counter easy hit

کافر کافر کا کھیل بند کیجئے‎

Pemra

Pemra

تحریر : عماد ظفر
حمزہ علی عباسی ایک اچھا اداکار ہے لیکن ایک دانشور نہیں. مجھے کبھی بھی حمزہ علی عباسی کی اوٹ پٹانگ باتیں نہیں بھائیں . لیکن رمضان کے پروگرام کے درمیان قادیانیوں کے مسئلے پر اس کی رائے کو عوام کی دل آزاری کا مسئلہ بنا کر اس کے پروگرام کو پیمرا کی جانب سے بند کرنا یا اس کو پابندی کا شکار کرنا ہرچند بھی قابل تعریف عمل نہیں ہے. حمزہ علی عباسی نے 1973 کے قانون کا حوالہ دیتے ہوئے اس پر تنقید کی تھی اور یہاں اس امر کا ادراک ضروری ہے کہ 1973 کا قانون بھٹو نے سیاسی مصلحتوں کے تابع بنایا تھا اور نہ ہی یہ کوئی آسمانی صحیفہ یا قانون ہے جس کے محرکات پر بات نہ کی جا سکے.

پیمرا نے عوامی شکایات کو جواز بنا کر حمزہ علی عباسی کے پروگرام کو بین تو کیس.لیکن دیگر کئی مسخرے اور قیامت کا منجن بیچتے بھانڈوں کے متعلق آج تک کوئی ایکشن کیوں نہ لیا گیا یہ ایک بڑا سوال ہے. قادیانی درست ہیں یا غلط اس بات کی بحث میں الجھے بغیر کیا ریاست کا فرض یہ نہیں ہے کہ ملک میں بسنے والے ہر شہری کو یکساں طور پر جان و مال کی ضمانت دے سکے. بجائے اس کے کہ بطور اقلیت قادیانیوں یا دیگر فرقوں کے خلاف نفرت کم کرنے کے اقدام کیئے جائیں ایسے مضحکہ خیز اقدام کے زریعے اقلیتوں کے خلاف نفرت اور تعصب کو خوب ہوا دی جا رہی ہے. دوسری جانب پیمرا اور ٹی وی چینلز کو بھی ایک ضابطہ اخلاق طے کرنے کی ضرورت ہے جس کے تحت کم سے کم وہ افراد الیکٹرانک میڈیا پر آ سکیں جنہیں یہ معلوم ہو کہ کونسی بات کب اور کیسے موقع پر کرنی ہے. حمزہ علی عباسی نے تو خیر جو بات کی سو کی لیکن اس کے بعد کچھ نام نہاد علما نے کیا وہ ایک جرم سے کم نہیں تھا.

Hamza

Hamza

میڈیا پر ہی آ کر حمزہ کو واجب القتل قرار دے دیا. کیا پیمرا کے ارباب اختیار کو یہ نظر نہیں آیا کہ یہ سیدھا سیدھا نفرت اور اشتعال انگیزی کا جرم تھا جو یہ علما کھلے عام کر رہے تھے اور اس سے حمزہ کی زندگی کو خطرات بھی لاحق ہو گئے ہیں. مزید براں لبرل اور قدامت پسندوں کے درمیاں ایک دوسرے کی تضحیک کرنے کی روایتی لڑائی شروع ہو چکی ہے. حمزہ عباسی نے کس تناظر میں کیا بات کی وہ ایک الگ معاملہ ہے لیکن کسی کو مرتد یا واجب القتل قرار دینا بھی کوئی قابل تعریف فعل نہیں. اقلیتوں کی زندگی ہمارے ہاں جیسے گزرتی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں اور ایک مخصوص فرقے کو ٹارگٹ کر کے ان سے لین دین یا کاروبار کی سرگرمیوں سے روکنے کی ترغیب دینا بھی بے حد معیوب کام ہے. بطور معاشرہ ہم پہلے ہی انتشار کا شکار ہیں اور اس انتشار کو مذہبی اجارہ دار اور لبرل فاشسٹ اپنی اپنی دکانیں چمکانے کیلیے مزید ہوا دیتے ہیں.ہونا تو یہ چاہیے کہ پیمرا کسی بھی ایسے پیغام یا بات کو نشر کرنے پر پابندی لگا دے جس سے مزہبی منافرتوں یا ایک دوسرے کو کافر قرار دینے کے سرٹیفیکیٹ دئیے جاتے ہیں.

کم سے کم اب یہ کافر کافر کی گردان بند ہونی چائیے کہ سن 1947 سے لیکر آج تک ہم نے ایک دوسرے کو سوائے کافر قرار دینے کے سرٹیفیکیٹس اور غداری کے الزامات کی اسناد تقسیم کرنے کے علاوہ کچھ بھی ایسا قابل تعمیری کام نہیں کیا جسے جدید دنیا میں مانا یا جانا جا سکے. یا جو جدید دنیا کی ترقی میں معاون ثابت ہو. شدت پسندی کی ابتدا ان رویوں سے ہوتی ہے جنہیں ہم اپنے اپنے فرقے کو درست اور دوسرے فرقوں کو غلط قرار دینے کیلئے اپناتے ہیں. غضب خدا کا کہ دنیا مریخ تک جا پہنچی ہے اور ہم آج بھی کافر کافر کھیل رہے ہیں.دنیا میں جدید سائینس اور ایجادات پر مکالمے اور مناظرے ہوتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں ناف سے نیچے ناڑا باندھنا اور مباشرت کے آداب آج بھی زیادہ تر مباحثوں کا حاصل ہیں. کون کافر ہے کون نہیں کیا خدا نے اس معاملے میں کبھی ہم سے رائے طلب کی ہے.محض مذہبی چورن فروشوں کے پراپیگینڈے میں آ کر ایک دوسرے کو جان سے مار دینا کہاں کی انسانیت ہے اور کم سے کم دین اسلام میں تو ایسی منافرت یا فرقہ بازیوں کی کوئی گنجائش نہیں. پیمرا کو چاھیے کہ کافر کافر کھیلنے والے افراد کو نہ صرف ٹی وی پر آنے سے روکا جائے بلکہ ایسے چینلز کو بھی بھاری جرمانے عائد کیئے جائیں جنہیں کافر کافر کھیلنے اور کھلوانے کا شوق ہے.

Society

Society

بطور معاشرہ ہمیں خود بھی اس امر کے ادراک کی ضرورت ہے کہ اقلیتوں کو بھی معاشرے میں جینے کا اتنا ہی حق ہے جتنا کہ آپ کو یا مجھے. اپنی اپنی محرومیاں یا ناکامیاں اقلیتوں پر نکال کر نہ تو ہم نے پہلے اہنے ملک یا معاشرے کا نام بلند کیا اور نہ ہی آج کر رہے ہیں. کوئی بھی انسان اپنی مرضی سے کسی خاص فرقے یا اقلیتی گروہ میں پیدا نہیں ہوتا اس لیئے کسی خاص فرقے سے تعلق کی بنا پر اس سے نفرت کی نہ تو کوئی وجہ ہے اور نہ ہی کوئی منطق. رہی بات اس کافر کافر والے کھیل کی تو یہ شاید چند مذہبی چورن فروشوں کے چورن بیچنے میں تو معاون ثابت ہوتا ہے لیکن معاشرے میں نفرتوں کا اتنا زیادہ تعفن پھیلا دیتا ہے کہ جسے صاف کرتے کرتے صدیاں لگ جاتی ہیں.

ہم تو یوں بھی جدید دنیا سے صدیوں پیچھے بستے ہیں اور سوائے قتل و غٍارت گری یا دنیا کو بزور شمشیر فتح کرنے کے خوب دیکھنے کے علاوہ عملی طور پر کچھ نہیں کرتے. کیوں نہ کم سے کم اپنے ملک میں بسنے والی اقلیتوں کی تضحیک کرنا ہی بند کر دیں کہ کم سے کم ہماری آنے والی نسلیں تو حبس و جبر اور نفرت کی گھٹن سے نجات حاصل کر لیں. کیوں نہ کافر کافر کے کھیل کی جگہ ایک دوسرے سے انس محبت اور احترام کا اظہار کیا جائے. یہ سب نہ تو کوئی راکٹ سائنس ہے جسے سمجھنا مشکل ہے اور نہ ہی کوئی ایسی چیز جو کہ ممکن نہ ہو بس مذہبی چورن فروشوں کے چورن کو خریدنے کی عادت ترک کرنی ہو گی. بصورت دیگر ہمارے آنے والے بچے بھی کافر کافر کھیلتے ایک دوسرے کو جہنمی سمجھتے نفرتوں کے سائے میں جیتے رہیں گے.
تحریر : عماد ظفر