پیدل چلنے والوں کیلئے فٹ پاتھ تھے، اب کسی ایک سگنل پر رک جائیں تو دو تین منٹ میں 70 موٹر سائیکلیں وہاں ایک دم آ جاتی ہیں۔
1965ء کے لاہور میں لوگ سائیکل استعمال کرتے تھے، جس کیلئے راستے بنے ہوئے تھے جبکہ پیدل چلنے والوں کیلئے فٹ پاتھ تھے۔ اب کسی ایک سگنل پر رک جائیں تو دو تین منٹ میں 70 موٹر سائیکلیں وہاں ایک دم آ جاتی ہیں۔ سائیکل کا رواج ختم کر دیا۔ فٹ پاتھ بنانا ہی بند کر دئیے گئے ساری پلاننگ اس طرح کی ہے کہ لوگ مجبور ہیں کہ موٹر سائیکل استعمال کریں۔ زیادہ فوکس کار والوں کو سہولیات فراہم کرنے میں ہے ،جیسے وزیراعلیٰ نے اعلان کیا کہ سب سے بڑا انڈر پاس بنا دیا، وہ چاہتے ہیں کہ ٹھوکر نیاز بیگ سے سگنل فری روڈ ہو اور کار والے آرام سے چلے جائیں۔ کاریں جب شہر میں زیادہ آئیں گی تو آلودگی میں مزید اضافہ ہوگا۔جب لوگ شہر کا رخ کرینگے اور ان کی ملازمتوں کیلئے فیکٹری لگے گی تو اس سے بھی آلودگی ہو گی ۔دنیا بھر میں ان سب چیزوں کو ریگولیٹ کیا جاتا ہے۔ جیسے بھارت میں جب تاج محل کا رنگ خراب ہونے لگا تو وہاں کی حکومت نے آگرہ سے 40 میل دور واقع آئل ریفائنری کو بند کردیا۔ 20 سال قبل جب نئی دہلی میں آلودگی کافی زیادہ ہو گئی تو بے شمار فیکٹریوں کو بندکردیا گیا۔ ان سارے مسائل کا حل بس اور سائیکل کے فروغ میں ہے۔ بہت سے علاقوں کو اس کیلئے مختص کیا جائے ،ایسی پلاننگ کی جائے کہ لوگوں کی ضروریات ان کے گھروں کے نزدیک ہی پوری ہوں،ان کو دور نہ جانا پڑے ۔ پلاننگ میں عام لوگوں کو بھی شامل کیا جائے جواصل طریقہ کار ہے۔ لاہور کا اندرون شہر اس کی بہترین مثا ل تھا ۔ لو گ اپنی ضرور یات کیلئے ہر جگہ پیدل پہنچ سکتے تھے ۔پھر بتدریج مخصوص مفادات سماج پر حاوی ہو تے گئے۔ جیسے گاڑیاں بنانے والوں کا مفاد زیادہ سے زیادہ گاڑیوں کی فروخت ہے۔ بینکوں کا مفاد زیادہ سے زیادہ کنزیومر فنانسنگ میں ہے ۔ ایک اور بڑا معاملہ ہائوسنگ کا ہے بڑے شہروں میں اپر اور مڈل کلاس زیادہ سے زیادہ 20 فیصد ہے جبکہ لوئرمڈل کلاس جس میں تنخواہ دار طبقہ 40 فیصد ہے اور اس طبقہ کے افراد کی آمدن 30 سے 60 ہزار ہو تی ہے ۔ ان کیلئے گھروں کی فراہمی پر حکومت نے بالکل توجہ نہیں دی ۔ اسکے بعد لو ئر کلاس ہے جس میں شامل افراد کی آمدن 15ہزار ہے ان کے علاوہ ایسے لو گو ں کی بھی بڑی تعداد ہے جو سڑکوں، پلوں اور ریلوے سٹیشنز کے پلیٹ فارم پر سو تے ہیں ،شاہدرہ اور سگیاں پل کی طرف جائیں تو لوگ دریا کے کنارے پڑے ہوتے ہیں ۔ ان کے لئے حکومت نے کچھ نہیں کیا حالانکہ زمین اور وسائل موجود ہیں ،حکومت نجی زمین حاصل کر کے کالونیاں بنا سکتی ہے ۔لوگ پیسہ دینے کو تیار ہیں۔ میں اس سلسلے میں شہبازشریف سے دو مرتبہ ملا، انہیں کہا کہ پلاٹ کی رقم اتنی ہونی چاہیے کہ لوئر مڈل کلاس کا آدمی دے سکے اور قرضے کی سہولت اس میں شامل کریں جیسا کہ دنیا بھر میں ہوتا ہے۔لوگ 20 سال کا قرضہ لے لیتے ہیں اور اس کی قسط دیتے رہتے ہیں۔ لیکن شہباز شریف ان باتوں کو سننے کیلئے تیار ہی نہیں، وہ شارٹ کٹ اوردکھانے کی چیزیں چاہتے ہیں۔
گزشتہ 20 سال سے فلائی اوورز اور انڈر پاسز بنانے کا مقابلہ ہو رہا ہے اور اب اس میں میٹرو بھی آ گئی ۔ پرویزالٰہی نے دعویٰ کیا کہ اتنے انڈر پاسز بنا دئیے ،شہباز شریف نے کہا کہ اتنے فلائی اوورز بنا دئیے۔ میٹرو اور انڈر پاسز ایک محدود آبادی کیلئے ہوتے ہیں ،ان سے صرف چند لاکھ لوگوں کو فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے جبکہ اس وقت لاہور کی آبادی ایک کروڑ 20 لاکھ ہے ۔ ان کی ساری توجہ امر ا پر ہے ۔ جن کو اپنی ضرورت سے 4 گنا زیادہ زمین مل جاتی ہے ۔مثال کے طور پر گلبرگ اور ڈیفنس میں چھوٹے سے چھوٹا گھر ایک کنال کا ہے جبکہ اس میں رہنے والوں کی تعداد 4 ہے جبکہ لوئر مڈل کلاس کے خاندان 6 سے 8 افراد پر مشتمل ہیں اور حتیٰ کہ دو کمروں میں سو لہ افراد پر مشتمل کنبہ رہتا ہے ۔ پوش علاقوں کے مکینوں کو پانی اور بجلی بھی مل جاتی ہے اور اگر نہ ملے تو ان کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ وہ اس کا انتظام خود کرلیں ۔سکیورٹی کیلئے انہوں نے گارڈز رکھ لئے ۔پبلک ٹرانسپورٹ سے انہیں دلچسپی نہیں ہے کیونکہ ان کے پاس دو دو گاڑیاں ہیں ۔سکول ،کلب علیحدہ ہیں۔ دوسری جانب اسی شہر میں بعض لوگ کو ڑے پر پل رہے ہو تے ہیں ۔ایل ڈی اے میں جا کر پوچھیں کہ چیف ٹاؤن پلانرکون ہے ؟ماسٹر پلان کب بنا ؟ معلوم ہو گا کہ ماسٹر پلان ہے ہی نہیں یا پھر وہ فرسودہ ہو چکا ہے اور اب اس کی منظوری نہیں ہوتی۔ماسٹر پلان آئین کی طرح ایک مقدس دستاویز ہوتی ہے۔ یہ مقامی حکومتوں کا نام ہی نہیں لیتے تاکہ وسائل ان کے پاس ہی رہیں۔یو نین کونسل کی سطح پر لوگ اپنے مسائل بتاتے ہیں اور حل کرتے ہیں لیکن یہ انہیں وسائل دینے پر تیار ہی نہیں۔ ہمارے سیاستدان چاہتے ہیں کہ سارا اختیار ان کے پاس ہو ،جہاں چاہیں رنگ روڈ بنا دیں۔جب چاہیں انڈر پاس اور فلائی اوور بنا دیں ،عوام سے تو یہ پوچھتے ہی نہیں۔
شوکت عزیز وزیراعظم تھے تو انہوں نے اربوں روپے کنزیومر فنانسنگ میں دے دئیے ،جس پر وہ بڑے خوش تھے کہ ہم نے ملک میں اتنی کاریں دے دیں ۔چاہیے تو یہ تھا کہ بسوں کو زیادہ چلاتے ،سائیکل کے رواج کو بڑھاتے کیونکہ طویل المدت پلاننگ تو یہی ہے ۔مگر اب پلاننگ سیاستدانوں،ڈویلپرز اور کنٹریکٹرز کے ہاتھ میں آ گئی ہے ۔اگر کوئی ہائوسنگ سوسائٹی بنانا چاہے تو آپ اسے نہیں روک سکتے ،چاہے وہ پلان کا حصہ ہو یا نہ ہو ۔شہر کا ماسٹر پلان جب بنایا جاتاہے تو اس میں تمام ضروریات اور سہولیات کو مد نظر رکھ کر پلاننگ کی جاتی ہے کہ کتنی انڈسٹری لگے گی ۔ٹرانسپورٹ کتنی چلے گی اور کس قسم کی ہو گی اور کہاں پارکس بنیں گے ۔پہلے تو پانچ سالہ منصوبہ ہو تا تھا ۔ اب تو اس کا نام بھی نہیں سنا ۔ دنیا بھر میں بڑی بسیں چلائی جاتی ہیں ،جہاں پیدل چلنے کی جگہ ہو وہاں فٹ پاتھ بنائے جاتے ہیں اور جہاں سائیکل چل سکتی ہو وہاں سائیکل چلائی جاتی ہے ۔ہالینڈ میں سب سے بڑی ٹرانسپورٹ ٹرین ہے اور ہر سٹیشن پر سائیکل سٹینڈ ہے ۔مرد یا خاتون سا ئیکل پر بیٹھ کرسٹیشن آتے ہیں اورجہاں انہوں نے جانا ہوتاہے وہ ٹرین کے ذریعے چلے جاتے ہیں حالانکہ گاڑی ان کے گھر میں کھڑی ہوتی ہے ،جس کو یہ لوگ ہفتے کے آخر پر کہیں جانے یا سامان لانے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔لیکن یہاں پر اگر بچوں کو سکول چھوڑنا ہے ،آفس جانا ہے تو گاڑی چاہیے ۔ 5سو افسروں کو 5سوگاڑیاں لے جارہی ہوتی ہیں اور آلودگی پھیلا رہی ہوتی ہیں ۔کولمبیا،چلی اور برازیل میں لوگوں نے ماڈ ل بنائے ہیں کہ ریپڈ بس ٹرانسپورٹ شہر میں بنیادی چیز ہونی چاہیے ۔گاڑیوں کی تعداد کم سے کم ہونی چاہیے ۔لندن میں زیادہ تر لوگوں کے پاس گاڑیاں ہیں لیکن وہ نکال نہیں سکتے ۔وہ اگر آکسفورڈ سٹریٹ پر گاڑی لائیں گے تو انہیں 10 پائونڈ پارکنگ کے دینے پڑیں گے ۔وہاں لوگ پیدل چلتے ہیں ۔شہروں کے حد سے زیادہ بڑھنے کے مسئلے سے نمٹنے کیلئے اس کی طویل المدت منصوبہ بندی ہونی چاہیے ۔جو صرف شہر تک محدود نہیں ہونی چاہیے بلکہ اس میں ساری چیز یں آ تی ہیں۔دیہاتی علاقے کے فیکٹر کو بھی دیکھنا پڑتا ہے ۔درمیانے درجے کے شہروں کا کیا کردار ہو گا؟آبادی کس شرح سے بڑھ رہی ہے ؟ملازمتیں کیسی ہوں گی؟ان کے بارے میں بھی دیکھنا پڑتاہے ۔لیکن ہمارے ہاں طویل المدتی منصوبہ بندی وفاقی سطح پر نہیں ہے ۔اگر آپ کی توجہ زراعت پر نہیں ہو گی ،اس سے وابستہ لوگوں کو سہولیات نہیں دینگے ،انہیں وہاں روزگار نہیں ملے گا تو پھروہ شہروں کا رخ کرینگے۔