تحریر: فرخ شہباز وڑائچ
یہ مائیکل ہارٹ ہے بہت بڑا محقق، فزکس جیسے سائنسی مضمون میں کیا خوب علم رکھتا ہے۔مگر فلکیات اس کا موضوع ہے اور اسی میں ڈاکٹریت کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔”ناسا” جیسے معروف امریکی ادارے میں طویل عرصہ کام کرتا رہا،اسی دوران علمی و سائنسی موضوعات پر ریسرچ پیپر بھی لکھتا ہے۔ یہ 1978ء کی بات ہو گی جب مائیکل کے ذہن میں یہ خیال آیا ہے کہ وہ دنیا کے ان عظیم انسانوں پر فہرست ترتیب دے گا جن کے اثرات آج بھی اس دنیا پر قائم ہیں۔ ہارٹ کہتا ہے ”وہ کونسے سو افراد ہیں جنہوں نے تاریخ اور دنیا کے نظام کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔میں نے مرتبے کے اعتبار سے ان سو افراد کی فہرست ترتیب دی ہے
جن میں سے ہر ایک نے انسانی تاریخ اور دیگر انسانوں کی روزمرہ زندگی پر اثر ڈالا۔ان غیر معمولی لوگوں کا گروہ چاہے کتنا ہی نفیس یا قابل ملامت ہو،معروف یا گمنام ہو،تند مزاج یا منکسر ہو،یہ دلچسپ ضرور ہے یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہماری زندگیوں کو مشکل کیا اور ہماری دنیا کو نئے سرے سے ترتیب دیا”یہ کتاب اپنی اشاعت کے بعد فورا ایک متنازعہ کتاب طور پر مشہور ہوئی خاص طور پر مسیحی اور صیہونی قدامت پرستوں کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ یہ تھی اس میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پر اثر ترین سو افراد کی فہرست میں اولین درجہ دیا گیا تھا
لیکن پھر مائیکل ہارٹ کے دلائل جن کی بنیاد پر اس نے ان سو افراد کو منتخب کیا اور پھر ان کی تاریخی اعتبار سے درجہ بندی کی یہ دلائل ہر طرح سے اتنے ٹھوس اور مضبوط تھے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ کتاب لاکھوں کی تعداد میں شائع ہونے لگی اور دنیا بھر کی زبانوں میں اس کے تراجم کئے گئے۔اب تک اس کتاب کے سینکڑوں ایڈیشن فروخت ہو چکے ہیں۔ مصنف نے اس بات کو تسلیم کیا کہ حضرت محمد ۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تاریخ کی واحد ہستی ہیںجو مذہبی اور دنیاوی دونوں محاذوں پر کامیاب رہی او ر آپ نے دنیا کے عظیم مذاہب میں سے ایک مذہب کی بنیاد رکھی اور اسے پھیلایا۔ جی ہاں۔۔۔دین اسلام ہی تو وہ مذہب ہے جو نفرتوں،تفرقوں اور اختلافات کو مٹانے آیا تھا یہی وہ مذہب ہے جس کی آمد کے ساتھ ہی عرب جیسے اجڈ،جاہل اور بد تر معاشرے کی کایا پلٹ جاتی ہے۔
مگر فرانسیسی میگزین کی مذموم حرکت پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔بے شرمی اور ڈھٹائی کی سب حدیں پار کی گئیں۔اظہار رائے کی آزادی کے نام پر دنیا کی عظیم ہستی کی شان میں گستاخی کر دی جاتی ہے۔ مجھے دونوں جہانوں کے لیے سراپا رحمت میرے آقاۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خلق خدا کے لیے رحمت بن جانا یاد آیا۔ ایک غزوہ میں چند بچے لڑنے والوں کی جھپٹ میں آکر مارے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی تو آپ بہت آزردہ ہوئے۔ ایک صاحب نے کہا یارسول اللہ! وہ مشرکین کے بچے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مشرکین کے بچے بھی تم سے بہتر ہیں۔ خبردار بچوں کو قتل نہ کرو۔ ہر جان خدائی فطرت پر پیدا ہوتی ہے۔ ایک دفعہ عید کے روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نواسوں حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے جارہے تھے۔
راستے میں کچھ بچے کھیلتے ہوئے نظر آئے۔ مگر ایک بچہ اْداس سب سے الگ تھلگ بیٹھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریب جاکر پوچھا۔ ”کیا بات ہے رنجیدہ کیوں ہو؟” اس نے جواب دیا میرا باپ مرچکا ہے۔ ماں نے دوسری شادی کرلی ہے۔ کوئی نہیں جو مجھے دیکھے بھالے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ کیا تم پسند نہیں کرتے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارا باپ ہو۔ عائشہ رضی اللہ عنہا تمہاری ماں ہوں اور فاطمہ رضی اللہ عنہا تمہاری بہن۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچے کو ساتھ لیا اور واپس گھر آئے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا۔ ”تمہیں بیٹے کی آرزو تھی یہ تمہار بیٹا ہے۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا تمہیں بھائی کی آرزو تھی، یہ تمہارا بھائی ہے اور فرمایا حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ کے کپڑے لادو”۔مجھ حقیر کا یہ قلم نبی مہربانۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کیا کیا لکھے۔۔۔ مجھے صحرائے عرب میں رہنے والے انسانوں کا خیال آتا ہے جی ہاں !یہی وہ معاشرہ تھا جہاں بچیوں کو پیدائش کے ساتھ ہی زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔ان حالات میں اللہ کے نبی حضور اکرم ۖصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کی زمین پر اللہ کی خالص تائید اور نصرت کے ساتھ ایک ہمہ گیر انقلاب لے کر آتے ہیں تو کیا بچے،کیا بوڑھے ،کیا مرد اور کیا عورتیں سب کچھ یکسر بدل جاتا ہے ایک نور سا چھا جاتا ہے دنیا دیکھتی ہے وہی قوم جو کبھی جاہل کہلاتی تھی ان کی عقل و خرد کی شہرت پورے عالم میں پھیل جاتی ہے۔مجھے مائیکل ہارٹ کے الفاظ یاد آتے ہیں۔لکھنے والا لکھتا ہے۔۔۔
”آپ ۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک انتہائی موثر راہنما ثابت ہوئے آج تیرہ سو برس گزرنے کے باوجود ان کے اثرات انسانوں پر ہنوز مسلم اور گہرے ہیں۔”جی ہاں!آج بھی یہود و نصاری یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ بلاشبہ آپ ۖ ہی دنیاکی عظیم ترین ہستی ہیں جنہوں نے لوگوں کو ایک نئی راہ دکھائی ایک طرف جہالت کے ایسے اندھیرے جو آنکھوں کی بینائی ختم کر رہے تھے ان اندھیروں میں روشنی کی شمع آپ ۖصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہی جلائی۔
میرے پیارے آقا دو جہاںۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خطبہ حجتہ الوداع کے الفاظ یاد کیجیے۔ ”سن رکھو جاہلیت کے دستور میرے پائوں کے نیچے ہیں” ”عربی کو عجمعی پر اور عجمعی کو عربی پر،کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے کوئی فضیلت حاصل نہیں ،پر تم سب آدم کی اولاد ہو آدم مٹی سے پیدا ہوئے تھے” تمہارے غلام، جو خود کھائو وہ ہی ان کو کھلائو جو خود پہنو وہی ان کو پہنائو” ”علم حاصل کرنا ہر مرد وعورت پر فرض ہے” ”میں تم میں ایک چیز چھوڑو جاتا ہوں اگر تم نے اس کو مضبوط پکڑ لیاتو تم گمراہ نہ ہو گے وہ ہے اللہ کی کتاب” ”عورتوں کے معاملے میں خدا سے ڈرو تمہارا عورتوں پر اور عورتوں کا تم پر حق ہے”
بلاشبہ آپ ۖصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا کے تمام انسانوں کے لئے مشعل راہ ہیں۔۔۔میرے آقاۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو بچوں، عورتوں، بوڑھوں سب کے لیے رحمت، شفقت، نعمت تھے۔۔۔ آپ ۖصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظیم فتوحات پر لکھنے والا لکھتا ہے ساتویں صدی عیسوی میں عرب فتوحات کے انسانی تاریخ پر اثرات ہنوز موجود ہیں یہ دینی اور دنیاوی اثرات کا ایک ایسا بے نظیر اشتراک ہے جو میرے خیال میں حضرت محمدۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ متاثر کن شخصیت کا درجہ دینے کا جواز بنتا ہے۔ جی ہاں! یہ کسی مسلمان کے نہیں بلکہ ایک مشرک کے الفاظ ہیں۔۔۔!
تحریر: فرخ شہباز وڑائچ