لاہور: لاہور ہائیکورٹ نے اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی حمزہ شہباز کی ضمانت منسوخ کردی جس کے بعد نیب کی ٹیم نے حمزہ شہباز کو حراست میں میں لے لیا ہے۔
میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ حمزہ شہباز کی عدالت پیشی پر مسلم لیگ ن کا کوئی سینئیر رہنما موجود نہ تھا تاہم چند پارٹی ارکان موجود تھے۔ حمزہ شہباز نے اس موقع پر اکیلے ہی نیب کے سامنے گرفتاری دی۔ ن لیگ کا کوئی رہنما موجود نہ تھا۔ یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے رہنما حمزہ شہباز شریف کی آج عبوری ضمانت مسترد ہونے کے بعد گرفتاری کا امکان موجود تھا۔ سینئیر تجزیہ نگاروں نے گذشتہ روز ہی کہہ دیا تھا کہ حمزہ شہباز شریف کو اگلے 48 گھنٹوں میں گرفتار کر لیا جائے گا۔
اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حمزہ شہباز نے کہا کہ میرے لیے یہ جیلیں نہیں ہیں۔میں نے کوئی کرپشن نہیں کی۔ کرپشن کا ثبوت لے کر آئیں سیاست چھوڑ دوں گا۔انہوں نے مزید کہا کہ آصف زرداری کی گرفتاری سے متعلق فردوس عاشق اعوان نے پہلے ہی بتا دیا تھا جب کہ میری گرفتاری کا چئیرمین نیب پہلے بھی کہہ چکے ہیں۔خیال رہے آج لاہور ہائیکورٹ میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے آمدن سے زائد اثاثے اور رمضان شوگر ملز کیس میں حمزہ شہبازکی درخوست ضمانت کی سماعت کی۔حمزہ شہباز وکلا کے ہمراہ لاہور ہائیکورٹ میں پیش ہوئے۔ حمزہ شہباز کے وکیل سلمان بٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نیب قانون کے تحت انکوائری مکمل ہونے تک وارنٹ گرفتاری جاری نہیں کیے جاسکتے۔ ابھی منی لانڈرنگ کیس کی انکوائری جاری ہے
حمزہ شہباز تفتیشی ٹیم کے ساتھ مکمل تعاون کر رہے ہیں۔ وکیل حمزہ شہباز نے کہا حمزہ شہباز کے بلا جواز وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے، متعدد فیصلے بھی موجود ہیں کہ انکوئری کے دوران ملزم کو گرفتار نہیں کیا جاسکتا۔جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ فیصلہ آئین اور قانون کے مطابق ہوگا، عدالت مکمل انصاف کرے گی۔