ہم نے اس سال عالمی یومِ آب پرعلم کا دریا چھلکایا تھا۔ ہمارا خیال تھا کہ ایک دنیا فیض یاب ہوگی لیکن کسی نے چلو بھر پانی پینا گوارا نہیں کیا۔ اب سورج سوا نیزے پر آ چکا ہے۔ ہر طرف سے العتش العتش کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔ ہم نے سوچا کہ پھر ڈول ڈالنا چاہئیے۔ شاید اس مرتبہ امید بھر آئے۔
پانی کا ذکر اس لیے بھی ضروری ہے کہ زمین پر اسی کا راج ہے۔ جہاں یہ جھرنوں، چشموں، آبشاروں، جھیلوں، ندیوں، نہروں، دریاؤں اور سمندروں کی صورت خشکی پر حکومت کر رہا ہے۔ جلوہ آرائی کے لیے لطافت کے ساتھ کثافت بھی ضروری ہے۔ اس لیے جوہڑوں، چھپروں، نالوں اور بدروؤں کا جال بچھا ہوا ہے۔
جس کا راج ہو اسی کے گن گائے جاتے ہیں۔ اس لیے پہلے جگہوں اور شہروں کے نام پانی پر رکھے جاتے تھے۔ پنجاب، سرگودھا، ٹوبہ ٹیک سنگھ، پاک پتن، تربیلا، مانسر وغیرہ۔ اس فہرست میں پانی پَت اس لیے شامل نہیں کیا کہ اس کی وجہء تسمیہ کا ڈول خون سے بھرا ہوا ہے۔
پانی جاپانی نہیں سنسکرت لفظ ہے۔ جاپانی اسے میزو، چینی چوآئی، ترکی سُو اور یونانی نَیرو کہتے ہیں۔ سنسکرت کی ساری بیٹیاں اردو، ہندی، بنگالی، برمی پانی پیتی اور پلاتی ہیں۔ پہاڑیے پانڑی اور سندھو دھارے کے میٹھے مانڑو کھارے پانڑیں پیتے ہیں۔ پانی کو آپ آب، ماء، واٹر، اوبو کچھ بھی کہیں ہر نام میں آپ کو اختصار اور پیار ملے گا۔
ہمارا خیال تھا کہ بوتل بند کمپنیاں اکوافینا، نسلے، کنلے، اسپرنگلے جیسے نام رکھتی ہیں۔ ایک دن جو بوتل بند برانڈز کی فہرست پر نظر پڑی تو روح تک پھیل گئی تاثیر مسیحائی کی۔ وادی، شبنم، چشمہ، جھرنا، آبشار، جھیل، ندی سے لے کر شفاف ناموں کا یہ سلسلہ زم زم، کوثر، تسنیم، سلسبیل، سلوی اور وانیا ایسے مقدس نامون تک پھیلا ہوا ہے۔
پانی ازل سے مقدس ہے۔ زم زم، عیون عین، گنگاجل اور امرت جل اس کی بڑی مثالیں ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار ٹھنڈے اور تتّے پانیوں کی پارسائی کا دعویٰ اور شہرہ ہے۔
پانی کا بے رنگ اور بے ذائقہ ہونا کتابی باتیں ہیں۔ گھاٹ گھاٹ کا پانی پیتے ہوئے ہم نے دیکھا کہ پانی شفاف اور گدلا؛ نیلا اور سبز؛ آسمانی اور مٹیالا؛ میٹھا اور کھاری؛ ٹھنڈا اور گرم؛ ہلکا اور بھاری؛ پاک اور ناپاک ہر طرح کا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی پانی کے بہت سے جوڑ ہیں۔ کبھی بدنام زمانہ کالے پانی کا چرچا تھا آج بلیک واٹر کا شہرہ ہے۔
پانی بہروپیا ہے۔ جمتا، پگھلتا اور اڑتا پھرتا ہے۔ برف، بخارات، بارش، آبشار، جھرنا، چشمہ، حوض، تال (تالاب)، جھیل، ندی، دریا، سمندر۔۔۔ کیا کیا جلوے دکھاتا ہے۔
پانی سیلانی ہے۔ ہمالیہ کی چوٹیاں، وادیاں، میدان، صحرا اور سمندر اس کی زد میں ہیں۔ سفر بائی لینڈ ہو یا بائی ائیر کسی ٹکٹ، ویزے اور پاسپورٹ سے بے نیاز ہے۔ کبھی کبھار چکر جیکب آباد، سبی، خضدار اور تھر کا بھی لگا لیتا ہے لیکن کشمیر، سکردو، چترال، سوات کو زیادہ پسند کرتا ہے۔
پانی تہذیبوں کو جنم دیتا ہے۔ اسی لیے معروف تر تہذیبیں نیل، دجلہ، سندھ اور سواں وغیرہ کے دھانے پروان چڑھیں۔ انہی پانیوں نے ان تہذیبوں کا مٹایا۔ اس لیے اب احتیاطاً نئی تہذیبیں لیاریوں اور لئیوں کے دھانے پروان چڑھ رہی ہیں۔
پانی گھر کو جنت بنا دیتا ہے۔ اب گھروں میں قدموں کے نیچے نہریں تو بحریہ مالکان ہی بہا سکتے ہیں۔ لیکن گرتی آبشاریں اور اچھلتے فوارے بھی کسی جنت سے کم خوبصورت نہیں ہیں۔ صحن میں درختوں، پتھروں اور پودوں کے ساتھ پانی اور روشنی کا اہتمام گھر کو ارم بنا دیتا ہے۔
پانی ہر جاندار کے لیے ضروری ہے لیکن پانی کے محکمے کے لیے ناگزیر ہے۔ اس کا مستعد عملہ نکاسی و فراہمی آب کے منصوبوں کی فائلوں کی حفاظت کے لیے پتہ پانی کر دیتا ہے۔ اس سے پانی میں پوشیدہ خواص کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جل تھل ایک اس وقت ہوتا ہے جب آسمان ٹوٹ کر برستا ہے۔ سڑکیں نہریں بن جاتی ہیں۔ نئے ٹینڈر کھلتے ہیں، حقہ پانی چلتا اور مال پانی بنتا ہے۔ کوئی دم نہیں مارتا۔
جہاں مقدس پانی ہو وہاں خضر اور الیاس نما کیوں نہیں ہوں گے؟ چناچہ گلی گلی پانی ضرور دم ہر رہا ہے اور اس کے چھینٹے مارے جا رہے ہیں۔ پھونکوں سے جراثیم زدہ پانی آب شفا بن جاتا ہے۔ صدیوں کا مریض ذہن اٹھ بیٹھتا ہے اور بے سدھ جسم دندناتا پھرتا ہے۔
کبھی جو پانی پینے پلانے پر جھگڑتے تھے اب وہ مزے سے آب خوروں میں پانی پیتے اور بحرِ مردار میں گھوڑے دوڑاتے پھر رہے ہیں۔ پانی دینا تو درکنار آگ پر ڈالنے کو پانی نہیں ملتا۔ لوگ پانی پانی ہونے کے بجائے پانی پانی کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
دوستو! رمضان کا مہینہ ہے۔ اس لیے ہم نے آبِ تلخ کا ذکر نہیں کیا۔ افطار کا لطف دوبالا کرنے کے لیے آبِ سادہ میں جو نیمبو، نمک اور سکرین کی آمیزش کی ہے آپ کو کیسی لگی؟؟