تحریر: پروفیسر علامہ ظفر اقبال فاروقی
جہاناں وِچہ نیں تھاں تھاں تے بڑے احسان زہرا دے
نبی ۖدے دین تے ہوئے پتر قربان زہرا دے
انوکھے نیں جہاناں توں نرالے نیں جواناں چوں
جو پترنوک نیزہ تے پڑہن قرآن زہرا دے
حسینی سادات ِعظام کے اس بے مثال خانوادہ نے صفحات تاریخ کو اپنے انمول جواہر سے مزےّن کیا ہے جن میں متعدد علماو فضلا، فقراو فقہا، اطباو نجبا، شعرا، سیاسی و مذہبی قائدین، سرکاری و غیر سر کاری افسران، ماہرین اقتصادیات، سفیران، وزراء مملکت اور جملہ امور زندگانی کی نامور شخصیات شامل ہیں جن کے تذکرہ کے لیے علیحدہ کتاب درکار ہے۔
حضرت سیدنا جعفر بن الحسن ،قاضی ٔ مدینہ اور نقیب مسجد نبویۖتھے۔آپ کی خدمات تاریخ اسلام میں نمایاں ہیں۔آپسیدنا امامزادہ ہارون بن امام موسیٰ کاظم کے پڑپوتے تھے۔صاحب کرامات اور ولی کامل تھے۔ قم المقدس میں ایک عالیمرتبت زیارت،سیدنا جعفر دقّاق کی ہے۔آپ اسی خانوادہ عالیہ کے دمکتے ستارے ہیں۔آپ کا مزار مرجع خلائق ہے۔ امیر کابطوس،سید علی بن المحسن بن الحسین الجندی بن موسیٰ بن محمد بن احمد بن امامزادہ ہارون بن سیدناامام موسیٰ کاظم اکابر مشاہیر خانوادئہ سادات موسویہ الکاظمیہ ہارونیہ میں سے ہیں۔
آپ سیدنا ہارون ولایت شہید کی چھٹی پشت میں آتے ہیں۔ سیدنا ہارون ولایت کے فرزند عالیقدر حضرت احمد کے فرزند جناب محمد کے صاحبزادے سید شاہ حسین زنجیر پاکے فرزند حضرت سید حسن ابدال کاظمی ولی قندہاری صاحب کشف وکرامات اولیاء اللہ میں سے تھے ۔اوائل حیات میں عازم حجاز ہوئے اور زیارتِ حرمین سے فیضیاب ہوکر کچھ سال وہاں گزارکر ترکی کے راستے سبزوار تشریف لائے۔حاکم خراسان شاہرخ میرزاتیموری فرزند امیر تیمور (٨٠٧تا٨٥٠ھ)آپ کا عقیدت مند تھا ۔تبلیغ اسلام کے سلسلہ میں وارد ہند ہوئے اور مقام مابین ملکوال وراولپنڈی سکونت اختیار کر کے تبلیغ دین متین میں مصروف ہوئے ۔عوام الناس کو معارف ِدین سے سیراب کیا ۔آپ کی قیام گاہ کے گرد رفتہ رفتہ آبادی ہونے لگی اور اہل عقیدت اس آبادی کو آپ کے نام سے جاننے لگے ۔وہ جگہ ”حسن ابدال ”کے نام سے معروف ہوئی ۔طویل عرصہ معارف اسلام کے قلزم بہا کر آپ واپس قندہار تشریف لے گئے اور واصل بحق ہوئے۔آپ کا مزار قندہار کے سرسبز وشاداب پہاڑ کے دامن میں مرجع خلائق ہے ۔یہ مقام اہل قندہار میں ”مزار بابا ولی ”کے نام سے جانا جاتا ہے۔
قندہار شہر کے پانچ دروازے ہیں جن میں سے ایک آپ کے نام سے منسوب ہے اور اس پر ”دروازئہ بابا ولی ”رقم ہے ۔آپ کے فرزند سید محمد ،ان کے فرزندسید علاء الدین ،ان کے فرزند سید شمس الدین ،ان کے فرزند سید عین الدین ،ان کے فرزند سید شیر قلندر ،ان کے فرزند سید شاہ ،ان کے فرزند سید بزرگ ،ان کے فرزند سید اما م الدین ،ان کے فرزند سید علی ،ان کے فرزند سید مرتضٰی ،ان کے فرزند شیخ الاسلام سید میر صفائی جلیل القدر عالم ،فقیہ وفلسفی اور شاعر تھے۔ یکتائے علم وعمل اور فکر وفلسفہ تھے ۔یہ شعر آپ سے منسوب ہے ، شجر عشق بہ ہر جا کہ دواند ریشہ مژئہ مور کند کار ہزاراں تیشہ ۔آپ فرماتے ہیں ؛
سر منزل ما نیز ہوائی دارد ویرانہ غم نیز بجائی دارد
دیوانہ ٔ دل مرا ملامت مکنید این وادیء نیز صفائی دارد
فرمانروائے سندھ، شاہ ارغون ،سلطان محمود کوکلتاش (ولادت ٨٩٨ھ،وفات ٩٨٢ھ١٥٧٤ء )کے والد ناصر الدین میر فاضل کوکلتاش (وفات ٩٢٨ھ)حضرت حسن ابدال قندہاری کی درگاہ سے خصوصی عقیدت رکھتے تھے ۔سندھ پر قبضہ کے بعد قندہار کے سادات حسینی ترمذی وسبزواری نے سندھ کا رخ کیا ۔حکمراں طبقے نے ان سادات کی پذیرائی کی اور مختلف مقامات پہ جاگیریں عطا کرکے امور سلطنت میں شامل کیا ۔اسی دور میں سید میر صفائی حسینی سیہون اور پھر سکھر میں شیخ الاسلام اور قاضی القضاة رہے ۔ آپ نے سکھر میں ایک عظیم الشان جامع مسجد تعمیر کروائی اور تبلیغ دین متین فرمائی۔
صدر ِدیں سید صفائی الحسینی ترمذی رہنمادین محمد،ہادیء لات وعزیٰ
بلبل ِ باغ کرامت بودآںصاحب سخا بر سر غربا کشادہ کو دو دستش از عطا
تاج سر معصوم شاہ تاج سرش بُدمرتضٰی بر شریعت بود قائم واصل درگاہ ِخدا
انہوں نے سیہون کے گھابڑوٹی (سبزواری)سادات میں میر سید کلاں خبر رساں موسوی سبزواری(مدفون سیہون )کی دختر سیدہ بی بی کلاینہ سے عقد کیا جن سے تین بیٹے میر ابو القاسم ،میر محمد فاضل ،اور سات رمضان المبارک٩٤٤ھ مطابق ٧ فروری ١٥٢٨ء بروز سوموار سکھر کے مقام پر سید میر محمد معصوم متولد ہوئے ۔ذیقعد ٩٩١ھ،نومبر ١٥٨١ء میں وصال ہوا۔
ماہ قرشی سید صفائی کافراشت فلک لوائی نورش
ناگای از ایں جہان گہ سیر افتاد بآں جہاں عبورش
نامی ز برایی سال تاریخ گفتا ، پرنور باد گورش ٩٩١ھ
بود نامی صاحب ملک سخن١٠١٤ھ ،میر معصوم بکھری گورنر سندھ
محسن سندھ جناب سید میر محمد معصوم شاہ بکھری یگانہ دہر اور فخر روزگار ہستی ہیں ۔آپ سیدنا امام موسیٰ الکاظم کی ذریت طیبہ میں سترہویں پشت (١٧)میں آتے ہیں۔ ابتدائی تعلیم ملا کنگری سے حاصل کی بعدہ کاملین اساتذہ سے استفادہ کیا۔ آپ نہایت وجیہہ،خوبصورت ،قد آور اور دلیر تھے ۔بچپن سے لے کر عالم شباب تک فنون سپہ گری اور تیغ زنی کاذوق وشوق سیرت میں غالب رہا۔آپ کی جرات وبہادری کے کارنامے اس نواح میں مشہور ہونے لگے اور ان کے رعب وجلال سے عوام وخواص مرعوب ہونے لگے۔یہ زمانہ محمود خان حاکم سندھ کا تھا ۔اس نے متفکر ہو کر ان واقعات کی اطلاع جلال الدین اکبر بادشاہ کو دی۔
جلال الدین اکبر صاحبان کمال کا قدر دان تھا ۔فوراًاپنی فوج کا افسر مقرر کیا ۔اس وقت آپ کی عمر اڑتیس سال تھی۔اجمیر اور دوسرے معرکوں میں بر سر پیکار رہتے بیس سال تک کارہائے نمایا ں سرانجام دیے جن میں ایدر کی لڑائی ٩٨٤ھ١٥٧٦ئ،بہار وبنگال کی لڑائی ٩٨٨ھ١٥٨٠ئ،بنگال میں ایک اور لڑائی ٩٩١ھ١٥٨٤ء اور گجرات کی مہم ٩٩٢ھ١٥٨٤ء معروف ہیں ۔قیام گجرات میں آپ نے طبقات اکبر ی (١٠٠٢ھ) کے مصنف خواجہ نظام الدین احمد کی معاونت کی ۔اسی دوران آپ کو تاریخ سندھ لکھنے کا خیال آیا ۔قیام گجرات کے دوران ہی ٩٩٨ھ١٥٨٩ء آپ کو لاہور پہنچنے کا حکم ملا جہاں آپ نے اکبر اعظم سے ملاقات کی ۔اکبر بادشاہ آپ کو قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھتا تھا ۔شوال ٩٩٨ھجولائی ١٥٩٠ء اکبر اعظم کی جانب سے ٹھٹھہ کی فتح کا حکم جاری ہوا۔
اس دوران آپ کی والدہ سیدہ بی بی کلاینہ نے اسے خط لکھا کہ جس ماں کا اکلوتا بیٹا بیس سال تک نگاہوں سے اوجھل رہے اس ماں کا دل کیا کہتا ہو گا جبکہ میرا صاحبزادہ بادشاہ کی ملکی فتوحات میں جانبازی اور وفاداری کی جوہر دکھا رہا ہے اور اپنی جان کی پرواہ نہیں کرتا ۔کیا بادشاہ سلامت کے عدل خسروانہ سے یہ امید کر سکتی ہوں کہ میرے بیٹے کو میرے آخری سانس تک اس علاقے کا حاکم تعینات کر دے۔
بادشاہ اس خط سے بہت متاثر ہوااور میر معصوم کو دربیلا(نوابشاہ )،کاکڑی، چانڈ کا پر گنہ کی جاگیر عطا کر کے ١٠١٥ھ میں سندھ کا گورنر مقرر کیا ۔آپ ١٤صفر ٩٩٩ھ ١٢دسمبر ١٥٩٠ء کو سکھر پہنچے ۔ان کے ساتھ عبدالرحیم خانخاناںبھی ٹھٹھہ کو فتح کرنے کے لیے لاہور سے سکھر پہنچا ۔ضروری تیاری اور آرام کے بعد خانخاناں ٹھٹھہ کو فتح کرنے کے لیے بکھر سے نکلے۔ حکم کے مطابق میر محمد معصوم بھی اسی مہم میں شامل تھے۔
ٹھٹھہ پر مرزا جانی بیگ کی حکمرانی تھی ۔جنگ شروع ہوتے ہی ترخانوں اور خانخاناں کے مابین زبردست معرکے ہوئے اور جنگ کا دائرہ سیہون ،عمر کوٹ،نصر پور ،بدین اور ٹھٹھہ تک پھیل گیا ۔زبردست خون خرابہ کے باوجود بھی مغل لشکر فتح حاصل نہ کرسکا ۔بالآخر صلح کی کوششیں ہوئیں اور مرزا جانی بیگ اور عبدالرحیم خانخاناں کے درمیان ٢٦محرم ،١٠٠٠ھ١٧اگست ١٥٩١ء معاہدہ طے پایا ۔جنگ ختم ہوئی اور ٹھٹھہ کا مغل سلطنت سے الحاق کیا گیا۔
جنگ کے خاتمے کے بعد میرمحمد معصوم فارغ ہو کر تعطیلات میں بکھر آئے اور تین برس(١٠٠١ھ تا ١٠٠٣ھ مطابق ١٥٩١ء تا ١٥٩٣ء )تک بکھر میں رہے ۔خاندانی قبرستان کی تزئین وآرائش ،والد اور بھائی کی قبر کے کتبے سجا کر محفوظ کیا ۔مختلف عمارتوں اور تعمیرات کی بنیاد رکھی ۔سندھ کی گورنری کے دوران آپ نے رفاہ عامہ کے لیے بہت سی سرائیں، درسگاہیں ، مساجد اور عید گاہیں بنوائیں ۔غرباء ،مساکین ،بیوائوں اور یتیموں کی ہرممکن اعانت کرتے رہے۔
تین سال گزرنے کے بعد ١٠٠٣ھ١٥٩٥ء میں سبی میں افغانوں نے بغاوت کر دی ۔ انہیں میر ابوالقاسم نمکین کے ساتھ سبی کے لیے فوجی مہم پر مامور کیا گیا جس باعث مغل حکمرانوں کو قندہار ومکران تک رسد کی آسانی ہوئی ۔میر معصوم سبی کی مہم سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ شاہی حکم کے مطابق انہیں ”اڑھائی صدی ”منصب دے کر قندہار روانہ ہونے کو کہا گیا جو آخر میں”ایک ہزار”تک جا پہنچا۔میر صاحب بکھر واپس آنے کی بجائے قندہار چلے گئے۔
قندہار میں انہوں نے چار سال (١٠٠٣ھ١٥٩٥ء سے ١٠٠٧ھ١٥٨٩ئ)تک فوجی خدما ت دیں ۔١٠٠٨ھ١٥٩٩ء میں انہیں قندہار چھوڑنے کا حکم ملا اور وہ سبی اور شال سے ہوتے ہوئے بکھر پہنچے اور بعد میں جیسلمیر کے راستے آگرہ پہنچے ۔آگرہ پہنچے تو برہانپور کے لیے جنگی تیاریاں عروج پر تھیں ۔اکبر اعظم خود اس مہم میں شریک ہو رہے تھے ۔ یہ مہم دو سال (١٠٠٨ھ١٥٩٩ء سے ١٠٠٩ھ١٦٠٠ئ)تک جاری رہی ۔بالآخر مغل لشکر نے خاندیش پر قبضہ کر لیا ۔اس جنگی مہم میں میر معصوم بھی شامل رہے ۔اس فوجی مہم کی کامیابی کے بعد میر معصوم آگرہ لوٹ آئے ۔اس زمانہ میں مغل حکومت کو ایران کی طرف سفارت بھیجنے کی ضرورت پڑی جس کے لیے میر معصوم کا انتخاب کیا گیا ۔اسی زمانہ میں اکبر بادشاہ نے آپ کو ”امین الملک ”کا منصب دیا۔
١٠٠٩ء میں آپ ایران جانے کے لیے آگرہ سے بکھر پہنچے ۔ضروری ساز وسامان اور تیاری کے بعد ١٠١٠ھ میں ایران کے لیے روانہ ہوئے ۔اس موقع پر جلال الدین اکبر نے اپنے مراسلہ میں شاہ ِ فارس کوآپ کے تعارف میں لکھا ،”سیادت ونقابت آثار، افادت واضافت دثار، محرم بزم جلالت ، اسا س مخصوص الطاف واعطاف عنایت اقتباس ، امین الملک میرمحمدمعصوم بکرکہ ازاجلہء سادات ایںبلاداست وبمزیدمراتب اخلاص ورواتب اختصاص مخصوص وممتاز ‘ ‘آپ جس مقصد کے لیے ایران بھیجے گئے اس میں کامیابی ہوئی ۔ایران کے بادشاہ عباس صفوی سے ملاقات اور طرفین میں خطوط وتحائف کا تبادلہ ہوا۔کامیاب سفارتی دورے کے بعد ١٠١٣ھ١٦٠٤ء میں وطن لوٹ آئے۔
شاعر، مئورخ اورصاحب قلم وقرطاس ہونے کے باعث ایران کی ادبی دنیا نے خوب پذیرائی کی ۔علمی وادبی مجالس کا اہتمام کیا گیا۔ آپ سے ملاقات کرنے والے دو دانشوروں تقی کاشی نے ١٠١٢ھ میں اپنے تذکرے ”خلاصة الاشعار ”اور ١٠١٣ھ میں تقی اوحدی نے ”عرفات العاشقین ”میں آپ سے ملاقات کا احوا ل درج کرتے آپ کی تعریف کی ہے ۔ایرانی حضرات کے علاوہ آپ کے معاصرین دو ہندی دانشوروں خواجہ نظام الدین احمد نے ”طبقات اکبری” اور ملا عبدالقادر بدایونی نے ”منتخب التواریخ ” میں آپ کا ذکرشایان ِشان کیا ہے۔
سفارت ایران سے واپس ہوتے وقت بکھر سے آگرہ پہنچے ۔چند ماہ بعد شہنشاہ اکبر ١٤جمادی الاول ١٠١٤ھ ١٧اکتوبر ١٦٠٥ء کو فوت ہوئے اور جہانگیر بادشاہ بنے ۔اس وقت میر معصوم دربار میں موجود تھے ۔رمضان ١٠١٤ھجنوری ١٦٠٦ء جہانگیر سے اجازت لے کر بکھر روانہ ہوئے ۔بکھر پہنچنے کے بعد دو ماہ بعد بروز جمعہ ٦ذی الحج١٠١٤ھ٤ ٠ اپریل ١٦٠٦ء راہی عدم ہو گئے۔
سال فوتمازخردجستم بگفت بود نامی صاحب ملک سخن١٠١٤ھ آپ کی زوجہ رقیہ بی بی دختر سید محمد شاہ کاظمی قندہاری کے بطن سے ایک فرزند سید میر بزرگ کلاں پیدا ہوئے جن کے صلب سے ایک دختر (زوجہ خواجہ محمد چشتی مودودی ) اور دو پسران میرزا قندہاری اور سید محمد زکریا شاہ پیدا ہوئے ۔سید محمد زکریا شاہ کے دو صاحبزادے سید محمد اور سید علی شیر شاہ تھے ۔سید علی شیر شاہ مغلیہ عہد حکومت میں گجرات کے حاکم رہے۔ میر معصوم کی اولاد سادات معصومی کہلاتی ہے اور پرانا سکھر معصومی محلہ میں آباد ہے۔
میر معصوم بھکری جہاں فرمانروا،جنگجو سپہ سالار تھے وہیں علم وادب میں بھی بلند مقام رکھتے تھے ۔عہد حاضر میں آپ گورنر ،سپہ سالار ، ،سفیر ،امیر اور جاگیر دار اور سیاستدان ہونے سے زیادہ ایک مصنف ،شاعر اور مئورخ معروف ہیں۔
در مذہب ما بجملہ یکسان میباش در دائرئہ کفر بایمان میباش
اینست طریق عشق جانانہء ما زنار بگردن ومسلمان میباش نامی
بارگاہ حیدر کرار میں نذرانہء عقیدت پیش کرتے فرماتے ہیں ؛
شہ ِ دین ودنیا علی الولی وصی ووفی جانشین نبیۖ قدمہاش بر باز ویی شد سوار کزو بازویی شرع شد استوار قایلہ نواب امیر محمد معصوم الحسینی النامی تخلصاًوالبکری مسکناً در وقتی کہ از ہند برسالت ایران آمدہ بود اینجارسید،١٠١٣ہزار وسیزدہ
قندہار کی گورنری کے دوران اپنے خاندان کے ایک بزرگ سید محمود شیر قلندر کے مزار پر یہ اشعار کندہ کروائے ،
درین آرام گاہ بی رہ و رو اگر مردی ! منہ دل یکسر مو
از ایں منزل کہ یاراں در رحیل اند ترا آں جملہ در رفتن وکیل اند
ترا گر آسماں منزل نشین است ہم آخر جایی تو زیر زمین است
بیا نامی! بہ کار خود بگرئیم زمانی بر مزار خود بگرئیم
سفارت ایران کے دوران تربت جام میں حضرت احمد جام زندہ پیر کی درگاہ پہ حاضری دی اور یہ اشعار کندہ کیے ؛
مرشد نامی شیخ گرامی احمد جامی عمر برہ
سال وفاتش گر تو بجوئی احمد جامی قدس سرہ حررہ محمد معصوم بکریی نامی ١٠١٢ھ
شاہ خراسان ،امام الرئوف ،آٹھویں خلیفہء راشد ،سیدنا امام علی ابن موسیٰ الرضا کی بارگاہ میں جبین نیاز خم کرتے یہ قصیدہ پیش کیا؛
خواہم سری بگنبد مینا برآورم زیں دامگہ سری بتماشابرآورم
از آہ دم بدم بفلک نردبان نہم خود را ازیں نشیب ببالابر آورم
آراستند از پئی ما باغ خلد را خواہم سری بدیدن آنجا برآورم
خواہم بسان روح مجرد شوم زخود تا خویش را بمسکن علیا بر آورم
پرواز کردہ دل بسوی قاف قرب دوست ہر دم زشوق شہپر عنقا بر آورم
زیں نقش پایی ناقہ کہ ہر روز گم شود پیی گیر بیی کنم ،پیی ایں پا برآورم
خواہم چو گرد باد کنم دھر گر دمی پرکار وش سر از خط دنیا بر آورم
دنیاست کم زیک سر موی ،کجاست چشم کایں مویی را ز دیدہء بینا بر آورم
ہر شب در ایں رواق بلند از شگاف صبح خورشید وار سر بتماشا بر آورم
زاَھن دلی ء دوست اگر نالہ میکنم آتش چو برق از دل خارا بر آورم
تا دامنش کشم بسویی خویش دمبدم دست ہوس زجیب تمنا بر آورم
از شوق ماہ رویی تو بر ہر سر نگاہ چشمی دگر زبہر تماشا بر آورم
در آرزوی رویی تو ہر شام تا سحر دست از پیء دعا بتقاضا برآورم
درد ِترابقیمت صد جاں خریدہ ام مشکل دگر کہ دل بمداوابر آورم
بندم زبان گفت وشنو زاھل روزگار حرفی زوصف خسرووالا بر آورم
در مدحت علی رضا شاہ ِاولیا ہر دم زباں چو بلبل گویا برآورم
از بہر طرف مرقد آں شاہ جن وانس خواہم زدیدہ از مژہ ہا پا بر آورم
اول قدم بکرسیی خورشید پانھم تا سر از اں حریم معلابر آورم
بوسم چو آستان درش را بکام دل کام دلِ ھزار تمنا برآورم
خواہم پیی مشاہدہ چوں خوشہء عنب سر تا بپایی دیدہ زاعضا بر آورم
بینم گہ سجود درش عرش زیر پا شد فرض ازاں کہ کہ سجدہ مثنیٰ بر آورم
از بس کہ بیکنار بود ابر بخششت من دامن امید چو دریا بر آورم
کلک مراست معجزئہ عیسوی ازاں از نوک خارش ایں ہمہ خرما بر آورم
گردد قلم عطارد وخورشید محبرہ از آستین چو دست با ملا برآورم
ہر گہ کہ مشکبار شود دودہ ام زکلک دود از دماغ عنبر سارابر آورم
در روزگار مایہء کان دگر شود ہر نکتہ کان ز کلک گھر زا بر آورم
ہنگام فیض بخشیی و وقت اجابتست نامیی بیا کہ دست دعا را بر آورم
یا رب بحق قبلہ ہشتم شہید طوس کاندم کہ جان زقالب سودابر آورم
جسم مرا بہ مشہد آں مقتدا سپار تا آنکہ سر زجنت اعلیٰ برآورم
جلال الدین اکبر کے بعد جہانگیر کی تخت نشینی کے وقت آپ دربار مغلیہ دہلی میں موجود تھے۔
اس موقع پر آپ نے چوتھے مغل فرمانروا کے بارے میں کہا ،
شاہ ِجہاں چوں گرفت جایی بتخت شرف تخت ز رفعت نھاد بر زسر چرخ پا
دست دعا بر کشاد پیر فلک از نشاط گفت کہ بادا مدام حکم تو فرماں روا
خواست کہ نامیی کند سال جلوسش رقم بود در آندم لبش پر زثنا
میل دو چشم حسود یک الفش کرد وگفت بادجہان بادشاہ شاہ جہانگیر ما قایلہ وراقم محمد معصوم البکری
آپ نے ١٠٠٩ ھ میں پہلی بار تاریخ سندھ رقم کرنا شروع کی جو ١٠١٤ھ میں مکمل ہوئی ۔تاریخ سندھ کا یہ قدیم معتبر ماخذ١٠١٧ھ میں حبیب اللہ کوریجو نے نقل کیا ۔یہ کتاب تاریخ معصومی کے نام سے معروف ہے ۔اس کے علاوہ ”پنج گنج”،”طب ومفردات نامی ”،فارسی شاعری کے دو دیوان ،رباعیات کا دیوان ،ساقی نامہ آپ کے علمی آثار ہیں۔
میر معصوم علم وادب اور فنون سپہ گری کے ساتھ ساتھ ماہر تعمیرات اور مشاق خطاط بھی تھے ۔ایران وہندوستان کے متعدد مزارات کی تاریخ وکتبہ جات اپنے ہاتھوں رقم کیے۔سید حسام الدین راشدی نے تلاش بسیار کے بعد چوون ٥٤ کتبوں کی نشاندہی کی ہے اور ان کے عکس اپنی کتاب میں محفوظ کیے ہیں ۔ہندوستان ،ایران وافغانستان کے مختلف مقامات پہ مساجد ،مقابر،مزارات ،باغات اور راستوں پر نصب کردہ یہ کتبات فارسی زبان میں ہیں۔
شیخ الاسلام میر صفائی کا مزار اقدس تعمیر کروا کے اس کے ساتھ آپ نے ١٠٠٢ھ بمطابق ١٥٩٣ء ،ایک ٨٤فٹ بلند مینارکی بنیاد رکھی جو١٠١٣ھ مطابق١٦٠٤ ء میں پایہء تکمیل کو پہنچا۔ اس مینار کی کل ٨٤سیڑھیاں ہیںاور اس کی بلندی پر پہنچ کر دریائے سندھ اور قدیم و جدید سکھر کا دلفریب نظارہ ،انتہائی نظر افروز ہے۔مینارے کا افتتاح شہنشاہ جلال الدین اکبر نے کیا ۔یہ مینار سندھ کی تہذیب وتمدن اور تاریخ وثقافت کا انمول اثا ثہ ہے ۔انگریز ناقدین نے مینار کی بناوٹ ،پختگی اور پائیداری کی بہت تعریف کی ہے ۔اس کے علاوہ آپ کے تعمیراتی کارناموں میں عید گاہ روہڑی ،چوکنڈی قبرستان سکھر، آرام محل ،باغ قندہار ،منزل گاہ ،مسجد جہاز نما ،گنبد ستیاسر ،جیسلمیر کی رفاہی عمارت ،مسجد اطاق قندہاربر مزار سید شیر قلندر ،ہشت پہلو گنبد وہفت چاہ عمارت سکھر کتب تاریخ سندھ میں فروزاں ہیں جن میں سے اکثر کا وجود مٹ چکا ہے ۔
حیات دنیا میں ٧٥ سال ضیا پاشی کرکے سادات موسویہ الکاظمیہ ہارونیہ کے یہ انمول چراغ ٦ ذی الحج ١٠١٤ھ مطابق ٤اپریل ١٦٠٦ء راہی ء عدم ہو گئے ۔آپ کے وصال سے سندھ کی علمی ،ادبی اور ثقافتی تاریخ کا ایک سنہرا باب بند ہو گیا ۔ اپنے والد شیخ الاسلام میر صفائی کے پہلو میں دفن ہوئے ۔آپ کا مزار پر انوار سکھر ،سندھ میں مرکز تجلیات ہے اور معصوم شاہ کا مینارہ سکھر کی پہچان ہے۔
میر معصوم آں مہ برج شرف آفتاب شرع ودیں فخر زمن
روز جمعہ سادس ذی الحج گشت عازم جنت بامر ذوالمنن
سال فوتش از خرد جستم بگفت بود نامی صاحب ملک سخن
حضرت سید ابوالحسن علی نیشاپوری،اسی خانوادے کے درخشاں ستارے ہیں۔آپ ، نسب شناس،فقیہہ،جلیل القدر مئورخ اور فن رجال کے عالم تھے۔
شہ ولی، سید، گدائے بوتراب ١٠٧١ھ، سید ابو تراب شاہ گدالاہوری
سید ابوتراب حسینی المعروف شاہ گدا قلندر ،سیدنا ہارون ولایت کی چھبیسویں٢٦ویں پشت میں آتے ہیں۔ آپ ،مغل بادشاہ ہمایوں کے عہد میں شیراز سے لاہور تشریف لائے۔لاہور کے رئوساء و معززین آپ کے خادم ہوئے۔آپ نے مکتب اہلبیت کی تبلیغ میں نمایاں کردار سرانجام دیااور روحانی فیضان طریقت کو عام فرمایا۔ منکسرالمزاج ہونے کے باعث ”شاہ گدا” معروف ہیں۔آپ کے چھ خلفاء طریقت تھے، ١۔شیخ فاضل دہلوی٢۔قاضی محمد لاہوری٣۔شاہ جمال رہتاس٤۔لعل گدا لاہوری٥۔احمد گدا لاہوری٦۔شہباز گدا لاہوری۔٣جون ١٦٦١ء ،عہد اورنگزیب عالمگیر میںواصل بحق ہوئے اور لاہور تکیہ املی والا (ریلوے کالونی )میںمزار اقدس مرجع خلائق ہے۔
شہ گدا سید ولی متقی بندئہ حق خاک پائے بوتراب
”سوختہ”گو سال ترحیلش دگر ١٠٧١ھ شہ ولی، سید، گدائے بوتراب ١٠٧١ھ شیخ الاسلا م سید حسین طوسی دہلوی ،مرشد ِسلطان سکندر لودھی سیدنا ہارون ِولایت شہید ِاصفہان کی عترت ِطاہرہ میں بارہویں پشت میں ایک جلیل القدر بزرگ سید حسین طوسی دہلوی م٩٤٣ ھ تبلیغ ِدین کی خاطر سلطان سکندر لودھی م٧ذیقعد٩٢٣ھ کے عہد حکومت (١٤٨٩تا١٥١٧ء )میںکابطوس مشہد مقدس سے دہلی تشریف لائے ۔سلطان سکندر لودھی آپ سے بے حد عقیدت رکھتے تھے ۔ آپ قطب مینار سے متصل مسجد قُوَّةُ الْاِسْلاَمْ کے امام اور عہد حکومت کے شیخ الاسلام تھے ۔حکومت ِوقت نے وسیع جاگیر اور متعددگائوں آپ کی خدمت پہ وقف کیے ۔آپ کی اولاد ِ اطہار تبلیغ ِدین ِمتین کی خاطر بر صغیر کے اطراف میں پھیل گئی جس میں آپ کی بائیسویں پشت میں ایک خاندان سوہاوہ جملے شہانی (معروف بہ جملانی) تحصیل و ضلع منڈی بہاء الدین میں جلوہ فرما ہوا۔سید حسین طوسی کا مزار ِپرانوار دہلی کہنہ میں قلعہ پتھوار مسجد قُوَّةُ الْاِسْلاَمْ کے جنوبی دروازے کے پاس ”امام ضامن کی بارگاہ ”معروف ومرجع خلائق ہے۔
تحریر: پروفیسر علامہ ظفر اقبال فاروقی
گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی، رسول منڈی بہاء الدین