تحریر : ممتاز ملک
وہ اس دن بے حد خوش تھا اس کی سالوں کی مراد بر آئی تھی . اس کا حج پہ جانے کا خواب پورا ہونے جا رہا تھا . آج قافلے کے رہنما سے اس کی فیصلہ کن بات ہو گئی تھی اور کل اسے تمام رقم رہنما کو ادا کرنا تھی. وہ ابھی سے خود کو مَکّہ اور مدینہ کی گلیوں میں گھومتا ہوا محسوس کر رہا تھا .یہ رقم اس کی سالوں کی جمع پونجی تھی جو اس نے دن رات کی محنت کے بعد بچائی تھی . اپنے گھر کے دروازے پر پہنچتے ہوئے اسے ساتھ کے گھر سے گوشت بھوننے کی خوشبو آئی . اسے معلوم تھا گھر میں آج گوشت نہیں بنا تو اس نے بلا سوچے سمجھے ہی پڑوسی کے دروازے پر دستک دی . ایک.نوجوانی کی آخری دہلیز پہ کھڑی لڑکی نے پردے کی آوٹ سے پوچھا کیا بات ہے چچا جان . ..بیٹا آپ کے گھر سے گوشت بھوننے کی خوشبو آئی تو رہ نہ سکا .کیا کچھ بھنا گوشت ملے گا میں کل گھر میں پکوا کر لوٹا دونگا.اس نے لجاجت سے کہا ،لڑکی سوچتے ہوئے رندھی ہوئی اواز میں بولی
لیکن یہ گوشت آپ کیسے کھا سکتے ہیں . یہ تو ہمارے لیئے حلال اور آپ کے لیئے حرام ہے. کیا مطلب بیٹا ہم ایک ہی دین کےماننے والے ہیں تو جو چیز آپ کے لیئے حلال ہے وہ میرے لیئے حرام کیسے ہو سکتی ہے . لڑکی کی آنکھوں سے آنسو گر کر اس کے پھٹے ہوئے دوپٹے میں جذب ہونے لگے۔کچھ دیر توقف کیا پھر بولی، آپ جانتے ہیں ہمارے والد صاحب کافی عرصہ سے بیمار ہیں۔ ہم بہنیں ہی مزدوری سے گھر چلاتی ہیں . کافی دنوں سے کوئی کام نہیں ملا تو گھر میں فاقے ہونے لگے .آج ایک ہفتے کے فاقے کے بعد مجبور ہو کر باہر سے مرے ہوئے گدھے کا گوشت لائی ہوں کہ اسے کھا کر کم از کم ہم زندہ تو رہ سکیں
لیکن یہ آپ کیسے کھا سکتے ہیں ۔ ہمیں تو اپنی زندگی کی ڈور کو سلامت رکھنے کے لیئے یہ کھانا پڑا . ہم میں سے کسی کی شادی اسی غربت کی وجہ سے نہ ہو پائی ورنہ شاید ہم اس قدر تنگ دست نہ ہوتے . یہ سنتے ہی وہ سناٹے میں آگیا . اس کی آنکھوں ہی میں نہیں دل میں بھی طوفان سا امڈ آیا .جن کے در کی خاک کو آنکھوں کا سرمہ بنانے چلا ہوں ان کی تو پہلی بات ہی پوری نہ کر سکا کہ “جس کا پڑوسی بھوکاہو اور وہ پیٹ بھر کر سو گیا تو وہ ہم میں سے نہیں .یا اللہ یہ کیا ہو گیا یہ گھرانہ ہفتے بھر سے بھوکا تھا میرے گھر سے ہر پکوان کی خوشبو یہاں تک آتی رہی اور یہ مجبور بھوک سے تڑپتے رہے
میں پیٹ بھر کر سو گیا اور یہ فاقہ زدہ اس حال میں تھے .میں جس خدا کے گھر کا حج کرنے جا رہا ہوں اس نے تو بیٹی کو آباد کرنا اس کی شادی کر کے اسے اپنے گھر کا کر دینے کو ہی حج کر دیا ہے اور میں بے خبر رہا۔وہ الٹنے پیروں لوٹا اپنے گھر سے حج کے لیئے رکھی رقم اٹھائی اور اس لڑکی کے والد سے مل کر اس کے ہاتھ پر رکھ دی اور بڑی ہی شرمندگی سے بولا میں معافی چاہتا ہوں آپ کے حال کی خبر نہ رکھ سکا اب آپ اسے قرض حسنہ سمجھ کر قبول کریں اور اپنی بیٹیوں کی رخصتی کا انتظام کریں . اسی رات اس وقت کے سب سے بڑے عالم نے خواب دیکھا کہ خانہ کعبہ پر دو فرشتے آپس میں بات کرتے ہوئے پوچھتے ہیں. بتاؤ بھلا اس سال کتنے لوگوں کا حج قبول ہوا تو دوسرے نے کہا اس سال اللہ پاک نے یہاں آنے والے تمام لوگوں کا حج اس ایک آدمی کی محبت میں قبول کر لیا ہے جو کہ حج کرنے آیا ہی نہیں . اور وقت کے اس عالم کو اس عام سے مزدور کا چہرہ دکھا دیا گیا .
جسے ڈھونڈ کر اس سے پوچھنے پر انہیںاس کہانی کا علم ہوا اور حج کی مبارکباد بھی پیش کی . لیکن ہمیں کیا ہم تو تیرہ لاکھ کا بیس لاکھ کا بیل خرید کر پورے علاقے میں اس کے میڈیا میں اپنے نام کی دھوم کیوں نہ مچائیں . پڑوس میں ،عزیزوں میں کسی کی بیٹی محض پچاس ہزار میں بیاہی نہیں جا رہی تو کیا ہوا اس کا نصیب . کسی کے گھر میں مہینوں سے گوشت نہ پکا ہو تو ہمیں کیا. کسی کا چولہا نہیں جلا تو میرا مسئلہ نہیں ،کسی کو کئی دن سے کام نہیں ملا تو میں ذمہ دار تھوڑا ہوں
میری ہی گلی میں کوئی دوا نہ ہونے پر ایڑیاں رگڑ رہا ہے تو خدا اس کو صحت دے ،میں کیوں ٹینشن لوں عید سر پر ہے جی سب سے قیمتی لاکھوں میں تو بیل ہونا ہی چاہیئے جو میرے دروازے پر بندھا ہو ، تو پورے علاقے میں میری بےجا بےجا ہو جائے .آخر کو چار لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا ہے .ٹی وی بند کرو بھائی کیا ہر وقت دکھڑے سناتارہتا ہے. فاقہ زدہ مخلوق دکھا کر سارے کھانے کا مزا خراب کر دیا . اللہ خیر ۔۔۔۔۔۔۔ شکر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر : ممتاز ملک