لاہور (ویب ڈیسک) یہ تاریخ کا کمال ہے کہ بار بار ہمارے سامنے آکھڑی ہوتی ہے اور اپنے آپ کو دہرانا شروع کر دیتی ہے۔ ہمارا کمال یہ ہے کہ ہم اس تاریخ سے سبق سیکھنے کے لئے تیار نہیں۔17اکتوبر کی صبح نیب کے قیدی شہباز شریف کو بندوقوں کے سائے میں قومی اسمبلی لایا گیا تو
نامور کالم نگار حامد میر روزنامہ جنگ میں اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔تاریخ ایک دفعہ پھر ہمارے سامنے آ کھڑی ہوئی اور بتانے لگی کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے پہلی دفعہ کسی گرفتار رکن اسمبلی کے پروڈکشن آرڈرز جاری نہیں کئے بلکہ پہلے بھی کئی دفعہ یہ پروڈکشن آرڈرز جاری ہوئے۔ متعدد اراکین اسمبلی بندوقوں کے سائے میں یہاں لائے گئے اور کچھ عرصے کے بعد بڑے بڑے حکومتی عہدوں پر براجمان ہو گئے۔ جو اسپیکر پروڈکشن آرڈر جاری کرتا ہے اُس کی سیاسی پرواز بھی بلند ہو جاتی ہے اور جس رکن اسمبلی کا پروڈکشن آرڈر جاری کیا جاتا ہے اس کا سیاسی قد بھی بلند ہو جاتا ہے لیکن حکومتوں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی اور حکومت میں آنے والے حضرات سیاسی مخالفین کو جیلوں میں پھینکنے سے باز نہیں آتے۔ جس حکومت کے دور میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو نیب نے گرفتار کیا ہے اس حکومت کے وزیر ریلوے شیخ رشید احمد صاحب کو پیپلز پارٹی کے دوسرے دور حکومت میں ناجائز اسلحے کے ایک جھوٹے مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ شیخ صاحب کو گرفتار کرانے اور عدالت سے سزا دلوانے کے تمام انتظامات موجودہ وزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین کے تایا جناب چوہدری الطاف حسین نے کئے جو اُس وقت گورنر پنجاب ہوا کرتے تھے۔
چوہدری الطاف حسین صاحب مجھ سمیت نصرت جاوید، عامر متین اورشاہین صہبائی سے بڑا لاڈ کیا کرتے تھے اور اس لاڈ پیار میں ایک دن انہوں نے یہ بھی بتا دیا کہ شیخ رشید احمد ہماری وزیر اعظم صاحبہ کے بارے میں بڑی نازیبا گفتگو کرتے ہیں لہٰذا میں نے شیخ صاحب کو سبق سکھانے کی ٹھان لی ہے۔ چوہدری صاحب بہت پڑھے لکھے انسان تھے لیکن اپنی وزیر اعظم کے بارے میں کہے جانے والے کچھ ذومعنی نازیبا فقروں پر اُن کا پیمانۂ صبر لبریز ہو گیا اور پھر ایک دن انہوں نے شیخ رشید احمد کو سات سال قید کی سزا والا وہ عدالتی فیصلہ بھی ہمیں دکھا دیا جو عدالت میں ابھی سنایا جانا تھا۔ شیخ رشید احمد منتخب رکن قومی اسمبلی تھے اور اپوزیشن نے اُنہیں قومی اسمبلی کے اجلاس میں لانے کا مطالبہ کیا۔ ایک دن اسپیکر یوسف رضا گیلانی نے وزیر قانون سید اقبال حیدر سے پوچھا کہ جیل میں بند ایک رکن قومی اسمبلی کو ایوان میں لانے کے لئے قانون کیا کہتا ہے؟ سید اقبال حیدر نے ایک لمحے کی تاخیر کئے بغیر کہا کہ اگر اسپیکر کی طرف سے پروڈکشن آرڈر جاری کر دیا جائے تو حکومت گرفتار رکن اسمبلی کو ایوان میں لانے کی پابند ہے۔ اسپیکر یوسف رضا گیلانی نے پروڈکشن آرڈر جاری کر دیا اور شیخ صاحب کو اسمبلی میں لایا گیا۔
شیخ رشید احمد صاحب کو یاد ہو گا کہ جب انہیں اڈیالہ جیل سے قومی اسمبلی میں لایا گیا تو وہ اپنے ساتھ قرآن پاک بھی لے آئے اور انہوں نے قومی اسمبلی میں قرآن اُٹھا کر کہا کہ مجھ پر کلاشنکوف کا مقدمہ جھوٹا ہے، میں بے گناہ ہوں اور یہ قومی اسمبلی بے شک آصف علی زرداری کی سربراہی میں ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دیدے اور یہ کمیٹی جو بھی فیصلہ کرے گی وہ مجھے قبول ہو گا۔ یہ کمیٹی تو نہ بنی البتہ سید اقبال حیدر کو وزارت قانون سے ہٹا دیا گیا کیونکہ اُنہوں نے وزیر اعظم صاحبہ کی شان میں گستاخی کرنے والے شیخ رشید احمد کو ایوان میں لانے کی مخالفت نہیں کی تھی حالانکہ اس سے قبل مسلم لیگ (ن) کے پہلے دور حکومت میں قومی اسمبلی کے اسپیکر گوہر ایوب ایک گرفتار رکن اسمبلی آصف علی زرداری کے پروڈکشن آرڈرز جاری کیا کرتے تھے اور صدر غلام اسحاق خان نے ایک دن گوہر ایوب کو بلا کر پروڈکشن آرڈر جاری کرنے سے منع کیا لیکن گوہر ایوب نے صدر کی بات سنی اَن سنی کر دی۔ کیسا عجیب اتفاق ہے کہ جس آصف علی زرداری کو پروڈکشن آرڈر کے ذریعہ جیل سے اسمبلی لایا جاتا تھا اُسی زرداری صاحب نے کچھ عرصہ بعد صدر غلام اسحاق خان سے بطور وزیر حلف لیا اور کچھ سال کے بعد وہ خود صدر مملکت کی کرسی پر براجمان ہو گئے۔ جو اسپیکر ان کے پروڈکشن آرڈرز جاری کیا کرتے تھے وہ مسلم لیگ (ن) کے دوسرے دور حکومت میں وزیر خارجہ بن گئے۔ اسپیکر یوسف رضا گیلانی نے شیخ رشید احمد کا پروڈکشن آرڈر جاری کیا۔ شیخ صاحب بار بار وزیر بنے اور گیلانی صاحب وزیر اعظم بن گئے۔