تحریر: پروفیسر رفعت مظہر
عورت، ماں، بہن، بیٹی، بیوی ہر روپ میں لائقِ تکریم کہ اُس کی زندگی کا ہر پہلو الفت و محبت اور ایثار و یگانگت میں گُندھا ہوا۔ اسی لیے ربِ کریم نے اپنے بندوں سے اپنی محبت کی مثال ماں سے دی ہے۔ لیکن ۔۔۔۔ لیکن بعض عورتیں ایسی جنونی اور وحشی کہ عورت کے نام پر بدنما داغ، بنگلہ دیش کی شیخ حسینہ واجد ان میں سے ایک۔ جب لازمۂ انسانیت سے تہی اس عورت کا گھنائونا کردار سامنے آتا ہے تو پیشانی عرقِ ندامت سے تر ہو جاتی ہے۔ اُدھر پاکستانی حکمرانوں کی سرد مہری بھی لاجواب کہ جیسے پاکستان سے محبت کرنے والوں سے انھیں کچھ لینا دینا نہیں۔ کیا پاکستان سے محبت کرنے والوں سے حکمران ایسی ہی لاتعلقی کا اظہار کرتے رہیں گے جیسے بنگلہ دیش میں ”وحشی حسینہ” کے ہاتھوں شہید ہونے والوں سے کیا جا رہا ہے؟ کیا 1971ء کی جنگ میں پاکستان کو دو لخت ہونے سے بچانے کے لیے قربانیاں دینے والوں سے یہی سلوک روا رکھا جانا چاہیے؟ کیا (خاکم بدہن) پاکستان پر دوبارہ کوئی ایسا وقت آئے تو کوئی حُبِ وطن میں ایسی ”حماقت” نہ کرے جیسے پاکستان سے محبت کرنے والے بنگلہ دیشی بھائیوں نے کی؟
جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیر مطیع الرحمن نظامی پھانسی پر جھول کر ”امر” ہو گئے۔ ایک مومن کا مطلوب ومقصود ہی شہادت ہوتا ہے جو مطیع الرحمن نظامی نے پا لیا، لیکن یزیدیت کی علمبردار حسینہ واجد انھیں موت سے ہمکنار نہیں کر سکی کہ ربِ کریم نے شہید کو ”مردہ” کہنے سے منع فرمایا ہے۔ حکمت کی عظیم ترین کتاب کے مطابق شہید زندہ ہوتا ہے اور اپنے رب کے ہاں سے خوراک حاصل کرتا ہے۔ صحابہ کرام رضوان علیہم کی تو شدیدترین خواہش اور تمنا ہی شہادت کی موت ہوا کرتی تھی۔ ”سیف اللہ” کا لقب پانے والے حضرت خالد بن ولید وقتِ رحلت رونے لگے۔ موقع پر موجود ایک صحابی نے پوچھا ”خالد! موت سے ڈر لگتا ہے؟” آپ نے کہا ”نہیں! موت سے کیا ڈرنا، میں تو اس لیے رو رہا ہوں کہ میں نے شوقِ شہادت میں دشمنوں کی صفوں کو چیرا، بڑھ چڑھ کر حملے کیے لیکن شہادت میرے مقدر میں نہ تھی۔ اب طبعی موت مر رہا ہوں۔”
تحقیق کہ شہید ربِ کریم کے چیدہ و چنیدہ بندوں میں سے ہوتے ہیں اور مطیع الرحمن نظامی ان میں سے ایک تھے۔ اتوار کی رات 8بجے قاسم پور جیل میں انھیں سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھ کر سنایا گیا اور انھیں بتلایا گیا کہ وہ صدر سے رحم کی اپیل کر سکتے ہیں۔ تب اُس مردِقلندر نے کہا ”اللہ کے سوا میں کسی سے رحم کی اپیل نہیں کروں گا۔” اس کے بعد ان کے اہل خانہ سے رابطہ کیا گیا لیکن اہل خانہ نے بھی رحم کی اپیل کرنے سے انکار کر دیا۔ امیرجماعت اسلامی بنگلہ دیش نے جماعت اسلامی کے کارکنان کو اپنے آخری پیغام میں کہا: میری زندگی کی بجائے استقامت کی دعا کی جائے،
میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ میری موت کے وقت میرا رب مجھ سے راضی ہو۔” یہ سب کچھ سن کر مجھے مجدّدِ وقت سید ابوالاعلیٰ مودودی یاد آ گئے، انھیں بھی سزائے موت سنائی گئی، لیکن رحم کی اپیل انھوں نے بھی نہیں کی۔ اُن کی تو قلندرانہ شان کا یہ عالم تھا رات کو مولانا کی ”پھانسی کوٹھری” اُن کے خراٹوں سے گونجتی رہتی تھی۔ متنازع جنگی ٹربیونل تشکیل دے کر رب کے بندوں کو پھانسی گھاٹ تک پہنچانے والی وحشی عورت سن لے کہ اللہ کے بندوں کو کوئی ڈرا نہیں سکتا۔ اسے کہتے ہیں کہ ”اے نفسِ مطمئنہ چل اپنے رب کی طرف۔” لیکن اسے یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ رب کی رسی دراز تو ضرور ہوتی ہے مگر اس کی پکڑ بھی اتنی ہی سخت ہے۔
امیرجماعت اسلامی پاکستان محترم سراج الحق نے امیرجماعت اسلامی بنگلہ دیش کی پھانسی پر اپنے شدید ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ”بزرگ رہنما کو پاکستان سے محبت کی سزا دی گئی۔” بلاشبہ ایسا ہی ہوا، سوال مگر یہ ہے کہ جماعت اسلامی پاکستان کیا کر رہی ہے اور کہاں سوئی ہوئی ہے؟ کیا مختلف جگہوں پر صرف غائبانہ نمازجنازہ ادا کرنے سے حق ادا ہو جاتا ہے؟ کیا اکابرین جماعت اسلامی نہیں جانتے کہ ہمارے حکمران تو وہ لاتوں کے بھوت ہیں جو باتوں سے نہیں مانتے؟ کیا جماعت کے
نظم میں اب اتنی سکت بھی نہیں کہ وہ حکمرانوں کو وحشی عورت کی بربریت کے خلاف متحرک کر سکے۔” ”پانامالیکس” پر احتجاج بجا، تحریک بھی درست، لیکن کیا وجہ ہے کہ بنگلہ دیش میں ہونے والے ظلم و بربریت کے خلاف سڑکوں پر نکل کر کوئی ایسی مؤثر تحریک نہیں چلائی جا رہی جو حکمرانوں کے سوئے ہوئے ضمیر کو جھنجھوڑ سکے؟”
پچھلے ماہ پائنا کے زیرِانتظام اسی موضوع پر ایک سیمینار منعقد ہوا جس میں بہت جذباتی تقاریر بھی سننے کو ملیں اور بربریت کے خلاف قرارداد بھی پاس ہوئی۔ انتہائی محترم الطاف حسن قریشی صاحب نے بیماری اور شدید نقاہت کے باوجود پوری گھن گرج کے ساتھ افتتاحی کلمات میں کہا ”بنگلہ دیش میں جعلی بین الاقوامی ٹربیونلز کے ذریعے حسینہ واجد جو ظلم ڈھا رہی ہے، اس کے خلاف یک آواز ہو کر احتجاج کرنا چاہیے۔ ان زعما کو پھانسیاں دی جا رہی ہیں جنھوں نے پاکستان کو دو لخت ہونے سے روکنے کے لیے مصائب سہے اور قربانیاں دیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے ڈھاکہ میں اعلان کیا کہ ہم نے پاکستان کو دو لخت کرنے کے لیے مکتی باہنی بنائی۔ اُس کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ دائر کیا جانا چاہیے۔” عرض ہے کہ ”پائنا” تو محض ایک فورم ہے جو پاکستان میں پیدا ہونے والے مختلف مسائل پر آواز اٹھا کر انتہائی مستحسن اقدام اٹھاتا رہتا ہے، لیکن ”پائنا” کی سفارشات پر عملدرآمد تو حکومت کا کام ہے، جو آج کل ”پیسہ بچائو” مہم پر نکلی ہوئی ہے۔
سیمینار کے اختتام پر میجر جنرل (ر) جاوید صاحب نے چائے کی میز پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سارا قصور جماعت اسلامی پاکستان کا ہے، صرف تحریروں، تقریروں سے کچھ نہیں بنے گا۔ بات اس وقت بنے گی جب جماعت اسلامی بنگلہ دیش میں ہونے والے اس وحشیانہ پن پر بھرپور انداز میں سڑکوں پر نکلے گی۔ لیکن جماعت اسلامی فی الحال تو اس موڈ میں نظر نہیں آتی۔ ہم نے عرض کیا کہ طاقت تو ساری حکومت کے پاس ہے، جماعت اسلامی بھلا کیا کر سکتی ہے؟ جنرل صاحب نے کہا کہ حکومتی طاقت کو متحرک کرنے کے لیے جماعت اسلامی کا سڑکوں پر آنا ضروری ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جنرل جاوید صاحب نے بالکل درست کہا۔ اگر واقعی جماعت چاہتی ہے کہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے اکابرین کو ظلم و بربریت سے نجات دلائی جا سکے تو پھر اُسے سڑکوں پر آنا ہو گا۔
تحریر: پروفیسر رفعت مظہر