لاہور (ویب ڈیسک) کل پرسوں صنعتوں کی زبوں حالی پہ لکھے ایک مضمون پر بعض دردمند احباب نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ شاید سی پیک کو امریکی دباؤ پر رول بیک کر دیا گیا ہے۔ یہ مضمون ایسے خدشات کو دور کرنے کی ایک ادنیٰ سی کوشش ہے۔وزیراعظم کے دورہ امریکا کے بعد نامور صحافی محمد اشفاق اپنے ایک خصوصی تجزیے میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ سے خصوصاً یہ تاثر پھیل گیا ہے کہ شاید ہم چین سے دامن چھڑا کر پھر سے امریکا کی گود میں جا بیٹھے ہیں۔ دونوں ہی باتیں غلط ہیں۔ چین نے ہمیں دامن سے نہیں تقریباً گردن سے پکڑ رکھا ہے، اس سے دور جانا اب ہمارے لیے ممکن ہے نہ افورڈیبل۔ ہم امریکا کی گود میں بھی نہیں بیٹھے، چند رعایتوں کی خاطر جو ہمیں چین سے نہیں مل سکتی تھیں، ہم نے امریکا سے افغانستان میں مزید تعاون کرنے کا فیصلہ کیا ہے- یہاں یہ بھی یاد رکھا جائے کہ افغانستان کے معاملے میں چین، روس اور امریکا میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے جس میں اب پاکستان بھی شریک ہے- اس لیے نہ ہم چین سے دور ہوئے ہیں نہ ہی سی پیک کو رول بیک کیا ہے۔2017-18 کے بدترین سیاسی عدم استحکام اور 2018-19 کے نت نئے معاشی تجربات کے باوجود سی پیک پر عملدرآمد جاری ہے- فیز ون 80 فیصد سے زائد مکمل ہو چکا، 20 فیصد تکمیل کے مراحل میں ہے۔ فیز ون میں پاکستان کے روڈ اور انرجی سیکٹر کو اس قابل بنایا جانا تھا کہ وہ فیز ٹو میں کامیابی سے داخل ہو سکے۔ الحمدللہ، یہ ٹارگٹ تقریباً حاصل ہوگیا ہے- مسلم لیگ نون اس کا فل کریڈٹ ڈیزرو کرتی ہے، وہ اسے ملنا چاہئے۔فیز ٹو کی ذمہ داری تحریک انصاف کے کندھوں پر آن پڑی ہے، اور اب تک کم از کم اس معاملے میں اس کی پرفارمنس بھی بری نہیں رہی۔ غلط فہمی اس وجہ سے ہو رہی ہے کہ گزشتہ بجٹ میں کوئی بیس بائیس ارب روپے سی پیک کے تحت کچھ چھوٹے ترقیاتی پروگرامز کیلئے پاکستان نے خرچ کرنا تھے، معاشی دباؤ کی وجہ سے حکومت نے یہ فنڈ دیگر مصارف میں ڈائیورٹ کر دیا۔ بدقسمتی سے اسی فنڈ میں سے خاصی رقم ایم این ایز کو ترقیاتی فنڈز کے نام پر دی گئی، جس کے خان صاحب عمر بھر مخالف رہے تھے۔ مگر اس سے سی پیک کی صحت پہ مجموعی طور پہ کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ نقصان یہ ہوا کہ ایک غلط تاثر پھیل گیا۔سپیشل اکنامک زونز کے معاملے پر حکومت سو فیصد کمٹڈ ہے اور یہی خود حکومت کے بہترین مفاد میں بھی ہے- اب تک کی معاشی کارکردگی کے پیش نظر اب ہمارے لئے امید کی واحد کرن یہ سپیشل اکنامک زونز کا منصوبہ ہی رہ گیا ہے۔ جون میں ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں وزیراعظم نے زونز پر ہونے والی پیشرفت کا جائزہ بھی لیا تھا۔ فیصلہ یہ کیا گیا تھا کہ جون کے آخر تک کم از کم تین زونز کی گراؤنڈ بریکنگ کر دی جائے گی، مگر ایسا ہو نہ پایا۔ سپیشل اکنامک زونز کیلئے جو سپیشل مراعات رکھی گئی ہیں، ان پر نظرثانی کر کے انہیں مزید پرکشش بنایا گیا ہے- جولائی میں اسی معاملے میں چینی انویسٹرز کی مدد کیلئے ایک خصوصی کونسل بنائی گئی ہے جو پاکستانی انڈسٹریلسٹس، انویسٹمنٹ بورڈ اور متعلقہ وزارتوں کے نمائندوں پر مشتمل ہے۔ سپیشل اکنامک زونز کا آج کی تاریخ تک سٹیٹس کچھ یوں ہے، رشکئی سپیشل اکنامک زون،،یہ موٹروے ایم ون کے ساتھ ایک ہزار ایکڑ اراضی پہ مشتمل ہونا ہے۔ اب تک اس زون پر پیشرفت کی رفتار سب سے تیز ہے، زمین ایکوائر کر لی گئی ہے۔ بنیادی سہولیات کی فراہمی کا پروگرام بھی تیار ہے- یہ واحد زون ہے جس کی فزیبلٹی بھی چین سے منظور ہو چکی اور خیبر پختونخوا کے متعلقہ ادارے اور چین کے متعلقہ ادارے کے درمیان معاہدے پر دستخط بھی ہو چکے۔ یہاں ٹیکسٹائل، الیکٹرانکس، بلڈنگ میٹریل کی صنعتوں کے علاوہ سو ایکڑ پہ خیبر پختونخواآئی ٹی سٹی بھی تعمیر کی جائے گی۔ غالباً اگلے ماہ اس کا باقاعدہ آغاز کر دیا جائے گا۔ علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی،،،یہ ایم تھری موٹروے کے ساتھ فیصل آباد میں واقع ہے،تین ہزار ایکڑ اراضی میں سے ستائیس سو ایکڑ حاصل کر لی گئی ہے، اس کی فزیبلٹی چینی اداروں کو بھجوا دی گئی ہے۔ یہاں ٹیکسٹائل، سٹیل، فارما، زرعی آلات و مشینری اور فوڈ پراسیسنگ کے شعبے پاکستان نے تجویز کئے ہیں۔ دھابیجی اکنامک زون،،، اس کیلئے ہزار ایکڑ اراضی ائیر مارک ہو چکی، ایکویزیشن کا عمل شروع،اس کی فزیبلٹی بھی چائنا کے ساتھ شئیر کر دی گئی ہے،یہ تینوں اکنامک زونز تھے جن کا جون میں آغاز تاخیر کا شکار ہوا ہے، مگر امید ہے کہ دو سے تین ماہ میں تینوں کی گراؤنڈ بریکنگ ہو جائے گی۔ ان کے علاوہ بوستان اکنامک زون کوئٹہ کے قریب ہزار ایکڑ پہ مشتمل ہوگا۔ دو سو ایکڑ اراضی ڈویلپ بھی ہو چکی ہے، فزیبلٹی بھی تیار کر کے چین بھیج دی گئی ہے، اسلام آباد اکنامک زون کا بھی پہلے جلد افتتاح کرنے کا اعلان کیا گیا تھا مگر اس کیلئے ابھی جگہ ہی فائنل نہیں ہو سکی۔ حکومت دو سو سے پانچ سو ایکڑ اراضی کی تلاش میں ہے، ممکنہ طور پر ایم ٹو کے آس پاس کوئی جگہ فائنل ہوگی۔انڈسٹریل پارک پورٹ قاسم،،، اہم ترین اس لئے ہے کہ یہ پاکستان سٹیل ملز کی پندرہ سو ایکڑ اراضی پہ بنایا جائے گا۔ سٹیل، آٹو، فارما اور کیمیکل کے شعبوں کیلئے مختص کیا گیا ہے،چینی انویسٹرز اس میں بہت زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں۔ فزیبلٹیز تیار ہیں اور اس کی ڈویلپمنٹ بھی نسبتاً آسان ہوگی۔ اکنامک زون میرپور، 1078 ایکڑ اراضی مختص کر دی گئی ہے، یہ کاٹیج اور سمال سکیل انڈسٹری کیلئے تیار کیا جا رہا ہے،اس کی فزیبلٹی بھی چین کو دیدی گئی ہے۔ مہمند ماربل سٹی،، فاٹا کیلئے یہ پراجیکٹ تجویز کیا گیا ہے مگر اس پہ ابھی نام کے علاوہ عملی قدم کوئی نہیں اٹھایا گیا۔ مقپنداس گلگت اکنامک زون،،،دو سو پچاس ایکڑ اراضی الاٹ کی جا چکی ہے۔ ماربل، گرینائٹ، خام لوہا، فروٹ اینڈ منرل پراسیسنگ اور لیدر انڈسٹری قائم کی جانی ہے۔ چینیوں کی اس میں دلچسپی اس لئے زیادہ ہے کہ وہ اپنی بعض صنعتیں یہاں ری لوکیٹ کرنا چاہ رہے ہیں۔ان تمام زونز میں سرمایہ کاری کرنے والے چینی انویسٹرز یا جوائنٹ وینچرز کو دس سال تک پاکستان میں ڈویلپمنٹ، آپریشن اور مینٹیننس کیلئے درآمد کی جانے والی کیپیٹل گڈز پر کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکسوں سے استثنیٰ حاصل ہوگا۔ یہ بہت بڑی رعایت ہے جو چینیوں کو روڈ اینڈ بیلٹ انیشی اٹیو میں کہیں اور نہیں مل رہی۔ اس کے علاوہ معاہدے پر دستخطوں سے لیکر ڈویلپمنٹ اور آپریشنل سطح تک پہنچنے تک انویسٹرز کی تمام آمدنی انکم ٹیکس سے مستثنیٰ ہو گی۔ یہ مزے بھی چینی بھائیوں کو کہیں اور نہیں ملنے والے۔ ان دو بہت بڑی رعایتوں کے علاوہ جدید ترین انفراسٹرکچر کی فراہمی، متعلقہ صوبائی حکومتوں کی جانب سے خصوصی سکیورٹی، ون ونڈو آپریشن، درخواستوں کی منظوری کا دورانیہ جو پہلے نوے دن تھا، عمران خان کی ہدایت پر پینتالیس دن کر دیا گیا ہے، تنازعات کے حل کیلئے ہر زون کا اپنا مصالحتی یا شکایتی فورم تاکہ مقدمات عدالتوں میں جا کر تاخیر کا شکار نہ ہوں۔ ان سب کیلئے باقاعدہ قانون سازی کی گئی ہے۔ سپیشل اکنامک زونز ایکٹ کے تحت اب حکومت کسی بھی مرحلے پر ان مراعات کو واپس نہیں لے سکتی۔ اس کے علاوہ ان پٹ پر سیلز ٹیکس سے چھوٹ بہت بڑی رعایت ہے جس کا ذکر کرنا میں بھول گیا۔کہنے کا مقصد یہ کہ اتنی زیادہ مراعات ہم دے چکے ہیں اب یہ ناممکن ہے کہ چینی صنعتکار اور انویسٹرز یہاں سرمایہ کاری نہ کریں۔ چینی ان زونز کو دو مقاصد کے تحت دیکھ رہے ہیں۔ ایک وہ صنعتیں جو انہیں اپنے پاکستان سے ملحقہ علاقوں میں مہنگی پڑ رہی ہیں یا پیداوار تو سستی پڑ رہی ہے مگر پراڈکٹس ایسی ہیں جن پر ٹرانسپورٹیشن کاسٹ پڑ کر ان کی برآمدی لاگت زیادہ ہو جاتی ہے، انہیں پاکستان شفٹ کر دیا جائے۔ دوسرا پاکستان کے مقامی صنعتکاروں کے ساتھ مل کر یہاں کی ایگروبیسڈ انڈسٹری کے پوٹینشل کا فائدہ اٹھایا جائے۔ان زونز سے ہماری پہلے سے موجود انڈسٹریل سٹیٹس پر منفی اثر نہ پڑے، اسے یقینی بنانے کیلئے ان اکنامک زونز کو ٹیکسوں سے چھوٹ صرف ایکسپورٹ پر دی گئی ہے۔ مقامی مارکیٹ میں فروخت کی صورت میں انہیں تمام اپلیکیبل ٹیکسز دینا ہوں گے۔ اس کے علاوہ اکنامک زونز کے انڈسٹریل یونٹس اپنے کچھ آپریشنز پرانے انڈسٹریل یونٹس کو آؤٹ سورس بھی کر سکیں گے۔ جوائنٹ وینچر کی صورت میں ہمارے مقامی صنعتکاروں کو ہر لحاظ سے ان زونز کا فائدہ ہی فائدہ ہے۔جن تین انڈسٹریل زونز کا اوپر سب سے پہلے ذکر ہوا صرف ان میں چھ سے سات ارب ڈالر کی براہ راست سرمایہ کاری متوقع ہے، اگلے پانچ سے سات سال میں اگر ہمارے تمام اکنامک زونز فنکشنل ہو جاتے ہیں، یاد رہے کہ گوادر کا اکنامک زون ان میں شامل نہیں ہے، تو یہ 25 سے 30 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی۔ جبکہ اکیلے گوادر کے سپیشل اکنامک زون میں پانچ سے سات ارب ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع ہے۔لگ بھگ 19ارب ڈالرز کے فیز ون میں ہم پہ واجب الادا قرضہ چھ ارب ڈالر ہے،پینتیس سے چالیس ارب ڈالرز کے فیز ٹو میں سو فیصد سرمایہ کاری اور صفر فیصد قرضہ۔ جبکہ ایگریکلچر سیکٹر اسی فیز ٹو کا دوسرا مرحلہ ہے جس پہ ابھی کام جاری ہے۔سی پیک پر چین سے معاہدہ، فیز ون اور فیز ٹو کی تمام تر منصوبہ بندی، اس کیلئے درکار تمام قانون سازی، صوبوں سے اس کی منظوری، چین سے ہر سطح پر کوآرڈی نیشن، ایک ایک پراجیکٹ کی نگرانی، فنڈز کے بلاتاخیر اجرا ء اور فیز ون کی صرف چار سال میں تکمیل یقینی بنانا یہ نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کا اتنا بڑا کارنامہ ہے کہ اس کا اعتراف نہ کرنا محض بخل اور کم ظرفی ہے۔ٹھیک ایک سال پہلے آج ہی کے دن عمران خان نے حلف اٹھایا تھا، میں حتی الامکان غیرجانبدار رہتے ہوئے بھی خان صاحب، ان کی ٹیم، ان کی کابینہ، ان کے مشیروں کی اس ایک سال میں سیاسی، سفارتی، داخلہ، خارجہ، معاشی اور ترقیاتی میدانوں میں کارکردگی دیکھ کر اللہ پاک کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ خان صاحب کو 2013 ء میں اقتدار نہیں ملا تھا۔ ورنہ شاید ہم گیارہ ہزار میگاواٹ بجلی اور بائیس سو کلومیٹر سڑکوں سے بھی محروم رہ گئے ہوتے اور سی پیک خواب و خیال بن چکا ہوتا۔ اس ایک سال میں ان کے حامی کم از کم اتنا تو جان ہی چکے ہوں گے کہ پاکستان جیسے ملک میں باتیں بگھارنا کتنا آسان اور کام کرنا کتنا مشکل ہے۔