ایک طویل عرصے سے ہر اک ہی یہ جاننے کی جدوجہد کر رہا ہے کہ، آخر خوشی ہے کیا چیز؟ یہ خود ہی مل جاتی ہے یا اس کو حاصل کیا جاتا ہے؟ کیا اس کا ملنا یا حاصل کیا جانا ضروری ہے؟ اگر ہاں تو کیوں؟
دو حادثات کے درمیان وقفہ امن ہے اور ہر دو تکلیف دہ لمحوں کے درمیان وقفے کو سکون سے تعبیر کیا جاتا ہے اور ہرایک سے دوسرے غم کے درمیان وقفے کو خوشی کا نام دیا جاتا ہے۔
مشہور فلسفی ارسطو نے کہا تھا کہ خوش ہونا انسانی زندگی کا ایک اہم مقصد ہے۔ اس مقصد کے حصول میں تو پوری دنیا کے لوگ ہی اپنی زندگیاں بسر کر دیتے ہیں، کوششیں کرتے ہیں، جوڑ توڑ کرتے ہیں، شاید کہ مقصد حاصل ہو جائے اور اسی جدوجہد میں کہیں پھر خوشی گم ہوجاتی ہے۔
مجھے خبر نہیں غم کیا ہے اور خوشی کیا ہے
یہ زندگی کی ہے صورت تو زندگی کیا ہے
جناب!ہمارے نزدیک تو خوش رہنے کا صحت کے ساتھ بھی براہ راست تعلق ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق: “صحت صرف بیماری کی عدم موجودگی کا نام نہیں بلکہ اس سے مراد ایسی کیفیت ہے جس میں ایک فرد جسمانی، ذہنی اورسماجی لحاظ سے مکمل طور پر ٹھیک ہو”۔ اس تعریف کو اگر خوشی کا نام دیا جائے توغلط نہ ہوگا۔
چلیں! یہاں طے کرلیتے ہیں کہ آخر خوشی ہے کیا؟ ایسی ذہنی و جذباتی کیفیت جس میں مثبت و خوشگوار جذبات جنم لیتے ہوں، خوشی کہلاتی ہے۔ خوشی کیفیت کا نام ہے تو یقیناً اس کے کچھ درجات بھی ہوں گےکہ جس کی مدد سے اس کو کیلکولیٹ کیا جاسکے،
پہلے درجے پر بنیادی ضروریات کو رکھیں توخوشی مادی اشیا کا حصول ہے۔
دوسرے درجے پر خودی کی پہچان، دوسروں پر فوقیت و برتری یا فتح ہے۔
تیسرے نمبر پر دوسروں کی مدد، ان کو سکون پہنچانا، خوشی کے زمرے میں آتا ہے۔
آخری نمبر پر براجمان خوشی کو دلی سکون یا اندرونی خوشی بھی کہہ سکتے ہیں۔
خوشی کو سکون، اطمینان اور کیفیت کی نسبت سے دیکھیں تو ظاہری طور پر اس کا اثر صحت پر ہوگا۔ خوش رہنے والے لوگوں کی قوتِ مدافعت زیادہ مضبوط ہوتی ہے اور ایسے لوگ زیادہ لمبی عمر پاتے ہیں۔ خوشی لوگوں کے دلوں میں وسعت پیدا کرتی ہے، طمانیت کا احساس بیدار کرتی ہے اور تکالیف سے گزرنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ خوشی دیگر انسانوں سے تعلقات میں بہتری لانے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ خوش مزاج لوگ رشتوں کو بہتر اور کامیاب انداز سے نبھاتے ہیں۔ ایسے لوگ زیادہ تخلیقی اور تعمیری صلاحیتوں کے مالک بھی ہوتے ہیں۔
ذہنی تناؤ خوشی کو کھا جاتا ہے لہٰذا خوش رہنے کے لیے اس پر قابو پانا ضروری ہے۔ جن لوگوں میں اس سے نمٹنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے، وہ مشکل صورت حال میں اچانک گھبرا جاتے ہیں اور حوصلہ چھوڑ جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ ہر دکھ کے بعد سکھ ہے اور خوشی ہے۔
خوشی کیا ہے اور کیوں ضروری ہے؟ یہ جاننے کے ساتھ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ خوشی ملتی کیسے ہے؟ وہ کون سے ذرائع ہیں جو ہمارے لیے خوشی کا موجب ہوسکتے ہیں؟ یہ بات تو حقیقت ہے کہ لوگوں کی خوشی کے معیار مختلف ہیں اس لیے ان کے ذرائع بھی الگ اور جدا ہیں، مثلاً کسی تخلیق کار کے لئے اس کی تخلیق، کسی شاعر کے لئے اس کی نظم، کسی کرکٹر کے لئے اس کا اچھا سکور، کسی بزنس مین کے لئے اس کی کاروباری کامیابی خوشی کا باعث ہوسکتی ہے۔ اگر ہم توقعات کا دائرہ محدود رکھیں تو زیادہ خوش رہیں گے۔ جتنی زیادہ توقعات، اتنی ہی زیادہ بے اطمینانی ہوگی۔
یوں سمجھ لیں کہ بچے دنیا کی سب سے زیادہ ‘خوش مخلوق’ ہیں۔ جہاں بڑے ہوئے توقعات بڑھتی گئیں، خواہشیں پلتی گئیں اور خوشی ناپید ہوگئی کیونکہ بچے بڑوں کی طرح کینہ اوربغض نہیں پالتے۔ ابھی لڑے تو اگلے ہی لمحے شیر و شکر ہو گئے۔ یہی چیز بڑے بھی اپنی زندگی میں شامل کر لیں تو خوش رہ سکتے ہیں۔ کچھ لوگ روحانیت اور مذہب میں خوشی اور سکون محسوس کرتے ہیں۔ روح اگر مطمعن اور پرسکون ہو تو جسم اور دماغ بھی پرسکون اور خوش رہتے ہیں۔
خوش رہنے کے لیے مزید عوامل طے کرلیتے ہیں کہ جن سے ہمیں خوشی باہم پہنچتی ہے، ان میں قابل اعتبار اور قریبی دوست، محبوب سے مستحکم رشتہ، اپنی صلاحیتوں کے مطابق نوکری، مستحکم معاشی زندگی، دن میں کم از کم تین مثبت تجربات اور جو کچھ زندگی میں حاصل ہے، اس کی قدر کرنا۔ اسی طرح کچھ اور ایسی چیزیں ہیں جو خوشی دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ خدا پر یقین، صاحب اولاد ہونا، مزید تعلیم کاحصول، اچھی صحت اور کچھ ناکامیوں سے تجربہ حاصل کرنا۔
کچھ روز پہلے ایک اچھی خبر اپنے وطنِ عزیز کے بارے میں پڑھی۔ دنیا کے سب سے زیادہ گنجان آباد خطے جنوبی ایشیا میں بسنے والے تقریباً ایک ارب اسی کروڑ لوگوں میں بائیس کروڑ پاکستانی سب سے زیادہ خوش اور شاد ہیں۔
اقوام متحدہ کی سنہ دو ہزار سترہ کی 156 ممالک کے اعداد و شمار پر مبنی ‘ورلڈ ہیپی نس رپورٹ’ کے مطابق اِن ملکوں کی درجہ بندی وہاں بسنے والوں لوگوں کی آمدن، صحت مند زندگی، مشکل وقت میں سہارا ملنے کی توقع، فراخدلی، آزادی اور اعتماد جیسے عناصر کی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد کی گئی ہے۔ ان ملکوں کی درجہ بندی میں پاکستان 75ویں نمبر پر ہے لیکن اس کے باوجود اپنے خطے کے دیگر ملکوں سے کہیں آگے ہے۔ خاص طور پر اپنے ہمسایہ ملک بھارت سے جس کا شمار دنیا کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشتوں میں ہوتا ہے اور جو فوجی لحاظ سے بھی بہت زیادہ طاقت ور سمجھا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان بھارت سے 57 درجے بہتر ہے۔
1970 میں بھوٹان کے بادشاہ نے خوشی کو ایک بنیادی انسانی حق قرار دیا تھا۔ اقوام متحدہ کے تحت ہر سال 20 مارچ کو دنیا بھر میں خوشی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔
1۔ اپنے آپ سے زیادہ دوسروں کا خیال رکھیں، دوسرے لوگوں کو مناسب وقت دیں۔ ان کو اپنی زندگی بہتر کرنے کے لیے بہترین مشورے دیں۔
2۔ ہمارے جسم کا دماغ سے گہرا رابطہ ہے۔ ہماری جسمانی صحت بہتر ہو گی تو ہمیں پریشانیوں سے نجات ملے گی اور اس طرح ہم خوشی محسوس کریں گے۔
3۔ ماضی کی تلخیوں کو بھول جائیں اور مستقبل کے خدشات کو ذہن سے جھٹک دیں۔
4- مزید سیکھنے کا جذبہ ہمارے ذہن کو بیدار رکھتا ہے اور زندگی خوشگوار ہو جاتی ہے۔ نت نئی چیزیں سیکھتے رہیں۔ کائنات کی چیزوں کا گہرائی سے مطالعہ شروع کریں۔ زندگی کا مقصد بلند رکھیں۔ بڑی اور بلند سوچ رکھنے والے لوگ زیادہ خوش رہتے ہیں۔
5۔ اپنی سوچ مثبت رکھیے۔ “آدھا گلاس بھرا ہوا ہے” یہ بہتر ہے اس سے کہ یوں کہا جائے “آ دھا گلاس خالی ہے”۔
آج ہی سے ان باتوں پر عمل پیرا ہو جائیں۔ پھر دیکھیے کس طرح زندگی خوشیوں سے لبریز ہوتی ہے۔