لاہور (ویب ڈیسک) مجھے نہیں معلوم کہ موجودہ قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر اپنی پرواز کی بلندی کے بعد کس بلند عہدے پر پہنچنے والے ہیں لیکن تاریخ یہ بتاتی ہے کہ وقت بہت جلد بدل جاتا ہے۔ شہباز شریف آج گرفتار ملزم ہیں۔ اُنہیں اُسی نیب نے گرفتار کیا جو
نامور کالم نگار حامد میر روزنامہ جنگ میں اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ 1997ء میں اُن کے بڑے بھائی نواز شریف نے اپنے دوسرے دور حکومت میں قائم کی تھی۔ یہ نیب اُس زمانے میں احتساب بیورو کہلاتی تھی اور احتساب بیورو کا سربراہ سینیٹر سیف الرحمان کو بنایا گیا۔ موصوف نے سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا وہ طوفان مچایا کہ احتساب الرحمان کہلانے لگے۔ آج احتساب الرحمان صاحب مفرور ہیں اور شہباز شریف گرفتار ہیں۔ پہلے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) والے حکومت میں آ کر ایک دوسرے کے خلاف مقدمات قائم کیا کرتے تھے آج کل عمران خان کی حکومت ہے لہٰذا نواز شریف، شہباز شریف، آصف علی زرداری اور فریال تالپور کے عدالتوں میں چکر لگ رہے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو آشیانہ ہائوسنگ اسکینڈل میں گرفتار کیا گیا ہے۔ اُن کے جسمانی ریمانڈ میں دو ہفتے کی توسیع ہو چکی ہے۔ وہ پہلے بھی نیلسن منڈیلا کی کتاب ’’لانگ واک ٹو فریڈم‘‘ پڑھ چکے ہیں آج کل یہ کتاب دوبارہ پڑھ رہے ہیں۔ نیب نے اُن کے خلاف ریمانڈ کی پہلی اور دوسری درخواست میں کرپشن کا کوئی ٹھوس الزام پیش نہیں کیا۔ ریمانڈ کی دوسری درخواست بتا رہی ہے کہ نیب کو بدستور کرپشن کے ثبوتوں کی تلاش ہے۔
دو بیورو کریٹ احد چیمہ اور فواد حسن فواد پہلے سے حراست میں ہیں لیکن آشیانہ اسکینڈل میں اُن کے خلاف کوئی ریفرنس دائر نہیں ہوا اور اگر یہ دونوں وعدہ معاف گواہ بن جائیں تو اعلیٰ عدالتوں سے شہباز شریف کو ریلیف لینے میں آسانی رہے گی۔ نیب نے ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ آشیانہ اسکینڈل میں سرکاری خزانے کو کیا نقصان ہوا؟ اس سارے معاملے میں اگر قانون کی خلاف ورزی ہوئی تو ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ضرور ہو لیکن سرکاری خزانے کو کیا نقصان ہوا؟ شہباز شریف کو جب بھی نیب نے بلایا وہ پیش ہوتے رہے پھر اُنہیں گرفتار کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اس خاکسار نے پہلے بھی لکھا ،پھر لکھ رہا ہوں کہ شہباز شریف کو گرفتاری کا بہت فائدہ ہوا ہے۔ یہ فائدہ آپ کو 14اکتوبر کے ضمنی الیکشن میں نظر آ گیا ہے اور 17اکتوبر کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں شہباز شریف کی تقریر کے دوران بھی نظر آیا۔ پیپلز پارٹی نے بھی شہباز شریف کی گرفتاری کی مذمت شروع کر دی ہے۔ میری ناقص رائے یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کو اپنی مدت پوری کرنی چاہئے اور چھ ماہ تک اس حکومت پر زیادہ تنقید نہیں کرنی چاہئے لیکن آثار کچھ اچھے نہیں۔ حکومت کے تین اتحادی اس سے ناراض ہو چکے ہیں۔ شہباز شریف کو قیدی بنا کر حکومت کو مستحکم رکھنا مشکل ہے۔ اس حکومت کو انتقام کے جذبے کی قید سے نکلنا ہو گا اور اگر توفیق ہو تو تاریخ سے سبق سیکھ لینا چاہئے ایسا نہ ہو کہ کچھ عرصے کے بعد تاریخ ہمارے سامنے پھر خود کو دہرا رہی ہو اور تحریک انصاف کے کسی رہنما کو جیل سے اسمبلی کے اجلاس میں لایا جا رہا ہو اور ہم یہ دہائی دے رہے ہوں کہ تحریک انصاف کے ساتھ انتقامی کارروائیاں بند کرو۔ تاریخ کا کمال دیکھتے جایئے۔