تحریر : شیخ خالد زاہد
جب آپ کچھ کم اچھا کریں مگر سامنے سے آپکی محنت کوآپکے حوصلے کو سرہایا جائے تو آپ کو کیسا لگے گا۔۔۔یقینا آپ کو بہت اچھا لگے گا اور آپ کو احساس ہوگا کہ آپکو اس سے بھی بہتر کرکے دیکھانا ہے۔۔۔آپ کے اندر اور بہتر یا بہتر سے بہتر کرنے کا جذبہ سرہائے جانے سے اور حوصلہ افزائی سے بیدار ہوتا ہے ۔۔۔ایک چھوٹے بچے کو جو ابھی نہیں جانتا کہ اچھا اور برا کیا ہے آپ اسکے اندر یہ فرق پیدا کرتے ہیں کہ اچھے پر شاباشی اور برے پر تنقید یا ڈانٹ ڈپٹ کی جاتی ہے۔۔۔تحقیق اور تجربے سے یہ ثابت ہوا ہے کہ بے جا تنقید اور ڈانٹ ڈپٹ بچے کی شخصت کو متاثر کرتی ہے۔۔۔کیونکہ شائد ایک فیصد لوگ تنقید کو مثبت لیتے ہیں ۔۔۔لیکن ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں اس میں تنقید کا ہونا عام سی بات ہے۔۔۔بڑے، بچوں پر اپنا رعب جمانے کہ درپے ہیں۔۔۔ڈرانے اور دھمکانے پر تلے ہوئے ہیں۔۔۔آج دنیا کہ معاملات بہت آگے نکل چکے ہیں۔۔۔
میڈیا کی مرہونِ منت معاملات اساتذہ اوروالدین کہ ہاتھوں نے نکلتے نظر آرہے ہیں۔۔۔یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ نکل چکے ہیں۔۔۔اب تربیت کی یا بربادی کی ذمہ داری میڈیا نے لے لی ہے۔۔۔خصوصی طور پر یہ کام سماجی میڈیا سر انجام دے رہا ہے۔۔۔ ٹیلی میڈیا اس کا م کا روح ِ رواں ہے۔۔۔بات کرنی تھی سرہائے جانے کی اور نکل گئی بچوں کی تربیت کی طرف۔۔۔جہاں دیکھیں تنقید ہی تنقید ہے۔۔۔ٹیلیویژن پر ہر وقت تنقید ۔۔۔کمرشلز میں ایک پروڈکٹ والے دوسری پروڈکٹ پر تنقید۔۔۔حکومت مخالف ، صبح اٹھتے ہی حکومت پر تنقید شروع کر دیتے ہیں۔۔۔حکومت والے اپنے مخالفین پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔۔۔کرکٹ پر تنقید ۔۔۔ہاکی پر تنقید۔۔۔تعلیمی نظام پر تنقید۔۔
۔کیا معلوم کون سا ایسا موضوع یا معاملہ ہے جس پر تنقید نہ کی جارہی ہو۔۔۔اور تنقید بھی صرف برائے تنقید ہوتی ہے۔۔۔جس سے سوائے الفاظ اور وقت کہ ضائع ہونے کہ کچھ اور نہیں ہوتا۔۔۔شائد تنقید آنے والے وقت میں ہمارا قومی ایجنڈا بننے والی ہے۔۔۔بے جا تنقید کی مرہونِ منت ہماری نئی نسل آگے نہیں بڑھ پا رہی۔۔۔تو دوسری طرف بغاوت پر اتری ہوئی ہے ۔۔۔یہ کہنا بھی درست ہی ہے کہ ذہنی اذیت کا شکار ہو رہی ہے۔۔۔گھر میں تنقید سے باہر نکلیں۔۔۔سڑکوں پر گڑھے روک لیتے ہیں ۔۔۔پولیس والے روک لیتے ہیں۔۔۔ٹریفک والے روک لیتے ہیں۔۔۔سگنلز روک لیتے ہیں۔۔۔سب سے بڑھ کر لوٹنے والے روک لیتے ہیں۔۔۔
نظام کی تبدیلی کی بات ہوتی رہتی ہے۔۔۔کوئی چہروں کی تبدیلی پر زور دے رہا ہے۔۔۔کہیں قانون اور آئین پر بحث مباحثہ چل رہا ہے ۔۔۔تبدیلی تبدیلی کا شور مچا ہوا ہے۔۔۔دراصل ہمیں تنقیدی مزاج میں تبدیلی لانی ہوگی ۔۔۔کرکٹ کی ٹیم ورلڈ کپ کھیلنے دیارِ غیر میں ہے(اللہ کرے آخری میچ تک میدان کی زینت بنی رہے، آمین)۔۔۔ان پر تنقید جاری ہے۔۔۔کیا آپ کی تنقید اب کچھ کرسکتی ہے؟؟؟نہیں! اب تنقید سے کچھ نہیں ہونے والا۔۔۔اب حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔۔۔سرہائے جانے کی ضرورت ہے۔۔۔انکے ٹوٹتے ہوئے حوصلہ کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔۔۔ہماری افواج دنیا جہان کہ جھمیلوں میں پھنسی ہوئی ہے۔۔۔ہر طرف بر سرِ پیکار ہے۔۔۔انہیں حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔۔۔انکی خدمات کو سرہائے جانے کی ضرورت ہے۔۔۔حکومت اور مخالفین ایک دوسرے کہ مثبت اقدامات کو سرہائیں۔۔۔حوصلہ افزائی کریں۔۔۔بچے جو ہمارے کل کہ محافظ ہیں۔۔۔انہیں تنقید کی بجائے حوصلہ افزائی کی تربیت دیں۔۔۔شاباش کا لفظ اپنی روز مرہ کی زندگی کا حصہ بنالیں۔۔۔
برے کاموں پر حوصلہ شکنی کریںمگر ایسے کہ کسی اچھے کام سے موازنا کرکہ جس پر آپ نے شاباش دی ہو یا سرہایہ ہو۔۔۔سرہائے جانے۔۔۔شاباش دینے ۔۔۔اور حوصلہ افزائی کرنے سے معاشرے میں یقینا تبدیلی کے اثار نظر آنا شروع ہونگے۔۔۔آپ اگر ان الفاظ کو اپنی زبان سے ادا کرنے میں اپنی شان میں گستاخی سمجھ رہے ہیں۔۔۔تو تھوڑا سے گردن جھکا کر قابلِ ستائش انداز سے بھی یہ کام کیا جاسکتا ہے۔۔۔تنقید کی جائے مگر برائے تنقید نہیں۔۔۔
آپ کی تنقید میں بھی مثبت پہلو ہونا چاہئے۔۔۔سامنے والے کو محسوس ہو کہ اس کے کام کو اہمیت دی گئی ہے۔۔۔اور تنقید سے ذریعے سے سرہا گیا ہے۔۔۔سرہائے جانے سے تخلیقی عمل بڑھتا ہے۔۔۔خوب سے خوب تر کرنے کی خواہش بیدار ہوتی ہے۔۔۔ اپنی اپنی انا کہ بت توڑئیے اور ایک قدم آگے بڑھئے ۔۔۔آپ کہ اطراف میں کوئی بھی کچھ بھی اچھا کر رہا ہے اور سرہائیے اسکی حوصلہ افزائی کیجئے۔۔۔اسکا عزم و حوصلہ تو بڑھے گا ہی آپکی عزت میں بھی اضافہ ہوگا۔۔۔
تحریر : شیخ خالد زاہد