لاہور (ویب ڈیسک) ہر شہری کی آبرو‘ جس میں محفوظ ہو اور ہر زخم کے اندمال کا امکان بروقت اور برمحل بروئے کار آنے والے نظام انصاف کی تشکیل‘ حکومتوں اور سیاستدانوں کی ذمہ داری ہے یا اخبار نویسوں کی؟ دلدل میںدھنسے آدمی کو سجھائی نہیں دیتا۔اندیشے غالب آتے ہیں ‘تو فہم کاچراغ بجھنے لگتا ہے ۔
نامور کالم نگار ہاررون الرشید اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ وفاقی وزیراسی کیفیت میں مبتلا ہے ۔ان کے لئے متعّین کرنا مشکل ہو گیا کہ اب کیا کریں ۔ ایسے میں آدمی فریادکیا کرتا ہے ۔ خود کو مظلوم بنا کر پیش کرتاہے ۔چاہتا ہے کہ اس پہ ترس کھایا جائے اور اس کی مدد کی جائے۔ پیچیدہ گرہیں لیکن ہوش و خرد سے کھلتی ہیں ، زورآوری اور چیخ و پکار سے نہیں ۔ دلیل کو پھیپھڑوںکی قوت درکار نہیں ہوتی۔ وفاقی وزیر کا کہنا ہے کہ ان کی توہین کی گئی اور بہت بری طرح ۔ ان کا اصرار ہے کہ میڈیا کے سامنے ارکانِ اسمبلی بے بس ہیں ۔ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے ‘عزتیں اچھالی جاتی ہیں کردار کشی ہوتی ہے اور ہوتی چلی جاتی ہے۔ پھرایک خاتون وزیر کا حوالہ دیا کہ انہیں رسوا کرنے کی کوشش کی گئی ۔ وہ بیچاری تو رو ہی پڑی ۔اپنے مرحوم بھائی کا محترمہ نے ذکر کیا ،دہشت گردی کے المناک واقعے میں جو شہید ہوئے ۔ اس کی لاش اٹھا کر لائیں اور دفن کی ’’اسی لیے تو میں سیاست میں آئی ہوں‘‘محترمہ نے کہا کہ‘ معاشرے میں وحشت و دیوانگی کا خاتمہ ہو ۔خلقِ خدا کو انصاف ملے۔ فواد چودھری کا مطالبہ بھی یہی ہے ۔ قومی اسمبلی کے سپیکر سے انہوںنے التجاکی کہ منتخب نمائندوں پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے۔ جائزہ لیا جائے کہ میڈیا سے متعلق قوانین پہ عمل درآمد کیوں نہیں ہوتا ۔ بھرے پرے ایوان کی طرف اشارہ کیا اور کہا : ہم میں سے
ہر آدمی پانچ لاکھ ووٹروں کا نمائندہ ہے ۔ کیا ہم اس لیے چنے جاتے ہیں کہ اپنی عزت برسرِ بازار رکھ دیں ۔اورہرراہگیر اس پر جوتے برسایا کرے۔ اس سے قطع نظر کہ کون قصوروار ہے ، فوادچوہدری کی فریاد پہ غور کرنا چاہیے۔ کسی بھی شخص پر جھوٹے الزامات کیوں لگیں ۔ اسے تماشہ کیوں بنایا جائے ۔ دنیا کی نظروں کے سامنے ، اپنے اعزّہ و اقارب کے سامنے وہ سبک سار کیوں ہو ؟ توہین کے احساس کی شدت میں‘ وزیر صاحب نے یہ بھی کہا : ہمارے گھروں میں مائیں ، بہنیں اور بیٹیاں ہیں ۔ کردار کشی ہوگی تو اپنے گھروں میں خفیف ہو کر بے معنی ہو جائیں گے ۔ ان جملوں میں چھپا ہوا ایک پیغام اور بھی ہے کہ پھر حکومت کی کیا حیثیت باقی رہے گی ۔ ریاست کا کاروبار چلے گا کیسے ۔ ارکانِ اسمبلی اور وزرائِ کرام کو تحفّظ چاہئیے ،بجا فرمایا ، بالکل بجا فرمایا۔کسی قوم کے رہنما ہی اگر بے توقیر ہوں تو عامیوں کا کیا ہو گا؟ ۔ہاں!مگر جو دلیل اس ذہین اور لائق وکیل نے ارزاں کی وہ حیران کن ہے ۔ کہا کہ فوج اپنا تحفظ کر سکتی ہے ۔ عدلیہ بھی کر سکتی ہے مگر ہم سیاستدان نہیں ۔ عزت و توقیر کے سزاوار کیا فقط حکمران طبقات ہیں ؟‘ عام لوگ کیوں نہیں؟ایک جنرل محترم ہے لیکن کیا وہ سپاہی نہیں اپنا سر ہتھیلی پہ رکھے جوکسی برف زار میں شب پھر چوکنا کھڑا رہتا ہے۔معزز معاشرے میں عدالت زیادہ محترم ہوا کرتی ہے ۔کسی جج کی تکریم دوسروں
سے زیادہ ہونی چاہئیے۔ ہمارے زرّیں عہد میں قاضیوں کی مراعات حاکموں سے زیادہ ہوا کرتیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا اس کلرک کی کوئی عزت نہیں ، سرما کی بارش ‘ ہڈیوں میں گودا جما دینے والی ٹھنڈ میں صبح سویرے بس سٹاپ پہ جو جا کھڑا ہوتاہے ۔ اس سپاہی کے بغیر زندگی نظامِ زندگی کیسے چلے گا ؟ اس عدالتی اہلکار کے بغیر؟ اللہ نے اپنی کائنات ایک خیرہ کن تنوع میں پیدا کی ہے ۔بے شک جنرلوں ، ججوں اور سیاست دانوں کے بغیر ، افسر شاہوں کے بغیرکاروبارزندگی رسان سے نہیں چل سکتا ۔کیا کسانوں ، کلرکوں ، چپراسیوں ، ڈرائیوروں اور باورچیوں کے بغیر چل سکتا ہے ؟ اس خادم کے بغیر ، صبح سویرے اور شام ڈھلے، جو وزرائ، ججوں اور جنرلوں کے دفتر آراستہ کرتا ہے ؟اس قابل انہیں بناتا ہے کہ کچھ کر دکھائیں۔پرائمری سکول کے اس استاد کے بغیر‘ گرد بھرے راستوں پر جو اپنی بائیسکل پہ سفر کرتا ہے۔افسر‘ لیڈر ‘ جج اور جنرل بن کر‘ جس کے شاگرد شان و شوکت سے ہم کنار ہوتے ہیں۔فرماں روائی فرماتے ہیں۔ مکّہ مکرمہ میںایک نوجوان مجمعے کے درمیان کھڑا تھا۔ ایک دوسرا نوجوان بھی۔امیر المومنین عمر فاروقِ اعظمؓ نے کہا : مارو ، اسی طرح گورنر کے بیٹے کو مارو ، جس طرح اُس نے تمہیں مارا تھا ۔ یہ کون گورنر تھا؟ جنابِ عمر و بن العاصؓ۔ چار ہزار سپاہ کے ساتھ جنہوں نے فراعین کی سرزمین فتح کر لی تھی۔ دریائے نیل کی زرخیز وادیاں ۔ ہزاروں برس پہلے جہاں گندم کا بیج بویا گیا ۔ جہاں دنیا کے اوّلین شہروں میں سے کچھ شہر بسے ۔
عمر و بن العاصؓ ، جنہیں عالمِ عرب کے تین دانائوں میں شمار کیا جاتا ۔ کوئی قتل سرزد تھا ‘کسی یتیم اور مسکین کی جائیداد پہ قبضہ ہوا تھا اور نہ کسی کو برسرِ بازار گھسیٹا گیا تھا ۔ اس کے باوجود امیر المومنین ناراض تھے۔ جتلانے پر مصر کہ حکمرانی کے خنّاس کو پامال کر دینا چاہیے۔ طاقت اور اختیار وحشت پیدا کرتے ہیں ‘ برگزیدگی کا احساس ۔ وہی دو ٹانگوں اور دو پائوں والا‘وہی 1350سی سی کے ذہن والا ویسا ہی آدمی ‘یہ سمجھنے لگتا ہے کہ وہ بزرگ و برتر ہے ۔ افضل اور اکبرہے۔ یہی تاریخ ہے‘ آدمی کی پوری تاریخ یہی! ہر صاحب ختیار برہمن ہے۔ وزیر اعظم تو خیر دیوتا ہوا کرتاہے۔ سات یوٹرن کیا‘ سات خون اسے معاف ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کے سربراہ برہمن ہیں۔ وہی ٹکٹ جاری کرتے ہیں۔ وزارتیں وہ عطا کرتے ہیں۔ واویلا برحق‘ ایک بات تو بتائیے۔ ان سے پوچھے بغیر‘ حتیٰ کہ مطلع کئے بغیر‘ فیصلے جب صادر ہوتے ہیںتب انہیںتوہین کا احساس کیوں نہیں ہوتا؟۔ بندہ و آقا کے اس سماج میں طاقت اس کی ہے‘ عزت اس کی ہے‘ دوسروں کو جو دہشت زدہ کر سکتا ہے۔ جو سزا دے سکیں‘ جو جزا پہ قادر ہوں۔ کیاسیاسی پارٹیاں اسٹیبلشمنٹ کی دہلیز پہ جھکتی اور اقتدار کی بھیک نہیںمانگتیں؟۔ کیا ابھی کل پرسوں نہیں مانگی تھی؟کیا آج نہیں مانگی؟ اخبار نویس کو ہرگز یہ حق نہیں کہ کسی کی توہین کرے۔ ثبوت اور استدلال کے بغیر الزامات عائد کریں۔ فواد چودھری نے ٹھیک کہا کہ برطانیہ میں ایسی جسارت کوئی کرے تو اس کی جائیداد بک جائے۔جائیداد ہی نہ بکے نکّوبن کررہ جائے۔ عمران خان کے خلاف بوتھم کے مشہور مقدمے میں‘ ان کے وکیل نے خان صاحب سے یہ کہا تھا؛اگر آپ نے غلط بیانی کی تو کھڑے کھڑے میں دستبردار ہو جائوں گا۔ آپ کی وکالت سے دستبردار ہو جائوں گا۔ خان صاحب جیت گئے۔ اس لئے جیت گئے کہ حق پر تھے۔ ایک انصاف پسند معاشرے میں فضیلت سچائی کی ہوتی ہے مرتبے کی نہیں۔باقی سب معلوم ہے‘ یہی ایک نکتہ ہماری اشرافیہ کو معلوم نہیں۔ لاکھوں‘ کروڑوں افتادگان خاک کے اس معاشرے میں بالاتروں کی توقیر ڈنڈے کے بل پر ہے‘جعلی توقیر!۔ عام آدمی توہر لمحہ توہین کے خوف میں مبتلا رہتا ہے۔ پٹواری اور کانسٹیبل کے سامنے کھڑا وہ کانپتا رہتا ہے۔ کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں؟ شرفِ آدمیت کا ادراک ہی نہیں‘ احساس ہی نہیں تو رونا کیا۔ پھر یہ فریاد اور واویلا کیا؟۔اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔ سیاست اور عسکریت کیا‘ میڈیا کے مجاور بھی۔ ہر شہری کی آبرو‘ جس میں محفوظ ہو اور ہر زخم کے اندمال کا امکان بروقت اور برمحل بروئے کار آنے والے نظام انصاف کی تشکیل‘ حکومتوں اور سیاستدانوں کی ذمہ داری ہے یا اخبار نویسوں کی؟