کینیڈا (انجم بلوچستانی) تحریر و ترتیب : ڈاکٹر سید تقی عابدی، کینیڈا ٹورنٹو بیورو کے مطابق وہاں عرصہ سے مقیم ادیب، شاعر، محقق، کئی ادبی تنظیمات کے اعزازی سربراہ، ماہر قلب ڈاکٹر سید تقی عابدی نے حالی کے سرسید پر مرثیہ کاتجزیہ کیا ہے،جواپنا انٹرنیشنل قارئین کیلئے پیش کر رہا ہے:
سچ ہے ع: دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔ یہ مرثیہ حالی کے فن اور ان کا سر سید سے خلوص کا شاہکار ہے۔ حالی نے سر سید کے مرثیہ کو فارسی میں ترکیب بند کے سات بندوں میں تخلیق کیا جس کے ہر بند میں دس شعر ہیں یہ مرثیہ ایرانی شاعر محتشم کاشی کے مرثیے کی بحر میں ہے۔ یہ فارسی کا مرثیہ مئی ١٨٩٨ء میں مطبع مجتبائی دہلی سے شائع ہوا۔ مرثیہ کے پہلے حصّے میں سر سید کے انتقال سے جو رنج و غم کی لہر بر صغیر میں پھیلی اور ان کی کمی سے جو شدید نقصان قوم کو ہوا اس کو بڑے ہی خوبصورت اور پر تاثیر انداز میں بیان کیا ہے جو ان کی قلبی واردات اور فن پر مہارت کی دستاویز بھی ہے۔
اے عجب کز مُردنِ یک پیر مردِ سال خورد
تاب و تب در کودک و پیر و جواں انداختند
اے عجب کز سوزِ اندوہِ وفاتِ مسلمے
مردمِ ہر کیش را آتش بجاں انداختند
سید اندر قوم نقدے بد اندر کیسۂ ای
کیسہ خالی ماندہ و نقد از میاں انداختند
قوم را سرمایۂ مجد و علا از دست رفت
بعد ازاں کایں گنج را در خاکداں انداختند
یعنی تعجب ہے کہ ایک بڈھے کے مرنے سے اضطراب اور بے چینی بچوں جوانوں اور بزرگوں میں پھیل گئی ہے۔ عجیب بات ہے کہ ایک مسلمان کی موت نے ہر قوم و ملت کے لوگوں کے دلوں کو جلا دیا ہے۔ سر سید قوم کی تھیلی کی نقدی تھے چنان چہ نقدی گر گئی اور اب تھیلی خالی ہے۔
قوم کی تعمیر اور عظمت کی دولت ہاتھ سے نکل گئی اور بعد میں اُسے خاک میں دفن کر دیا گیا۔ سر سید نے تمام عمر ملت اور دین کی حفاظت کی یہی ان کا حج تھا یہی روزہ اور یہی ان کی نمازوہی قوم کا سید اور سردار ہے جو قوم کا خدمت گزار ہے یقینا سر سید کی سیادت اس کی گواہی بھی دے رہی ہے۔
در مصافِ دہر بودن دین و ملّت را سپر
حج او ایں بود اینیش صوم و ایں بودش صلواة
سیدالقوم ست ہر کس قوم را خدمت کند
قدمت او بر سیادت بس بود او را گواہ
حالی مرثیے کے تیسرے بند میں انسان بننے کی اہمیت کو بہت خوب صورت تمثیلوں اور تلمیحوں سے مضمون باندھ کر ظاہر کرتے ہیں۔ حالی کہتے ہیں کوئی فضل و علم میں نابغۂ روز ہو سکتا ہے کوئی فصاحت میں مثل سحبان یا عقل وحکمت میں لقمان جیسا بن سکتا ہے، دولت میں قارون کو پیچھے کرسکتا ہے سلطنت اور ثروت میں خسرو اور پرویز بن سکتا ہے کہیں بہادری میں رستم تو کبھی قطب اور غوث سب کچھ ہوسکتا ہے مگر انسان ہونا دوسری چیز ہے۔
انسان وہ ہے جو ہمسائے کے رنج و درد سے بے تاب رہتا ہے وہ جنت کی ہوا میں بھی محروموں کی زندگی سے افسردہ رہتا ہے وہ دوسروں کے مقابل خود کو خوار و ذلیل محسوس کرتا ہے اس کا دل دکھ سے بھرا رہتا ہے اگر چہ شبستان ہی میں کیوں نہ ہو کیونکہ وہ محنت کشوں کی زحمتوں کا احساس رکھتا ہے۔
می تواں در فصل و دانش شھرۂ دوراں شدن
در فصاحت ہمچوں سحبان، در خرد لقماں شدن
می تواں در جاہ و ثروت گوے از قاروں ببرد
می تواں در زہد و طاعت غیرتِ صنعاں شدن
می تواں در ملک و دولت خسروِ پرویز گشت
می تواں در زور و طاقت رستمِ دستاں شدن
میں تواں قطب زماں شد، می تواں شد غوثِ وقت
ہر چہ خواہی می توانی شد بجز انساں شدن
چیست انسانی؟ تپیدن از تپ ہمسایگاں
از سمومِ نجد در باغِ عدن پژماں شدن
خوار دیدن خویش را از خواریِ ابناے جنس
در شبستاں تنگ دل از محنت زنداں شدن
پھر اس مضمون کو خوب صورت گریز سے دو آتشہ بنا دیتے ہیں قوم کی فکر میں زندگی گزارنا اور قوم ہی کے زندان میں گھٹ کر مرجانا اگر کوئی کرسکتا ہے تو وہ سر سید احمد خان بن سکتا ہے۔
زیستن در فکر و مردن اندر بند قوم
گر توانی می توانی سید احمد خاں شدن
حالی نے مرثیے کے چوتھے بند میں بتایا کہ سر سید کے راستے ہیں ہر قسم کی رکاوٹیں ڈالی گئیں۔ سر سید کو ہر طرح سے بُرا کہا گیا۔ سر سید پر کفر کا فتویٰ لگایا گیا یعنی ایک پورا محاز سر سید کے خلاف کھڑا کیا گیا لیکن سر سید کے پاے استقلال میں جنبش نہ ہوئی وہ شیر مردوں کی طرح اپنی داخلی روشنی اور حرارت سے کام کرتا رہا وہ محفل کو روشن رکھنے کے لئے شمع کی طرح خود پگھلتا رہا لیکن اپنے گھوڑے کی مہار آخری وقت تک منزل مقصود کے پہنچنے تک تھاما رہا اگرچہ راستہ کانٹوں بھرا تھا حیف کہ نادانوں میں جو دانا تھا چلا گیا جو بنجر زمین میں میوہ دار درخت تھا اکھڑ گیا۔
بود در امت بہ بدعت متھم از راستی
ارے ایں باشد دریں عالم سزاے راستاں
یار جز علمش نہ بود و علم دانی نا درست
ایں چنیں بے کس سزد کز جہل پر دازد جہاں
بود یاراں را سپر تا بود در ہر شور و شر
لیک یاراں بر سرش تیغ جفا می آختند
خواجہ در فکرِ صلاحِ دین و ملت در گزشت
لیک اہلِ دین و ملت قدرِ اُو نشناختند
کار کارِ شیر مردان است کز سوزِ دروں
بزم را افروختند و شمع ساں بگداختند
سید از رہ تا دمِ آخر عناں را بر نتافت
گرچہ در راہش بسے خار و خسک انداختند
حیف کاندر جمعِ مستاں ہوشیارے بود، رفت
در زمینِ شور نخلے بار دارے بود، رفت
اے علی گڑھ ذرا تو ہی بتا کس نے تجھے شہروں میں شہرت یافتہ کیا کس نے تیری خاک کو آسمان پر پہنچادی۔
اے علی گڑھ آں کہ کردت شہرت در امصار ، کو؟
آں کہ از خاکت بہ گردوں بردآں معمار کو؟
حالی مصلح بھی ہیں مجدد بھی ہیں۔ وہ سب سے زیادہ قوم کی فکر میں ہیں انھیں معلوم ہے کہ ہمارے قدم رکنے نہ پائیں یہ تعلیمی تربیتی ادارے اِسی طرح سے ترقی کے راستے پر گامزن رہیں۔ وہ مرثیہ کے آخری بند میں اپنا فریضہ ادا کرتے ہیںجس کے لیے یہ سارا مرثیہ کہا گیا۔ وہ ملّت سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں سر سید نے دار العلوم تمہارے لئے بنایا ہے تاکہ نسل در نسل دولت علم سے مالا مال رہے انھوں نے پہاڑ کاٹ کر جوئے شیر نکالی ہے جو پانی نالے میں بہہ چکا تھا اُسے واپس لوٹا دیا ہے مجھے خوف یہ ہے کہ مخالفت کے زور سے یہ چشمہ کا پانی استعمال کے قابل نہ رہے ہاں یہی اور صرف یہی وقت ہے کہ ہم سب باہم متفق ہو جائیں۔عزم و استقلال کے ساتھ کھڑے ہوں ہاتھوں میں ہاتھ ہو اور ہماری کمریں کام کرنے کے لیے کسی ہوئی ہوں۔
خواجہ دار العلمے از بہرِ شما بگزاشت است
تا بود نسلِ شما از علم و دولت بہرہ ور
کوہ باکندہ است تا ایں جوے شیر آور دہ است
بو کہ آبِ رفتہ در جوے شما آید ز سر
ترسم ایں سر چشمہ گردد تیرہ از سنگِ خَاف
ہان و ہاں وقت است، وقتِ اتفاقِ ہم دگر
عزمِ جزم آرید و بر خیزید و ہم دستاں شوید
دست بکشائید و بر بندید دامن بر کمر
جہاں تک زبان و بیان سوزو تاثیر زور و جذبات کا تعلق ہے یہ فارسی کا مرثیہ حالی کی فارسی تصانیف کا گل سر سبد ہے۔ یہاں تشبیہات کی ندرت استعارات کی لطافت ترکیبوں کی بلاغت اور لفظوں کی فصاحت حالی کی فارسی شاعری کا سکہ منوارہی ہے۔