تحریر: رضوان اللہ پشاوری
نبی آخر الزمان ۖ نے آج سے چودہ سو سال قبل اللہ کے عطا کردہ علم کی روشنی میں آنے والے ایام کے بارے میں جو پیشنگوئیاں کیں تھیں وقتا فوقتا ان کا ظہور ہورہا ہے اور ہوتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ کے حکم سے قیامت برپا ہو جائیگی، موجودہ دور میں امتِ مسلمہ میں جو فتنے پیدا ہو رہے ہیں اور جو مستقبل قریب اور بعید میں جنم لیں گے ان کے متعلق آقائے نامدار ا نے اپنے اصحاب رضوان اللہ علیہم کو آگاہ فرما دیا تھا؛ آنے والے فتنوں کے بارے میں وارد بے شمار احادیث میں سے ایک حدیث کا مفہوم یہ بھی ہے کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ میری امت کے گروہ اللہ کے دشمنوں (یہود و نصاری) کی پیروی کرتے ہوئے ان کے مذہبی تہواروں اور انکے رسوم ورواج کو اپنا لیں گے۔
آج اگر ہم اپنے ارد گرد اور خصوصا مسلم معاشرے پر اک طائرانہ نظر ڈالیں توان بے شمار فتنوں کے واضح آثار اور اثرات ہمیں مسلم امہ کی صفوف میں نظر آئیں گے جنکی نشاندہی پیارے آقا نے اپنی احادیث مبارکہ میں کردی ہیں جس میں دورِ حاضر کا ایک تیزی سے پھیلنے والا فتنہ جسے ”ویلنٹاین ڈے”کے نام سے جانا جاتا ہے سرِفہرست ہے جس نے مسلمان نوجوان نسل کو اپنے شیطانی جال میں بری طرح جکڑ لیا ہے۔
آج سے چند سال پیشتر مسلم ممالک کے عوام الناس کو اس فتنے کے بارے میں کچھ علم نہ تھا ، حتی کہ بیشتر پسماندہ ممالک کے عیسائی بھی اس تہوار سے ناواقف تھے ۔مگر آج ایک مذموم سازش کے تحت باقاعدہ اس فتنے کو نہ صرف اجاگر کیا گیا بلکہ ایک منصوبہ بندی کے تحت اسے امتِ مسلمہ میں متعارف کروا کر مسلم مرد وخواتین کے اخلاق پر کاری ضرب لگائی گئی اور ہمارے مسلم نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس سازش کا شکار بنے۔
دشمنانِ اسلام کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ مسلمان جب تک قرآن اور سنت سے جڑے ہوئے ہیں ان کو شکست دینا ممکن نہیں ہے ۔ اس محاذ پر انہوں نے ہمیشہ منہ کی کھائی ہے اور کھاتے رہیں گے۔اس لیے کفار نے مسلمانوں کے ساتھ محاذآرائی کے طریقے میں تبدیلی پیدا کر لی ہے انہیں معلوم ہے کہ روایتی جنگ میں اسلحہ کا استعمال کرکے وہ ایک مسلم ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا سکتے ہیں مگران کا یہ عمل مسلم امہ کو مشتعل کرنے کے ساتھ ساتھ متحد بھی کرسکتا ہے جو کہ ان کے مذموم مقاصدکی تکمیل میں رکاوٹ بھی بن سکتا ہے اس لیے انہوں نے ایسا منصوبہ تیار کیا کہ بغیر لڑے بھڑے مسلمانوں کی بنیادیں کمزور کرکے ان پر برتری حاصل کی جاسکے۔
انہوں نے روایتی جنگ کی بجائے ثقافتی جنگ مسلمانوں پر مسلط کردی اور اسکے لیے کروڑوں اربوں ڈالرمختص کرکے جدید وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی مادر پدر آزاد ثقافت ، مذہبی تہواروں اور عبادات کو زیب وزینت کا لبادہ اوڑھا کر مسلم ممالک میں منتقل کر دیااور ذرائع ابلاغ، سٹلائٹ چینلز اور انٹرنیٹ کے زریعے مسلم معاشرے میں اپنی عریاں ثقافت کا طوفان کھڑا کردیا رہی سہی کسر ان مسلم ممالک کے ٹی وی چینلز نے اس طرح پوری کردی کہ ان اسلام دشمن ممالک کے پروگرام اپنے ممالک میں عام کرکے ہرناظر کی ان تک رسائی کو آسان کردیا۔ ویلنٹان ڈے کی مناسبت سے خصوصی پروگرام تیار کئے گئے ۔ تجارتی کمپنیوں نے اپنا منافع بڑھانے کی غرض سے ان چینلز پر اس مناسبت سے اشتہارات کی بھر مار کردی اور ویلنٹاین ڈے کو یوم محبت کے طور پرفروغ دیا۔نوجوانوں کویہ پیغام دیا گیا کہ یہ محبت کرنے والوں کے لیے ایک ایسا دن ہے جس میں وہ اس ہستی کو تحفے ، کارڈز اور گلاب کے پھول پیش کرکے اپنے محبت اور چاہت کا اظہار کر سکتے ہیں جس سے وہ محبت کرتے ہیں۔
دینِ اسلام ایثار، امن و آشتی، بھائی چارہ اور محبت و اخلاص کا سبق دیتا ہے مگر اسکے ساتھ ساتھ اس نے اخلاقی قواعد وضوابط بھی وضع کر دئے ہیں جنکی حدود میں رہتے ہوئے زندگی گزارنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ کفار کی مشابہت اختیار کرنے اور انکے رنگ میں اپنے آپ کو رنگنے سے روکا گیا ہے ۔غیر محرم مرد و عورت کے باہمی اختلاط اور آزادانہ میل ملاپ کی ممانعت کی گئی ہے کہ یہ بد ترین فتنے کو جنم دینے والا عمل ہے ۔مسلمانو ںکو اللہ نے دو مبارک تہواروں کی خوشی عطا کی ہے ایک عید الفطر اور دوسری عید الا ضحی اور ان تہواروں کی بابت بھی یہ حکم ہے کہ شرعی حدود میں رہتے ہوئے ،فسق وفجور سے اجتناب برتتے ہوئے اور اللہ کی رضا اور خوشنودی کے حصول کو مدنظر رکھتے ہوئے ان تہواروں کو صحیح اسلامی روح کے ساتھ منایا جائے۔
یہود و نصاری کے تہوار وں کی بنیاد شرک اور بدعات پر مبنی ہوتی ہے اس لیے مسلمانوں کو غیر مسلموں کی رسومات، تہوار اوران کی روایات اپنانے سے منع کیا گیا ہے ۔ ویلنٹاین ڈے کو محبت کا دن قرار دے کرنوجوان نسل کویہ غیر اخلاقی پیغام دیا گیا ہے کہ اس دن محبت بانٹو اور خوب بانٹواور محبت کی تقسیم کے اس عمل میں ہر رکاوٹ کو عبور کر جاؤ، پھر سال کے بقیہ دنوں میں چاہے ایک دوسرے کا خون پیتے رہو، ظلم و بربریت کی تمام حدوں کو پامال کرو، مگر اس ایک دن کو صرف محبت کے بٹوارے کے لیے مختص کردو۔جبکہ ہمارا پیارا دین مسلمانوں کو آپس میں شرعی قیود و حدود میں رہتے ہوئے سارا سال پیار و محبت، امن وآشتی اور مذہبی ہم آہنگی کے ساتھ رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔
جنسی بے راہ روی کا شکارمسلم لڑکے اور لڑکیاں، مرد و خواتین اس تہوار کو مناتے ہوئے اپنے اسلامی تشخص اورشناخت کو یکسر فراموش کردیتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ کلمہ گو مسلمان اور رسول اللہ ۖکے امتی ہیں اور بحیثیت مسلمان ان کے لیے یہ قطعا جائز نہیں ہے کہ وہ کفار کی آندھی تقلید میں انکی ایسی رسوم ورواج کواپنا لیں جس کی ہمارا دین اور شریعت کسی طور بھی اجازت نہیں دیتا۔
ویلنٹاین ڈے کی حقیقت اوراسکا تاریخی پس منظر کیا ہے اور کس طرح یہ طویل سفر طے کرتا ہوا مسلمانوں کے گھروں میں داخل ہوا اس کا اندازہ قارئین کو زیرِ نظر سطور کے مطالعے سے بخوبی ہوجائے گا۔ گزشتہ چند سالوں میں اس فتنے نے مسلم معاشرے میں جس انداز میں شبِ خون مارا ہے اس نے مسلم علمائے کرام کی ذمے داریوںکو بڑھا دیا ہے اور انہیں یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ کس طرح وہ کتاب و سنت کی روشنی میں اس کا سدباب کرتے ہوئے متاثرہ مسلمانوں کو خبردار کریں تاکہ دین کا صحیح تصور ان کے اذھان میں قائم ہو اوراللہ اور اسکے رسول ۖ کے دشمنوں کے اس پر فریب فتنے اور اسکی سحرکاریوں کے چنگل سے وہ خود کو آزاد کراکر اپنے آپ کو اسلامی شعار کا پابند اور ملتزم بنائیں۔
ویلنٹاین ڈے دنیا بھر میں ہر سال 14 فروری کو محبت کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ اس تہوار کے متعلق کئی روایات قدیم رومن تہذیب کے دور سے وابستہ ہیں جس میں یہ تہوار روحانی محبت کے اظہار کے لیے مختص تھا۔ اس ضمن میں بہت سی دیو مالائی کہانیاں اس سے منسوب ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ روم کا بانی رومولوس نے ایک بار بھیڑئے کی مادہ کا دودھ پیا تھا جس کے باعث اسے طاقت اور عقلمندی حاصل ہوئی تھی۔اہل روم اس واقعے کی یاد میں ہر سال وسط فروری میں جشن منایا کرتے تھے جس میں ایک کتے اور ایک بکری کی قربانی دی جاتی تھی جن کے خون سے دو طاقتور اور توانا نوجوان غسل کرتے تھے اور پھر اس خون کو دودھ سے غسل کرکے دھویا جاتا تھا۔اس کے بعد ایک عظیم الشان پریڈ کا آغاز ہوتا جس کی قیادت وہ نوجوان کیا کرتے تھا۔ ان کے ہاتھوں میں چمڑے کا ہنٹر ہوتا تھا جس سے وہ ہر اس شخص کو مارا کرتے تھے جو ان کا راستہ کاٹنے کی کوشش کرتا تھا۔ رومن خواتین اس ہنٹر کی ضرب کو اپنے لیے ایک اچھا شگون سمجھتی تھیں کیوںکہ ان کا یہ عقیدہ تھا کہ اس طرح وہ بانجھ پن سے محفوظ رہیں گی۔
مذکورہ بالا جشن کے دوران اہل روم ان لڑکیوں کے نام جو شادی کی عمر کو پہنچ جاتی تھیں پرچیوں پر لکھ کر ایک برتن میں ڈال کر وہ برتن ایک میز پر رکھ دیتے تھا اور پھر ان لڑکیوں سے شادی کے خواہشمند نوجوانوں کو دعوت عام دی جاتی تھی کہ وہ قرعہ نکالیں پھربذیعہ قرعہ ندازی جس نوجوان کے حصے میں جو لڑکی آتی تھی اسکی خدمت کے لیے وہ ایک سال تک اپنے آپ کو پیش کردیا کرتا تھا تاکہ وہ دونوں ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھ لیں، پھر یا تو سال بھر کے بعد وہ شادی کے بندھن میں بندھ جاتے تھے یا پھر اگلے جشن کے موقع پر دوبارہ قرعہ اندازی میں شریک ہوتے تھے ۔اس وقت کی مذہبی عیسائی قیادت نے اس رسم کی یہ کہتے ہوئے سخت مخالفت کی تھی کہ یہ رسم نوجوان مردوزن میں اخلاقی بگاڑ کا موجب بن ر ہی ہے۔
اس طرح یہ رسم اٹلی میں منسوخ کردی گئی جہاں یہ راسخ و رائج ہو چکی تھی۔ پھر اس بھولی بسری رسم کو اٹھارویں اور انیسویں صدی میں دوبارہ زندہ کیا گیا۔ اور کچھ مغربی ممالک میں کتاب ِمحبت کے نام سے عشقیہ نظموں پر مشتمل ایسی کتابیں شائع کی گئیں جن میں سے مختلف اشعار کا انتخاب کرکے ایک عاشق اپنی محبوبہ کو بھیج سکے ان کتب میں نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے لیے عشقیہ خطوط لکھنے کے طریقے اور ترغیبات بھی شامل ہوتی تھیں۔
ویلنٹاین ڈے کے تہوار کے وجود میں آنے کے حوالے سے یہ روایت بھی مشہور ہے کہ جب رومن اپنے قدیم مذہب کو چھوڑ کر عیسائیت اختیار کرنے لگے اور یہ مذہب تیزی سے پھیلنے لگا تو اس وقت کے رومن شہنشاہ کلاڈیوس دوئم نے تیسری صدی میں رومن نوجوانوں کی شادی پر پابندی عائد کردی کیونکہ شادی کے بندھن میں بندھنے کے بعد وہ جنگی مہمات میں شریک ہونے سے گریزاں ہونے لگے تھے ۔سینٹ ویلنٹائن نے اس شاہی فرمان کی مخالفت کرتے ہوئے نوجوان جوڑوں کی خفیہ شادیوں کا اہتمام کرنا شروع کر دیا۔ جب شہنشاہ کو اس بات کا پتہ چلا تو اس نے سینٹ کو پھانسی کی غرض سے گرفتار کرکے جیل بھیج دیاجیل میں اسے جیلر کی بیٹی سے محبت ہوگئی جو کہ خفیہ ہی رہی کیونکہ عیسائی قانون کے مطابق پادری ساری عمر شادی یا محبت نہیں کر سکتے۔
مگر چونکہ وہ ایک راسخ العقیدہ عیسائی اور معروف عیسائی مبلغ تھا اس لیے شاہ روم نے اسے یہ پیشکش کی کہ اگر وہ عیسائیت کو چھوڑ کر رومن دیوتاؤں کی عبادت کرے تونہ صرف اسے معاف کر دیا جائے گا بلکہ شہنشاہ اپنی بیٹی کی شادی بھی اس سے کر دے گا مگر سینٹ ویلنٹاین نے اس کی پیشکش ٹھکرا دی اور عیسائیت کو ترجیح دی جسکے باعث اسے 14 فروری 270 عیسوی کو پھانسی دے دی گئی۔ اس طرح یہ دن اس سینٹ کے نام سے منسوب کر دیا گیا۔
برطانیا میں ویلنٹاین ڈے سردیوں کے اختتام پر جنگلوں میں پرندوں کے ملاپ کی علامت کے طور پر منایا جاتا تھا اس موقع پر نوجوان ان لڑکیوں کی کھڑکیوں کی چوکھٹ پر پھولوں کے گلدستے رکھتے تھے جن سے وہ محبت کرتے تھے پھر ان کے پوپ نے اس دن کو سینٹ ویلنٹاین کی قربانی سے منسوب کرتے ہوئے 14 فروری کو محبت کے تہوار کا نام دیاجو کہ خالصتاً عیسائیوں کا ایک مذہبی تہوار ہے جس کے تانے بانے قدیم رومن کی غیر اسلامی تہذیب سے جڑے ہوئے ہیں اور جسے آج مسلمان بڑے فخر و انبساط کے ساتھ مناتے ہیںاور عیسائیوں کی پیروی کرتے ہوئے غیر محرم لڑکے او ر لڑکیاں ایک دوسرے کوتحفے میں گلاب کے پھول اور کارڈغیرہ دیتے ہیں۔ اس موقعے کی مناسبت سے ہمارے ٹیوی چینلز خصوصی پروگرام تیار کرتے ہیں اور مسلمان ناظرین عیسائیوں کی طرح بڑی رغبت سے ان پروگرامز کو دیکھتے ہیں اورذہن و قلب کے کسی گوشے میں یہ احساس تک پیدا نہیں ہوتا کہ کیا کفار کا یہ مذہبی تہوار ہماری تہذیب،ہماری ثقافت اور ہمارے دین اسلام کی تعلیمات اور مذہبی شعائر سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں۔
آج ہماری بدقسمتی سے یہ تہوار کم وبیش ہر اسلامی ملک میں اپنی جڑیں مضبوط کر چکا ہے اور مسلم امت کی نوجوان نسل الا ماشاء اللہ نے کھلے دل وذہن سے نہ صرف اسے قبول کرلیا ہے بلکہ وہ یہود ونصاری سے زیادہ گرم جوشی اور رواداری کے ساتھ اسے منانے کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں ۔ کئی مسلم ممالک میں ویلنٹاین ڈے پرفلاور شاپس پر گلاب کے پھول یا توناپید ہوجاتے ہیں یا ان کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیںاور لوگ زیادہ قیمتیں ادا کرکے بھی گلاب کے پھول خرید کر اپنے ویلنٹاین کے تحفہ دیتے ہیں۔فائیو سٹار ہوٹل اور بڑے ریسٹورنٹس اس موقع پر خصوصی پروگراموں اور خصوصی ڈشوں کا اہتمام کرتے ہیں اور ویلنٹاین جوڑوں کا انتحاب کرکے انہیں قیمتی انعامات سے نوازا جاتا ہے۔
مسلم معاشرے میں اس غیراسلامی تہوار کی پذیرائی اور قبولیت کی ذمہ داری جہاںسٹلائیٹ چینلز، انٹرنیٹ اور ان مسلم ممالک کے میڈیاپر عائد ہوتی ہے وہاں والدین اور اساتذہ بھی اس شر کے فروغ میں برابر کے ذمے دار ہیں ۔ اگر والدین اپنی اولاد کی صحیح اسلامی خطوط پر تربیت کریں اور انہیں دشمنانِ اسلام کے ان حملوں سے آگاہ کرتے رہیں اور اسی طرح اساتذہ بھی اپنے شاگردوں میں دینی تشحص بیدار کریں اور ان میں دین کا صحیح شعور پیدا کریں توپھر یہ ممکن ہی نہیں رہے گا کہ اسلام کے دشمن ان چور دروازوں سے مسلمانوں کی صفوں میں شبِ خون مار سکیں ۔ اسی طرح ائمہ کرام اور علمائے دین کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ عصرِ حاضر کے تمام فتنوں اور خصوصاً ایسے فتن جو مسلمانوں کے اخلاق،ان کی دینی حمیت اور انکے عقائد کی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث ہوں ان کی انہیں نہ صرف پوری شد ت کے ساتھ مخالفت کرنی چاہئے بلکہ مسلم امہ میں ان خطرات کے خلاف بیداری کی بھر پور مہم کا آغاز کرنا چاہیے اور اس کام کے لیے تمام دستیاب وسائل سے بھرپور استفادہ کرنا چاہیے۔
آخر میں مسلم نوجوانوں، بھائیوں اور بہنوں، ماؤں اور بیٹیوں سے التجا ہے کہ خداراکفار کی پیروی کرکے اپنے آپ کو تباہی کے گڑہوں میں مت دھکیلو۔ ان کو خوش کرکے اللہ کے غضب کو آواز مت دوکیوں کہ جو اللہ کے دشمنوں کو خوش کرتا ہے وہ اللہ کو ناراض کرتا ہے اور اللہ کی ناراضگی درحقیقت اخروی بربادی ہے ۔ وقتی خوشی کی خاطر دائمی رنج و الم سمیٹنا یقینا شدید خسارے کا سودا ہوگا۔ اگر محبت ہی کرنی ہے تو خود کو اللہ اور اس کے رسول ا کی محبت میں فنا کرلو ،محبت کا حقیقی مفہوم پالوگے ، محبت کی معراج حاصل ہوجائے گی، شیطان کے ناپاک چنگل سے نکل جاؤ گے اور اللہ تمہیں دنیا اور آخرت کی حقیقی اور دائمی خوشیوں سے سرفراز فرمائے گے۔
غافلو!جان لو کہ جوانی اللہ رب العزت کی ایک بے بہا نعمت ہے اسے ضائع نہ کرو۔
اس کی صبح ،اسکی شام اور اس کی شب اللہ کی یاد، اسکے ذکر اور اسکے محبوب حضرت محمد مصطفے ا کی سنت کی اتباع میںبسر کرو۔اس جوانی اور وقت کی قدر کرو کہ یہ دونوں چیزیں ایک بار رخصت ہوکر دوبارہ لوٹ کر نہیں آتیں۔اپنے دن کو اللہ اور رسول ا کی اطاعت و فرمانبرداری میں بسر کر واور دعائے نیم شبی کا خود کو عادی بناڈالو۔اپنی آنکھوں کی اس طرح حفاظت کرو کہ وہ کسی نامحرم کے شوقِ دید سے آلودہ نہ ہوں نہ ہی عریانی اور فحاشی کو اپنے اندر سمو سکیں۔اپنے کانوں کواس طرح آلودگی سے بچاؤ کہ وہ کسی کی غیبت نہ سنیں اور نہ کوئی فحش بات اور کلام ان تک پہونچے۔
اپنی زبان کی اس طرح حفاظت کرو کہ نہ کسی کی غیبت کی مرتکب ہو نہ اس سے کسی کی دل آزاری ہو اور نہ ہی دشنام طرازی کاذریعہ بنے ۔تمہارے ہاتھ تمہارے پاؤں غرض ایک ایک عضو اللہ کی مرضی کا تابع بن جائے ۔ سب سے بڑھ کر تمہارا دل جو تمام آرزوؤں ،تمناؤں اور خواہشات کا منبع اور مرکز ہے وہ اللہ کا مطیع اور فرماں بردار بن جائے تو پھر تمہیں خود کو خوش کرنے کے لیے کسی ویلنٹاین ڈے کی ضرورت محسوس نہ ہوگی کہ اللہ اور اسکے پیارے رسول ا کی سچی محبت کا راز پالینے کے بعد کسی اور کی محبت کی ضرورت او ر گنجائش باقی نہیں رہتی۔
اللہ کے حضور دعا ہے کہ مجھے اور آپ سب کو دین کا صحیح شعور عطا فرمائے اور شیطان کی راہ پر چلنے اور اسکا آلہ کار بننے سے محفوظ رکھے اور یہود ونصاری کی پیروی کرنے ، ان کی روش اور ان کی رسم ورواج اپنانے سے محفوظ و مامون رکھے ۔ آمین ثم آمین۔
تحریر: رضوان اللہ پشاوری
03135920580
rizwan.peshawarii@gmail.com