counter easy hit

حامد میر کے پروگرام میں تہلکہ خیز پیشگوئی کر دی گئی

Hamid Mir's program was sporadic

کراچی (ویب ڈیسک)جیو کے پروگرام ’’کیپٹل ٹاک ‘‘ میزبان حامد میر سے گفتگو کرتے ہوئے سابق سفارتکار اور بھارت میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنرز اشرف جہانگیر قاضی ،عبدالباسط اور شاہد ملک نے متفقہ طورپر کہا ہے کہ پاکستان کو کشمیر پر اپنا بیانیہ تبدیل کرنا ہوگا،بین الاقوامی قانون کی روشنی میں کشمیریوں کی مسلح مزاحمت کی مدد جائز ہے اور دنیا کو بھی اس کی حمایت کرنا اور ساتھ دینا چاہئے،انہوں نے کہا کہ بھارتی عزائم کو دیکھتے ہوئے حقیقت پسندانہ ہوکر سفارتکاری میں جارحانہ انداز اپنانا ہوگا ، دونوں محاذوں پر چوکنا رہنا ہوگا ،جنگ کا خطرہ موجود ہے، پروگرام میں امجد شعیب اور سلمان ملک نے بھی گفتگو کی ، اشرف جہانگیر قاضی نے کہا کہ میرا تعلق بھی اقوام متحدہ سے رہا ہے میں انڈر سیکرٹری جنرل رہا ہوں عراق میں او رسوڈان میں۔ آرمی اسٹاف کی ایکسٹینشن، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف چارجز کا ڈراپ ہونا، اچھی خبریں ہیں۔لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب نے کہا کہ بات یہ ہے کہ خطے میں حالات بڑی جلدی تبدیل ہوئے اور کچھ ایسی سچویشن بن گئی ہے جہاں کشمیر کے معاملہ میں جو اقدامات کرنا ہیں، جو آپ نے آگے اس کو  لے کر چلنا ہے  اس میں کافی ساری مشکلات ہیں اور وہ ابھی  شروعات کی سٹیج پر ہے، میری کچھ دن پہلے جنرل باجوہ سے ملاقات ہوئی تھی، اس سے پہلے ایک ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے مجھے واضح کہا کہ میں  دلچپسی نہیں، میں نہیں چاہتا، میں نے حکومت سے ریکوئسٹ کی ہے کہ مجھے ریٹائر کردیا جائے لیکن جب یہ سچویشن آئی اور ان کا امریکا کا وزٹ آیا توا س کے بعد جو ایک دو ملاقاتیں ہوئیں اس میں کافی ساری چیزیں ایسی سامنے آئیں جس سے پتا لگتا تھا کہ کافی کچھ کام کرنے کو ہے اور اس میں بہت سارا کچھ ایسا ہے جو ان کے وزٹ وغیرہ کی وجہ سے بلاواسطہ باجوہ صاحب تک ہے، اس وجہ سے میرا اپنا خیال ہے کہ حکومت نے محسوس کیا ہوگایہ رواں کا، یہ پیریڈ آپ تقریر کرسکتے ہیں کہ تین سال کی ضرورت تھی یا دو سال کی یا سال کی ، میں پوری طرح تمام چیزیں نہیں جانتا کہ کس حد تک آگے کام کی نوعیت کتنے وقت کیلئے ہے لیکن یقیناً اس اسٹیج کے اوپر مجھے پتا ہے کہ کچھ اس طرح کی مشکلات اور ایسے ایشوز تھے کہ اگر ہم نے کامیابی سے اپنے معاملات کو لے کر آگے چلنا ہے تو اس میں ان کی جاری رکھنے  کی ضرورت تھی۔ اشرف جہانگیر قاضی نے کہا کہ میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ آج کا دن مبارک دن ہے، دو اچھی خبریں آئی ہیں، ایک تو ہمارے چیف آف آرمی اسٹاف کی ایکسٹینشن ہوئی ہے دوسری بات سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف جتنے بھی چارجز تھے وہ ڈراپ ہوچکے ہیں، وہ بری ہوچکے ہیں اور یہ میں سمجھتا ہوں کہ بہت ہی اچھی خبر ہے۔ اگر پریانکا نے یہ کہا ہے کہ انڈیا کو نیوکلیئر اسٹرائیک پاکستان پر کرنا چاہئے تو وہ ایک دن کیلئے بھی اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق اس کی نمائندہ نہیں رہ سکتی ہیں۔ عبدالباسط نے کہا کہ یقیناً ہمارے اس وقت جو پرابلمز انڈیا کے ساتھ چل رہے ہیں، پھر افغانستان کا جو امن عمل ہے ایک بڑے مشکل صورتحال پر ہے، پھر یو ایس کے ساتھ ہمارے تعلقات، یہ تمام چیزیں ہیں جو ہماری خطے کے تحفظ کا ماحول پر اثر کرتی ہیں لیکن میرا اپنا خیال یہ ہے کہ یقیناً یہ وجہ ہوگی لیکن ہماری ایک تاریخ بھی رہی ہے سول عسکری قیادت کے حوالے سے ہم سب جانتے ہیں، ہم نے پچھلے ایک سال میں کم از کم یہ دیکھا کہ آرمی چیف اور وزیراعظم کے درمیان بڑی پرامن سی تھی، میرا خیال ہے کہ اس اسٹیج پر اس پرامن  کو بھی ڈسٹرب کرنا شاید مناسب نہیں تھا اس وجہ سے وزیراعظم نے یہ فیصلہ کیا ہے، ممکن ہے نئے آرمی چیف آتے تو ان کی اپنی کچھ سوچ ہوتی، یہ ایک اچھی انڈراسٹینڈنگ ڈویلپ ہوئی ہے جس طرح میں اس چیز کو دیکھ رہا ہوں، شاید وزیراعظم کا یہ بھی خیال ہو کہ اگلے تین سال چونکہ بہت اہم ہیں پاکستان کے لئے خاص طور پر اس علاقے میں تو ضروری ہے کہ وہ پرامن بھی برقرار رہے، ایک  بھروسہ اور جو ریلیشن شپ قائم ہوا ہے اس کو فی الحال ڈسٹرب کرنا ریجنل انوائرمنٹ جو ہماری پوزیشن ہے اس وقت جو ہمارے حالات ہیں شاید اس سے مطابقت نہ رکھے شاید ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے۔ شاہد ملک نے کہا کہ ضرور کچھ ایسے حالات ہیں جس کا کم از کم مجھے نہیں پتا کہ کیا ایسی مجبوریاں تھیں جن کے تحت یہ فیصلہ کیا گیا، ضرور سوچ سمجھ کر کیا گیا ہوگا، میں نے اپنی رائے کا اظہار کردیا ہے۔اس سے قطع نظر کہ فیصلہ کیا ہوا جہاں تک ریجنل سیکیورٹی انوائرمنٹ کا تعلق ہے وہ تو سب کے سامنے عیاں ہے، وہ ریجنل سیکیورٹی انوائرمنٹ ایسی ہے جس میں ہمیں چوکنے رہنے کی ضرورت ہے، دونوں فرنٹ پر ایسے ہے، ایسٹرن فرنٹ پر بھی اور ویسٹرن فرنٹ پر بھی۔ میں جب ہندوستان میں سفیر تھا اور ممبئی حملے ہوئے تھے اس وقت بھی اس قسم کی باتیں ہوئی تھیں، جہاں تک ریجنل سیکیورٹی انوائرمنٹ کا تعلق ہے اس پر کوئی سوال نہیں۔ کہ وہ اس قسم کی انوائرمنٹ ہے کہ ہم کسی صورت میں بھی ہم کسی بھی سوچ کے تحت سکون سے نہیں رہ سکتے۔ اشرف جہانگیر قاضی نے کہا کہ جنگ کا خطرہ تو ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ ہندوستان نے پانچ اگست کو جو فیصلہ کیا ہے وہ اس پر نظرثانی کرنے کیلئے بالکل تیار نہیں ہے، اگرچہ عالمی برادری کی طرف سے کچھ مذمت بھی ہوئی ہے اقوام متحدہ میں اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے اسٹیٹمنٹ کو بھی آپ دیکھیں تو اس میں اقوام متحدہ کے چارٹر کا ذکر ہے اور ان کو خدشہ ہے کہ اس اقدام کی وجہ سے تناؤ میں بہت اضافہ ہوسکتا ہے تو یہ اچھی بات نہیں ہے، لیکن اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کی جو بند کمرہ میٹنگ تھی اس میں کوئی متفقہ فیصلہ نہیں تھا اور یہ بھی واضح نہیں ہے کہ اگلے اقدامات کیا ہوں گے اقوام متحدہ کی طرف سے۔ اصل چیز تو یہ ہے کہ ہندوستان نے جو فیصلہ کیا ہے وہ اس پر نظرثانی کیلئے تیار نہیں ہے۔ہم تو تمام کشمیریوں کو پاکستانی سمجھتے ہیں۔اب یہ جو تھرڈ آپشن کی بات ہوتی تھی وہ ختم ہوگئی ہے،اسی طرح محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ فاروق عبداللہ نے تقریباً کہہ دیا کہ ہم سے بہت بڑی غلطی ہوئی، ہم بالکل غلط ہیں، ہم پشیما ن ہیں، عبدالباسط نے کہا کہ پہلے تو ہم نے آج ایک اچھا کام کیا فارن آفس میں ایک جموں و کشمیر سیل بنادیا گیا، قاضی صاحب نے درست فرمایا ہمیں اپنی جارحانہ ڈپلومیسی لانچ کرنی ہے، جموں و کشمیر میں کیا ہوتا ہے وہاں جب کرفیو ہٹتا ہے تو کس طرح مزاحمت ہوتی ہے، کتنے عرصے تک چلتی ہے۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد جولائی 2016ء کو تین مہینے تک یہ پرابلمز رہے تھے۔ ہم بہت کچھ کرسکتے ہیں، آپ کو یاد ہوگا برہان وانی کا جب معاملہ چل رہا تھا مقبوضہ جموں و کشمیر میں تو اٹھارہ ستمبر کو اُڑی کا واقعہ ہوا تھا جو پانچ دن پہلے ہمارے اس وقت کے وزیراعظم کی اقوام متحدہ میں تقریر تھی، مجھے لگتا ہے کہ جھوٹا فلیک آپریشن ابھی بھی کوئی ہوسکتا ہے اور شاید وہ پنجاب میں ہو ضروری نہیں ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں اس وقت۔ وہ شاید کرتارپور راہداری کے ساتھ بھی اس کو لنک کریں تو ایک خطرہ یہ بھی ہے اس کے لئے بھی ہمیں تیار رہنا ہے کہ ایک جھوٹا فلیگ آپریشن کر کے ایل او سی پر سچویشن کو ایسکلیٹ کیا جاسکتا ہے، دوسرا ہمیں سفارتی طور پر آگے چلنا ہے، اقوام متحدہ کی غیر رسمی مشاورت اب ختم ہوگئی ہے، نہ اس کی کوئی پریس اسٹیٹمنٹ آئی، ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے ساتھ بہت سے ممالک نہیں کھڑے ہوئے اور یہ حقیقتیں ہیں جو ہمیں تسلیم کرلینی چاہئیں بجائے اس کے کہ یہ کہنا چاہئے کہ پاکستان کی بہت تاریخی کامیابی یا فتح ہوگئی ہے یہ اپنے آپ کو مس لیڈ کرنے کی بات ہے، ہمیں حقیقت پسندانہ ہو کر اپنی ڈپلومیسی میں جارحانہ پن لانا ہے، ہمیں دنیا کو بتانا ہے کہ ہم جموں و کشمیر کو اہمیت دیتے ہیں۔ شاہد ملک نے کہاکہ ہندوستان کی جو نئی ہٹ دھرمی ہے کشمیر کے بارے میں اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہمیں اپنے اندر نئی تحریک پیدا کرنی ہے، ہمیں جنگی صورتحال میں اپنے آپ سے یہ بات کرنی ہے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website