پیرس (زاہد مصطفی اعوان) فرانس میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ایک سخت گیر گروپ نیشنل فرنٹ کے حمایت یافتہ ایک میئر پر نسلی منافرت پھیلانے کا الزام عاید کیا گیا ہے۔ان میئر صاحب نے اپنے قصبے میں اسکولوں میں زیر تعلیم مسلم طلبہ کی گنتی کی ہے اور اس طرح انھوں نے مذہب کی بنیاد پر مسلم طلبہ کی الگ تھلگ شناخت ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔
فرانس میں نافذ سخت سیکولر قوانین کے تحت حکومت لوگوں کے مذہب یا نسل سے متعلق اعداد وشمار اکٹھے نہیں کرتی ہے لیکن فرانس کے جنوبی قصبے بیزائرس کے مئیر رابرٹ مینارڈ نے کہا ہے کہ ان کی انتظامیہ نے مسلمانوں کے بارے میں جاننے کے لیے اسکولوں کے طلبہ کی فہرستوں کا جائزہ لیا ہے۔
انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ تعداد 64.6 فی صد ہے۔انھوں نے فرانس 2 ٹیلی ویژن چینل سے منگل کی رات گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ”میں معذرت کے ساتھ یہ بتانا چاہتا ہوں کہ مئیر کے پاس ہر جماعت کے طلبہ کے ناموں کی فہرست موجود ہے”۔
انھوں نے کہا:” میں یہ بات جانتا ہوں کہ مجھے ایسا کرنے کا حق حاصل نہیں ہے لیکن معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ نام کے پہلے حصے سے ہی مذہب کا پتا چل جاتا ہے”۔ فرانس کی سوشلسٹ حکومت نے مئیر کے اس بیان کی مذمت کی ہے۔وزیراعظم مینول والز نے ٹویٹر پر لکھا ہے”شیم آن دا مئیر”۔انھوں نے ایک اور یہ ٹویٹ کیا ہے:”جمہوریہ اپنے بچوں کے درمیان کوئی امتیاز نہیں برتتی ہے”۔
فرانسیسی وزیرتعلیم نجات ولود بلکاجیم نے واقعے کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ منارڈ کے بیانات جمہوریہ مخالف ہیں۔اسلامو فوبیا مخالف نیشنل آبزرویٹری کے سربراہ عبداللہ ذکری نے میئر کے بیانات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھیں اس سے صدمہ پہنچا ہے۔انھوں نے کہا کہ ”آپ ایک عملی مسلمان نہ ہوتے ہوئے بھی محمد نام رکھ سکتے ہیں”۔
تاہم بزائرس کے ٹاؤن نے اس امر کی تردید کی ہے کہ اس کے پاس بچوں کے ناموں والی کوئی فہرست ہے یا ایسی کوئی فہرست تیار کی گئی ہے یا مسلمانوں کی شناخت کے لیے کوئی کوشش کی گئی ہے۔