تحریر: حلیمہ سعدیہ۔ سکھر
غازی ممتاز قادری کو گزشتہ روز اچانک گھر والوں کو بلا کر ملاقات کروائی گئی اور پھر اس سے کچھ دیر بعد انہیں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ ممتاز قادری شہید کی شہادت سے محبان رسول اور عاشقان محمدۖ کے جذبات مجروح ہوئے۔ اس کا اثر اگلے روز ہونے والے وطن عزیز کے گلی کوچوں میں احتجاجی مظاہروں کی صورت میں سامنے آیا۔ ہر آنکھ اشک بار تھی۔ سب کے لبوں پر درود پاک تھا۔ ہر شخص کا دل رسول پاکۖ کی محبت سے سرشار تھا، دل میں محبت رسول ۖکا ایک جذبہ تھا اور سب کے لبوں پر نعرہ رسالت ماب ۖ تھا۔
عشق رسول ۖکے جذبوں سے سرشار مظاہرین اپنے نعروں سے شاتمین رسول کو جواب دے رہے تھے کہ ” شاتم رسول کی ایک سزا سر تن سے جدا، سر تن سے جدا”، ” حرمت رسولۖ پر جان بھی قربان ہے” فلک شگاف نعروں سے گونج رہا تھا۔ اسی اثنا میں شہید ممتاز حسین قادری کا چہرے پر سکون تھا، متانت تھی۔ یوں لگ رہا تھا کہ جیسے وہ رسول اکرمۖ کے لیے ایک جان کی قربانی کو کم سمجھ رہے تھے۔ ”کہو کیا مانگتے ہو۔ شہید سے جنت میں سوال کیا جائے گا تو وہ کہہ گا کہ مجھے دوبارہ دنیا میں بھیجا جائے میں پھر اللہ کی راہ میں شہید ہوجائوں پھر دنیا میں بھیجا جائوں پھر شہید کیا جائوں”۔ ممتاز قادری شہید بھی اللہ کے حضور پہنچے ہوں گے تو ان سے بھی یہیں سوال کیا گیا ہوگا (انشاء اللہ) کہ اے شہید مانگ۔۔۔ انہوں نے کہا ہوگا کہ میرے نبیۖ سے محبت کا ابھی اظہار مکمل نہیں ہوا۔اگر میری سو سے زیادہ جانیں بھی ہوتیں تو بھی میں اپنے نبی ۖ کے لیے قربان کردیتا۔
آہ! وہ چہرے پر متانت کا آخری دیدار۔۔ میرے دل و دماغ سے اترتا نہیں ہے۔ شہید کیسے ہوتے ہیں میں نے سوال کیا تھا مگر قادری شہید نے بتایا کہ وہ ایسے ہوتے ہیں۔ پریشان نہیں ہوتے بلکہ خوش ہوتے ہیں۔ چہرے پر طمانیت ٹپک رہی ہوتی ہے۔ قادری شہید کے جانثار بے شمار تھے اور ہوتے بھی کیوں نہ آخر کو وہ میرے نبی ۖ کا اصلی امتی تھا۔
افراد کا ایک جم غفیر تھا۔ حد نگاہ تک لوگ ہی لوگ تھے۔ یہ سب کون تھے یہ میرے نبی کی محبت سے سرشار ممتاز شہید کے جانثار تھے۔ آہ! کیا خوش قسمت تھا وہ کس قدر نڈر تھا۔ ارے ظالمو پھانسی پر لٹکا کر کیوں بذدلی کا ثبوت دیا۔ ممتاز قادری سے پوچھتے تو کہ ”شاتم رسول کو انجام تک پہنچانے کے لیے کیا سزا دینی چاہیے تو وہ خود بتاتے کہ پوری دنیا کے سامنے سر عام تختہ دار پر لٹکا دو تاکہ دنیا کو معلوم ہوجائے کہ جس نے بھی میرے نبی ۖ کی طرف میلی آنکھ سے بھی دیکھا تو اس کا اختتام کرنے کے لیے ایک غازی علم دین شہید، ایک ممتاز قادری جیسا سچا عاشق رسول ۖ موجود ہوگا۔ تمہیں لگتا ہے کہ تم نے ممتاز قادری کو تختہ دار پر لٹکا کر قانون کی بالادستی کی ہے، ہرگز نہیںوہ تو خود اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنی آخرت کو ترجیح دے چکا تھا۔
اسی کوئی فکر نہیں تھی کہ اب بھلے دنیا میں اس کا کیسا بھی انجام ہوتا ہے ہونے دو۔ تم نے مار دیا، بدلہ لے لیا، انصاف دلا دیا۔ نہیں بالکل بھی ایسا نہیں ہے بلکہ اسی کو جینا کہا تھا اس نے۔ وہ کہتا تھا کہ گستاخ رسول زندہ ہوگا تو گویا زندہ ہوکر بھی مردہ ہوں گا۔ جب قربانی دے دی تو کہتا کہ اب لگا ہے کہ جینے کا ایک مقصد تھا۔ اب مردہ ہوکر بھی زندہ ہوں گا۔ وہ گیا مگر لاکھوں ، اربوں مسلمانوں کو جینے کا انداز سیکھا گیا۔ وہ ہمیشہ کے لیے خود کو دنیا میں دوام دے گیا اور آخر ت تو انشاء اللہ اسے اجر عظیم ملے گا ہی۔
مگر کلمہ طیبہ کے نام پر حاصل کیے جانے والے ملک کے حکمرانوں۔ ایک سچے مسلمان کو ہی تختہ دار پر لٹکا دیا ۔ حیرت ہے تمہاری غیرت پر۔ ڈوب کر مرنے کا کام ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کو سزا سنانے کے وقت کسی کو قانون کی بالا دستی یاد نہیں آئی تھی۔ شارخ جتوئی کو سزا نہیں دی گئی کیوں کہ یہ ملک مسلمانوں کا نہیں ڈکٹیٹروں، شریفوں، زرداروں اور چودھریوں کا ملک ہے۔ نہ جانے کتنے ایسے کیس ہوں گے جنہیں ہماری حکومت بالا طاق رکھ کر تاحال کوئی فیصلہ نہیں دے پائی ۔ ایک ممتاز قادری کی رحم کی اپیل ہی صدر مملکت کو سمجھ نہیں آئی تھی۔ صدر پاکستان ممنون حسین کو شاید دنیا سے جانا ہوگا۔ اللہ کے حضور پیش ہونا ہوگا۔ وہاں پر ان سے جب شاتم رسول سے متعلق اس کیس کی سنوائی ہوگی تو کیا انہوں نے سوچا کہ وہاں صدارت بھی کام نہیں آئے گی۔ ”ہائے ہلاکت و بربادی ہو میرے لیے آج نہ تو میری بادشاہی کام آئی اور نہ ہی میری چودھراہٹ کام آئی”۔ کل قیامت کے روز آج کے ڈکٹیٹروں کے یہ الفاظ ہوں گے۔
ممتاز حسین قادری کی شہادت وقت کے حکمرانوں کے ساتھ ساتھ تمام مسلمانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے ممتاز حسین قادری کی شہادت سے ہزاروں قادری وجود میں آئیں گے۔ کہتے ہیں ”شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے”۔ آج پورے ملک میں لاکھوں کے قادری سلمان تاثیر جیسے گستاخوں کا سر قلم کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔ ”انہیں سے کوئی نہیں کہتا نہ نکلوں یوں عیاں ہوکر”۔اگر کسی کو یہ لگتا ہے کہ گستاخان رسول کے لیے سر تن سے جدا کا نعرہ انتہا پسندی ہے تو ہونے دو۔ یہ ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے۔
تب تک ہر مسلم اپنی جان سے گزر کر اپنے نبی کے گستاخوں سے یوں نبرد آزما ہوتے رہیں گے جب تک اس طرح کہ گستاخ پیدا ہوتے رہیں گے۔ اگر کسی کو لگتا کہ یہ انسانیت سوز حرکت ہے تو انسانیت سے بڑھ کر ہمارے لیے ہمارا ایمان اہم ہے۔ کوئی کچھ نہیں کرے گا۔ ہمارا اسلام کسی مسلم تو کیا کسی کافر کو بھی کھروج پہنچانے سے منع کرتا ہے۔ آج سے حکومت گستاخان رسول کو پھانسی پر لٹکا دے کبھی کوئی ممتاز حسین قادری نہیں آئے گا۔ جب حکومت اپنی ذمہ داری نہیں نبھاتی تو پھر محبان رسول ۖکے ایمان کو گوارہ نہیں ہوتا کہ وہ ایک پل کو بھی چین کی نیند سوئیں اس حال میں کہ ان کے نبیۖ کی شان میں گستاخی کرنے والے زندہ ہوں۔
حکومت کے پاس ابھی بھی وقت ہے کہ وہ اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرے اور فوری طور پر آسیہ مسیح کو گستاخی کی شرعی تقاضوں کے مطابق سزا دی جائے۔ چیف جسٹس پاکستان اور وزیر اعظم کو سوچنا ہوگا کہ وہ اپنے عہدے سے پہلے ایک مسلمان کی اولاد ہیں اسی مسلمان کے گھر پیدا ہوئے ہیں جس مسلمان کا ایمان اس وقت کامل ہوہی نہیں سکتا جب کہ تک اس میں رسول اکرم ۖ کی محبت خود ان کی اولاد، ان کے مال و جان سے بھی زیادہ عزیز ہو۔ خدارا ! قہر الہٰی سے ڈریے اور اللہ تعالیٰ سے جنگ کرنے سے بچیے ورنہ رب کی لاٹھی اور اس کے فیصلوں میں دیر نہیں لگتی۔
تحریر: حلیمہ سعدیہ۔ سکھر