرمی میں طواف کعبہ کرتے ہیں امیر ،غریب بھی ،بوڑھا بھی اور جوان بھی ، غلام اور آقا بھی ، ولی ،غوث ،قطب،ابدال بھی سب برابر ہوتے ہیں۔
لیکن حج سے واپس آکر بہت سارے ادنی و اعلی میں کیوں پڑ جاتے ہیں ۔ اسی وجہ سے شائد ڈاکٹر علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ۔ زبان سے کہہ بھی دیا لا الا تو کیا حاصل ۔دل و نگاہ نہیں مسلمان تو کچھ بھی نہیں ۔ اللہ سبحان و تعالی ہم سب کوحج بیت اللہ کی سعادت نصیب فرمائیں،حج کو سمجھنے سیکھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں اور اپنی زندگیوں کو دین اسلام کے زریں اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دیں۔آمین ثمہ آمین۔
تحریر : اختر سردار چودھری