تحریر: ڈاکٹر سید علی عباس شاہ ، دبئی
حسام بن حاتم اصم نے کہا کہ مجھے شفیق بلخی نے کہا کہ میں ١٤٦ھ میں حج کرنے گیا،قادسیہ کے مقام پہ ٹھہرا اور لوگوں کا حج کو جانا اور ان کی زینت اور کثرت ِہجوم دیکھ رہا تھا۔ اچانک میری نگاہ ایک خوبصورت بلند قامت نوجوان پہ پڑی جس کا رنگ گندمی تھا اور وہ تنہا بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ یہ شخص صوفی ہے۔ لوگوں کے ساتھ حج کو جانا چاہتا ہے اور راستہ میں ان کے لیے بوجھ ثابت ہو گا۔ اللہ کی قسم کھا کر کہا کہ میں اس کے پاس جاتا ہو ں اور سختی سے اسے کچھ کہتا ہوں۔ میں اس کے قریب ہوا جب مجھے قریب آتے دیکھا تو اس نے کہا اے شفیق؛اِجْتَنِبوا کَثِیْرًا مِّنَ الَّظنِّ اِنَّ بَعْضَ الَّظِنّ اثم قرآن سورة الحجرات آیت ١٢،زیادہ گمانوں سے اجتناب کرو کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔
یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔ میں نے دل ہی دل میں خیال کیا کہ یہ عجیب بات ہوئی ہے۔ اس نے تو میرا نام اورمافی ضمیرکہہ دیا ہے، یہ کوئی نیک آدمی ہے مجھے اس سے معافی مانگنی چاہیے اور دعا کرانی چاہیے میں نے ہر چند تیز چلنے کی کوشش کی لیکن اسے نہ پا سکا۔دوسری منزل ( وادیٔ فضہ ) پر پہنچے تو میں نے اسے مشغولِ نماز دیکھا۔ اس کے جسم پہ لرزہ طار ی تھا اور آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ میں نے پھر چاہا کہ معافی مانگوں۔ چند منٹ توقف کے بعد میں اس کی طرف چل دیا تو اس نے کہا اے شفیق: وَ اِنیّ ْ لغَفّار لمَِنْ تابَ وَ واٰمَنَ وَعَمِلَ صالحِاً ثمَُّ اھتَدَی،سورة طہٰ آیت ٨٢، اور بے شک میں بخشنے والا ہوں ان کو جو توبہ کریں اور ایمان لائیں اور عمل اچھے کریں پھر ہدایت پر رہیں۔
یہ کہہ کر وہ مجھے چھوڑ کے چل دیا۔ میں سمجھا یہ نوجوان ابدال میں سے ہے جو میرے دل کے بھید مجھے بتا رہا ہے۔ جب ہم مقام ابوا پر پہنچے تو میں نے اس نوجوان کو ایک کنویں پر کھڑے دیکھا۔ اس کے ہاتھ میں پانی کا کوزہ تھا جو کہ ہاتھ سے کنویں میں گر گیا۔ نوجوان نے آسمان کی طرف چہرہ کر کے کہا؛ اَنتَ شربی اِذا طمأت مِْنَ المْاء وَ قُوّتی اِذا رُدَتّ ْ طَعَاماً اللّھُمَّ سَّیدی الیٰ غیرِھَا فَلاَ تقدیماً،تو ہی پلانے والا ہے جب میں پیاسا ہوں اور تو ہی قوت دینے والا ہے جب میں طعام کا ارادہ کروں اے میرے اللہ! میرے سردار! تیرے سوا میرا کوئی نہیں مجھ سے یہ معدوم نہ کر۔
بخدا میں نے پانی کو اوپر آتے دیکھا۔ اس نوجوان نے اپنا ہاتھ بڑھا کر ڈول کو سطح آب سے اٹھالیا اور اُس سے وضو کر کے چار رکعت نماز ادا کی۔ پھر وہ ریت کے ایک ٹیلے کی طرف چل دیا اور اپنی مٹھی میں تھوڑی سی ریت پکڑ کر اس کوزے میں ڈال دی اور خوب ہلا کر پی گیا۔یہ دیکھ کے میں اس کے پاس گیا اور السلام علیکم کہا اس نے جواب دیا۔ میں نے کہا، “مجھے کھانا کھلائیے کیونکہ خدا تعالیٰ نے آپ کو بہت کچھ دے رکھا ہے۔”اس نوجوان نے کہا؛” اے شفیق! ہمیشہ خداوند ِ تعالیٰ کی ظاہر و باطن کی نعمتیں مجھے ملتی رہتی ہیں۔ اس لیے تو خدا تعالیٰ کے بارے میں نیک گمان رکھ۔”
پھر اس نے مجھے وہی ڈول دیا جس میں سے میں نے پانی پیا۔ اس میں ستو اور شکر تھے۔ خدا کی قسم! میں نے ان سے شیریں اور لذیذ چیز کبھی نہیں پی تھی۔ میں سیر و سیراب ہو گیا یہاں تک کہ چند دن تک مجھے کھانے پینے کی حاجت نہ رہی۔ اس کے بعد وہ مجھے نظر نہ آیا۔جب مکہ معظمہ پہنچے تو میں نے اسے تہجد پڑھتے دیکھا وہ نہایت خشوع وخصوع سے نماز پڑھ رہا تھا اور آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ ساری رات اسی طرح رہا حتیٰ کہ فجر طلوع ہو گئی۔ نمازِ فجر کے بعد وہ طواف میں محوہوگیا۔ طواف کر کے باہر چلا گیا ۔ میں بھی اسکے پیچھے ہو لیا اور ارادہ کیا کہ سلام کروں۔ میں نے دیکھا کہ لوگوں کی ایک جماعت نے اسے گھیر رکھا ہے آگے پیچھے دائیں بائیں خدام اور تابع ِفرمان غلام تھے اور مل کرکہہ رہے تھے: السَّلام عَلیک یا ابْنَ رسولَ اللّٰہ،فرزند ِ رسولۖ !آپ پر سلام ہو۔
میں نے ایک شخص سے استفسار کیا تو اس نے بتایا کہ یہ موسیٰ کاظم بن جعفر صادق بن محمد باقربن علی زین العابدین بن حسین سید الشہدا بن علی ابن ِ ابی طالب علیہم السلام ہیں۔میرے منہ سے بے ساختہ نکلا کہ اس سید سے اس قسم کی عجیب و غریب باتوں کا صادرہونا تعجب کی بات نہیں۔علماکی ایک جماعت نے آپ کی یہ کرامت ذکر کی ہے۔ ابن ِجوزی اپنی تصنیف مثیر الغرام الساکن اِلیٰ اشرف الاماکن میں اس کی روایت کی ہے۔ جنا بذی نے ‘معالم العترة النبویةاور رامہرمذی نے اپنی کتاب ‘کرامات الاؤلیا ‘ میں اسکی روایت کی ہے۔اس وقت سیدنا امام موسیٰ کاظم حیات ِدنیاوی کے اٹھارویں سال میں تھے اور آپ کے عہد ِامامت سے دوسال پہلے کا واقعہ ہے ۔
پیشوائے تمام رندانم ،کہ سگ ِکوئے شیر یزدانم
گیارہویںخلیفہ رسول سیدناامام حسن عسکری سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا، ایک دفعہ ہارون اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ حج کے لیے آیا۔ حج کے موقع پر اتنی مخلوق تھی کہ طواف کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ اچانک ایک نورانی چہرے والا نوجوان آیا اور ہارون کے آگے آگے چلنے لگا اور طواف کرنے لگا۔ ہارون نے سوچا یہ کون ہے کہ جسے بادشاہ ِوقت سے خوف محسوس نہیں ہوتا۔ ہارون جو کام کرنے کا ارادہ کرتا یہ نوجوان آگے بڑھ کر وہ کر دیتا۔ ہارون نے ارادہ کیا کہ حجراسود کا بوسہ لے تو نوجوان آگے بڑھا اور حجراسود کا بوسہ لینے لگا۔ ہارون نے چاہا کہ مقام ابراہیم پر نماز پڑھے۔ نوجوان اس سے پہلے آگے بڑھا اور نماز پڑھنے لگا۔ ہارون یہ ماجرا دیکھ کر پیچ و تاپ کھانے لگا۔ اس نے غلام سے کہا کہ جا کر اس نوجوان کو بلا کر لاؤ۔ غلام نے جا کر پیغام دیا تو جواب ملا کہ اگر اسے کام ہے تو اسے کہو وہ چل کر آئے میں کیوں اس کے پاس جاؤں۔
ہارون چل کر نوجوان کے پاس پہنچا اور ایک مسئلہ پوچھا اور کہا کہ اگر اس مسئلے کا جواب نہ دے سکے تو می تمہیںصفاو مروہ کے درمیان قتل کر دوں گا۔( حقیقت میں غصہ اس بات پر تھا کہ نوجوان مجھے اور میری بادشاہت کو خاطر میں کیوں نہیں لا رہا۔) ہارون نے یہ بات کی تو نوجوان نے مسکراتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا پروردگار! تعجب ہے؛
فَرَاعِنةُ ھٰذِہِ الأُمَّةْ یَتَحدَّدُونَ با لْعامِلینَ بالأ مْرِ اُوِْلی الأ مْرِ الَّذینَ فَرَضتَ طاعَتُھُمْ عَلیٰ کُلِّ خَلقِْک،اس امت کے فراعین، صاحب ِامر کو عاملین ِامر سے ڈراتے ہیں۔ وہ صاحبان امر کہ جن کی اطاعت تو نے کائنات کی ہرجنس پر فرض کی ہے۔ہارون نے پوچھا کہ یہ نوجوان کون ہے تو بتایا گیا کہ یہ علی کا بیٹا ہے۔ نام موسیٰ ہے لقب کاظم ہے۔ تو اس سے اور تو کچھ بن نہ پڑا کیوں کہ قدم قدم پہ تضحیک ہو رہی تھی۔ توفوراً کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اولادِ ابو تراب اپنے آپ کو کیا سمجھتی ہے۔ اتنی عزت کا مالک تو ابوتراب بھی نہ تھا کہ جس کا تقاضا یہ کرتے ہیں۔
کاظم ِ آل محمدۖ نے یہ دیکھا کہ ہارون امیر المؤمنین کی گستاخی کر رہا تو صحیفہ رحمت پہ جلال آیا اور فرمایا کہ ہارون! تیری یہ جرأت کہ تو امیر کائنات کے فضائل کی حد بندی کرے۔ ہارون نے یہ سنا تو فوراً قبضہ تلوار پہ ہاتھ آیا اور اٹھ کر بولا کہ ابو تراب کو بجزاس کے کیا سمجھوں کہ وہ رسول اللہۖ کا ابن ِعم ہے اور تو اس کی اولاد ہے اور میں جس کا بیٹا ہوں وہ رسول کا چچا ہے اور چچا، چچا زاد سے بہر صورت افضل ہوتا ہے۔ میرے سامنے علی کے فضائل پڑھنے کی کوشش نہ کرنا ،میں برداشت نہیں کر سکتا۔ہارون کی یہ بات سن کر سیدناکاظم بے ساختہ مسکرائے اور فرمایا ہارون! اگر تم علی کے فضائل برداشت نہیں کر سکتے تو ؛ وَاللہ ِ الَّذی لا اِلٰہَ الّا ھُوَ اِذاً انتَ اشَرُّ مِنَ الکُلب،یعنی اگر واقعاً ایسا ہے اور تو علی کے فضائل برداشت نہیں کر سکتا تو موسیٰ کاظم یہ فتویٰ دیتا ہے کہ تو کتے سے بھی بدترین ہے۔
بادشاہ ِوقت کو کتے سے بدکہنا باز بچۂ اطفال نہ تھا اور نہ ہی بادشاہ کے لیے معمولی بات تھی۔ ہارون نے یہ سنا تو اس کے منہ سے کف نکلنے لگا اور غیظ و غضب کے عالم میں کہنے لگا کہ اپنے دعوے کو ثابت کر ورنہ تیرا خون مجھ پرحلال ہے۔یہ سن کر مولا موسیٰ کاظم مسکرائے اور فرمایا تیرے لشکر میں فلاں فلاں نام کے لوگ موجود ہیں جو کبیر السن ہیں یعنی ادھیڑ عمر کے ہیں سات لوگوں کے نام بتائے۔ اور فرمایا کہ انہیں بلاؤ۔ ہارون نے انہیں بلایا، جب آئے تو امام وقت نے حکم دیا کہ کعبہ کی طرف منہ کرو اور بیت اللہ کو حاضر وناظر جان کر کہو کہ اے فلاں! تم سے تمہارے باپ نے، اے فلاں! تم سے تمہارے چچا نے، اے فلاں! تم سے تمہارے ماموں نے اور اے فلاں! تم سے تمہارے بڑے بھائی نے ابوذرسے مروی یہ روایت نہیں کی کہ مسجد نبوی بھری پڑی تھی کہ ایک شخص آیا جس کا لباس پٹھا ہوا تھا اور پنڈلیوں سے خون بہہ رہا تھا۔ آکے کہنے لگا یا رسول اللہ! میں فلاں گلی سے گزر رہا تھا کہ فلاں یہودی کے کتے نے مجھ پر حملہ کیا اور میری پنڈی بھنبھوڑ ڈالی۔
رسول اللہ ۖ نے پوچھا کہ کیا وہ کتا باؤلا ہے تو حاضرین نے کہا کہ یا رسول اللہۖ ہم بھی اس گلی سے گزرتے ہیں۔ آج سے پہلے تک تو بھونکا تک نہیں۔ خاموش رہنے والا،خارش زدہ کتا ہے بات کیا ہوئی اسکا پتہ نہیں۔ابھی یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ ایک اورشخص آیا جس کی پنڈلیوں سے خون بہہ رہا تھا اور کپڑے پھٹے ہوئے تھے۔ آتے ہی بولا کہ یا رسول اللہ! فلاں یہودی کے کتے نے کاٹا ہے۔ کچھ دیر بعد تیسرا آیا ۔ پھر چوتھا آیا اور کافی تعداد اکٹھی ہو گئی کہ اس یہودی کے کتے نے ہمیں کاٹا ہے۔
جب سب لوگ اکٹھے ہو گئے تو رسول اللہۖ نے سب سے فرمایا کہ یہ ایک پاگل کتا ہے اور اس کی سزا موت ہے۔ یہودی کے گھر کی جانب چلے۔ آگے آگے رسول اللہۖ تھے اور پیچھے پیچھے مجمع۔ یہودی کے گھر پہنچے۔ دق الباب کیا تو یہودی نکلا، قدم چومے اور کہنے لگا یارسول اللہ! گو کلمہ نہیں پڑھتا مگر آپ کی شان سے تو واقف ہوں۔ غلام کو یاد کیا ہوتا میں وہیں آ جاتا۔ فرمایا تیرے کتے نے ان سب کو کاٹا ہے۔ یہ سن کر یہودی بولا میں ابھی اسے حاضر کرتا ہوں گیا اور کتے کے گلے میں رسی ڈال کر لانے لگا۔
کتا گھسٹ گھسٹ کر آ رہا تھا۔ جیسے ہی رسول اللہ پر نظر پڑی فوراً ٹھیک ہو گیا اور انسانی زبان میں بولا؛”یا رسول اللہ! بے شک آپ کائنات کی سانسوں کے مالک ہیں۔کئی دفعہ ماریں لیکن میرا جرم ؟ رسول ِخدا نے فرمایا کیا یہ جرم کافی نہیںکہ تو نے اتنے لوگوں کو زخمی کیا۔ ان کے کپڑے پھاڑے اور ہڈیاں چبا ڈالیں انہیں لہو لہان کر دیا اور کیا دلیل ہونی چاہیے۔ یہ سن کر وہ بولا،” یا رسول اللہ! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو تاج ِرسالت سے سرفراز کیا، ھٰؤ لآئِ الْقوَم اَلّذینَ ذکَر تَھُمْ مُنافِقُونَ، نواصِب یَرفضُون عَلیًّ وَ یبغِضبونَہُ و یسُبّوُنَہُ،یہ منافق و ناصبی ہیں، یہ گلی سے گزرتے جا رہے تھے اور سیدناعلی کریم پہ سب و شتم کر رہے تھے۔ میں کیسے برداشت کر تا اس لیے حملہ کر دیا۔ یا رسول اللہ! میں کتا ضرور ہوں مگر علی کی شکایت برداشت نہیں کرسکتا۔
یہ واقعہ سنا کرسیدنا امام موسیٰ کاظم نے ان لوگوں سے پوچھا کہ کیا تم نے یہ واقعہ سنا تھا تو کہنے لگے ،ہاں! ایسا ہوا تھا۔ کسی نے کہا مجھ سے میرے بابا نے کہا۔ کسی نے کہا مجھ سے میرے چچا نے کہا۔ کسی نے کہا مجھ سے میرے ماموں نے کہا۔ سب سے گواہی لے کر امام نے کہا سن لیا ہارون! وہ کتا تھا اور علی کی شکایت برداشت نہیں کر سکا اگر تیرے دل میں بغض ہے تو یقینا تو کتے سے بدترہے۔
مکہ میں یہ واقعہ ہوا اورہارون جب مدینہ منورہ پہنچا تو لوگوں کو سنانے کے لیے بلند آواز سے بولا، السلام عَلیک یا ابن عَمّ، چچا زاد! آپ کو میرا سلام ہو۔ ارادہ تھا کہ لوگ سمجھیں کہ یہ رسول اللہ کا رشتہ دار ہے جس سے میری شان میں اضافہ ہو گا۔ ابھی یہ کہہ ہی رہا تھا کہ فرزند ِرسول امام موسیٰ کاظم آگے بڑھے اور قبر مطہرپہ ہاتھ رکھ کے فرمایا؛
السَّلامُ علیک یا ابتا،باباجان!آپ کی بارگاہ میں سلام
تحریر: ڈاکٹر سید علی عباس شاہ ، دبئی