counter easy hit

نصف ایمان سے تہی دست معاشرہ!

Cleanliness

Cleanliness

تحریر: اختر سردار چودھری ،کسووال
وہ جو بیرون ملک گئے ہیں واپسی پر سب ایک بات لازمی لکھتے ہیں یا کہتے ہیں کہ ”کافروں” کے ملک میں صفائی کا اعلی انتظام، انہوں نے صفائی کو اپنے ایمان کا حصہ بنا لیا ہے ۔دنیا کے ہر ترقی یافتہ ملک میں صفائی وہاں کے لوگوں کی سرشت میں داخل ہوچکی ہے، وہاں آپ کو سڑکوں پر کاغذ کا ایک ٹکڑا نظر نہیں آئے گا۔ حتی کہ وہاں کوئی سڑکوں پر تھوکتا نہیں۔ کتنی حیرت کی بات ہے، وہاں کوئی سڑکوں پر تھوکتا تک نہیں ۔اور ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ۔ تھوکنا تو دور کی بات ہے جانوروں کی طرح سڑک کنارے، پبلک مقامات پر ،بس اسٹینڈز ،پارکس میں ،مسجد ،سکول ،درسگاہ ،سرکاری و غیر سرکاری عمارات کی دیواروں کے ساتھ گندگی پھیلاتے ہیں، ان دیواروں کو لیٹرین سمجھتے ہیں ۔بس اڈوں کی حالت دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

ڈرائیوراور کنڈیکٹر حضرات کے علاوہ سواریوں نے بھی ٹرمینلز اور جہاں بسیں کھڑی ہوتی ہیں، اس جگہ کو ہی واش روم یا غسل خانہ بنا رکھا ہے جس کی وجہ سے تعفن پیداہو جاتا ہے اور سانس لینا دشوار ہوجاتا ہے ۔ہمارے ان اعمال کی وجہ سے ہمارے ملک کی پبلک ٹرانسپورٹ بدبو کی سرانڈ سے بھری ہوئی ہے ۔ کہتے ہیں کسی بھی قوم کی ذہنی حالت دیکھنی ہو اس کا نظم و ضبط دیکھنا ہو ،تو اس ملک یا قوم کی ٹرانسپورٹ کا نظام دیکھیں لیں ۔اس لحاظ سے ہم ایک بدقسمت قوم ہیں، آپ سکول و کالج ،مسجد و مدرسہ ،اور عام پبلک مقامات پر بنے ہوئے غسل خانوں کو دیکھیں ۔بس اڈوں پر موجود ٹائلٹ کے اندر جھانک کر دیکھ لیجئے ۔ وہاں کی گندگی ،تعفن ،بدبو سے دماغ پھٹ جائے گا ۔پھر انکی دیواروں پر جو گندی زبان لکھی گئی ہوتی ہے۔اتنی گندگی وہاں نہیں ہوتی۔

علاوہ ازیں بس و ویگن کے اڈوں میں ہر چیز ”دونمبر” ملتی ہے۔ کھانے پینے کی تمام اشیاء غیر معیاری اور مہنگے داموں فروخت ہوتی ہیں۔ پانی، مشروبات،، بسکٹ، چائے سب دو نمبر ہیں۔ پانی کے معروف برانڈ کی بجائے غیر معروف برانڈ کی پانی کی بوتلیں جو ”خانہ ساز فیکٹریاں” بھرتی ہیں معمول سے ڈیڑھ اور دو گناہ قیمت پر فروخت ہوتی ہیں، یہ ہی حال ہر قسم کے مشروب کا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ پبلک بس اسٹینڈ ز پر آپ کو نماز پڑھنے کی جگہ نظر نہیں آئے گی۔جن چند اسٹیشن پر ایسا انتظام ہے، ان مساجد یانماز کے لیے چھوڑی ہوئی جگہ کے قریب بھی کوڑے اور گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے نظر آئیں گے۔

شہر اور اہم سڑکوں کے کنارے ہمیں گندگی کے ڈھیر نظر آتے ہیں ، سڑکوں، بازاروں اور بعض رکشہ، ٹیکسی، بس اڈوں پر کچروں کے یہ ڈھیر ہم سب کیلئے مختلف بیماریوں کا سبب بنتے ہیں، جن سے نئی نئی بیماریاں جنم لے رہی ہے اور انسانی بقاء کیلئے خطرے کا سبب بن رہی ہیں ۔ ہمارے شہر غلاظت کا ڈھیر دکھائی دیتے ہیں۔ ٹی ایم اے کی غفلت اور نااہلی سے پبلک ٹرانسپورٹ کے بس اسٹینڈز وغیرہ گندگی ،تعفن ،بدبو کے اڈے بن چکے ہیں ۔جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر صفائی کے انتظامات انتہائی غیر تسلی بخش ہیں۔اڈے پر نشئی آ کر بیٹھے رہتے ہیں ۔ جو ہر طرف گندے ، غلیظ کپڑوں میں ملبوس چرس ،ہیروئین اور دیگر نشہ پیتے نظر آتے ہیں۔ جبکہ بھکاری مسافروں سے زیادہ ہوتے ہیں۔

ہم ”صفائی نصف ایمان” کا زبان سے اقرار کرتے ہیں۔ لیکن عملی طور اس سے کوسوں دور ہیں ۔یہ بات بے شک بری لگے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پورے ملک میں صفائی کی حالت دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ پورے کا پورا معاشرہ مجموعی طور پر نصف ایمان سے تہی دست نظر آتا ہے۔ اس کا حل کیا ہے ؟کیا ہونا چائیے کہ ہمارے معاشرے میں صفائی کا شعور پیدا ہو جائے ۔اس کے لیے بہت سے اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں۔

ہمارے مذہبی رہنما ،سیاسی لیڈر ،اساتذہ ،حکومت اور عوام اپنی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں ۔اس کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے ۔مثلاََ َاگر ملک کا وزیر اعظم ، وزرائے اعلی،مشیرز،مذہبی رہنما ،سیاسی لیڈر ز وغیرہ خود مثال بنیں وہ کم ازکم لاہور ،فیصل آباد ،کراچی کے بس اسٹینڈز کا وزٹ کریں ۔گلیوں سے کاغذ، شاپنگ بیگ اٹھاتے ہوئے ،صفائی کرتے دکھائی دیں۔تو سارا معاشرہ اس کام میں لگ جائے گا ۔ اگر حکمران کوئی مثال قائم کریں گے ، اقدام اٹھائیں گے تو عوام بھی ان کے نقش قدم پر چل پڑے گی۔

تمام اضلاع کے آر ٹی ایز کو حکم دیا جائے کہ بس ا سٹینڈ پرجہاں گندگی کے ڈھیر اور گندا پانی کھڑا نظر آئے، اس ڈی کلاس سٹینڈ کو فوری طور پر سیل کر دیا جائے میونسپلٹی کو فی الفور فعال بنایا جائے۔ لوگ گلی محلے کی سطح پر کمیٹیاں بنالیں۔ یہ کام سکول و کالج کے پرنسپل اور مسجد و مدرسہ کے امام بھی کر سکتے ہیں۔ ہم میں سے ہر کوئی اپنے اپنے علاقے میں صفائی کا خاص خیال رکھیں۔

Akhtar Sardar Ch

Akhtar Sardar Ch

تحریر: اختر سردار چودھری ،کسووال