تحریر: حسیب اعجاز عاشرؔ
ایک بار پھر پرچم لہرائے جائیں گے، عمارتوں پے شاندارجگ مگ کرتے برقی قمقموں کے سہرے،گھروں میں جھنڈیاں اور سینوں پرجھنڈے سجائے جائیں گے۔ پرئیڈ ہو گی اور بوٹوں کی دھمک سے تن بدن میں ایک نئا ولولہ ہلچل مچائے گا۔مزار قائد پے عقیدت کے گلدستے نچھاور ہونگے۔ سیاسی قائدین کے حب الوطنی سے سرشار پیغامات اخبارات و خبروں کی زینت بنے گے۔ بچوں کے’’جیوے جیوے پاکستان‘‘،’’ہم زندہ قوم ہیں‘‘، ’’یہ وطن تمہارا ہے‘‘ جیسے گنگناتے خوبصورت ملی نغموں سے ہمارا سینا فخر سے تن جائے گا۔’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعروں سے لکھے بینر اُٹھائے اہلیان وطن گزرگاہوں پر دھمال ڈالیں گے۔
ڈھول بجے گے۔ توپیں چلیں گی۔آتش بازیوں سے آسمان چمک اُٹھے گا۔رنگ برنگی خصوصی نشریات سے ٹی وی چنیلز دن بھر وطن سے محبت کا دم بھرتے نظر آئیں گے۔سوشل میڈیا پے بھی دلکش ڈیزان کئے ہوئے انفرادی اور اجتماعی مبارکبادوں کے پیغامات کا بھرپور تبادلہ چلتا رہے گا۔دعوتیں اُڑائیں جائیں گی۔مساجد میں خصوصی دعائیں ہوں گی۔اخبارات،میگزین خصوصی شمارے پر نظر ڈورائیں تو فریضہِ حب الوطنی نبھانے کے لئے اہل قلم بھی میدان میں سب سے آگے ملیں گے ،کسی کا موضوع ہو گا کہ ’’ہم آزاد ہیں‘‘ اور کسی کا ’’کیاہم آزاد ہیں؟؟‘‘، کوئی اپنی تحریر میں قائد اعظم کی جرات کو سلام پیش کرے گا تو کوئی علامہ اقبال کو خراجِ تحسین۔۔گویا ہر کوئی وطن کی بقاء اور ترقی کے لئے ہمہ تن تیار نظر آئیگا۔
کہیں جلسہِ عام میں دھواں دھار تقریریں ہوں گی۔اور کہیں محفلِ خاص میں قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے یہ فرمودات،جو اپنے آپ میں آئین کا درجہ رکھتے ہیں، سبق کی طرح دہرائیں جائیں گے کہ آپ ؒ نے فرمایا۔۔۔’’اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت اور وفاکشی کا مرجع خدا کی ذات ہے ، جس کی تعمیل کا عملی ذریعہ قرآن مجید کے احکام اور اصول ہیں۔اسلام میں اصلاً نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے،نہ پارلیمنٹ کی،نہ کسی شخص اور ادارے کی‘‘۔۔۔۔۔۔۔’’قرآن مجید کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدود متعین کر سکتے ہں۔
دوسرے الفاظ میں اسلامی حکومت قرآن کے اصول و احکام کی حکومت ہے‘‘۔۔۔۔۔۔’’مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہو گا؟ پاکستان کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں۔مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا۔الحمداللہ قرآن مجید ہماری رہنمائی کے لئے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا‘‘۔۔۔۔۔۔’’مسلمان جھکنے کے لئے پیدا نہیں ہوا۔اگر اسے جھکانے کی کوشش کی گئی۔تو بابر بن جائیگا۔یہ ٹیپو سلطان کی صورت میں نمودار ہوگا۔یہ مر جائیگا۔لیکن محکومی قبول نہ کرے گا‘‘۔۔۔۔۔۔’’جدوجہد صرف مسلمانوں ہی کے لئے مخصوص نہیں ہے۔
بلکہ اس کا دسترخوان ہر فرقہ کے لئے بچھا ہوا ہے اور وہ ہر فرقے کے حقوق کے تحفظ کو اپنا فرض اولین سمجھتی ہے‘‘۔۔۔۔۔‘‘میں آپ کو مصروف عمل ہونے کی تاکید کرتا ہوں کام کام اور بس کام۔سکون کی خاطر، صبرو برداشت اور انکساری کے ساتھ اپنی قوم کی سچی خدمت کرتے جائیں‘‘ ۔۔۔۔’’ہم جتنی زیادہ تکلیفیں سہنا اور قربانیاں دینا سیکھیں گے، اتنی ہی زیادہ پاکیزہ ، خالص اور مضبوط قوم کی حثیت سے ابھریں گے جیسے سونا آگے میں تب کر کندن بن جاتا ہے‘‘۔۔۔۔۔’’یہ تلوار جو آپ نے مجھے عنایت کی ہے صرف حفاظت کے لئے اٹھے گی۔لیکن فی الحال جو سب سے ضروری امر ہے وہ تعلیم ہے ۔علم تلوار سے بھی زیادہ طاقتور ہوتا ہے جائیے اور علم حاصل کیجئے‘‘۔۔۔۔’’اگر ہم اس عظیم مملکت پاکستان کو خوش اور خوش حال بناتا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی پوری توجہ لوگوں بالخصوص غریب طبقے کی فلاح و بہبود پر مرکوز کرنی پڑے گی’’۔۔۔۔’’ہمیں کبھی بھی تہذیب و شرافت کو ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔جبکہ ایک موقع پر انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ ہر مسلمان کو دیانتداری ،خلوص اور بے غرضی سے پاکستان کی خدمت کرنی چاہیے‘‘۔۔۔اور بہت کچھ۔۔۔۔
دن بھر خون کو گرما دینے والاایسا خوشگورار احساس ملے گا کہ پاکستان ۱۴ اگست ۱۹۴۷ کو نہیں بلکہ آج آزاد ہوا ہے اورہم نے غلامی کی بیڑیاں توڑ کر آج ہی اِس پاک سر زمین پر اس عزم کے ساتھ قدم جمائے ہیں کہ محمد علی جناح کےِ پاکستان کو حقیقی اسلامی، جمہوری، فلاحی ریاست بنائیں گے۔ ۔۔مگر۔۔۔ایسا نہ ہو کہ اِس بار بھی شام ڈھلتے ہی سب بدلنے لگے۔ قائد ملت کے فرمودات سے ماخوز، اسلام، امید، ہمت ، اتحاد، یقین، منظم، خودمختاری، دیانت داری، خلوص، بے غرضی، اخلاقیات، سچائی، انصاف، علم ،عمل، تہذیب ،شرافت، سادگی، اخوت، بھائی چارہ اور حقوق کے تحفظ کا دہرایا گیا درس رات کی اندھیری چادر میں گم ہونے لگے ۔۔جھنڈے جھنڈیوں کے ساتھ ساتھ جانثاری کا خمار بھی اُترنے لگے ۔،ملی نغموں کا اثر مدھم ہوتے ہی غیر ملکی گیت کانوں میں رس گھولنے لگیں۔ حکمرانوں کے بلند و بانگ دعوے ہوامیں تحلیل ہونے لگے۔
سیاستدانوں کے تیور چڑھنے لگے۔ چینلز پر مغربی یلغار تلے تہذیب مرنے لگے۔ دو قومی نظریہ کا دم گھٹنے لگے۔ اہل قلم پھرموضوعِ وطن و جانثارِ وطن سے ہٹ کر وہی مخصوص موضوعات پر لکھنے لگے اور ٹی وی پروگرامز میں مایہ ناز تبصرہ نگار روایتی انداز میں ایک دوسروں کی پگڑیاں اچھال کر اپنی رینکنگ بڑھانے لگیں۔عشقِ وطن میں دھمال ڈالنے والوں میں وہی نسلی، صوبائی، مسلکی اختلافات سرِبازار رقص کرنے لگے۔کاش اِس جشن آزادی کے روز کانظر آنے والا جذبہ و جنون ہر روز ہم پر طاری رہے تاکہ جن قسموں،وعدوں،ارادوں، دعووں کا اظہار کیا ہے حصولِ منزل کے لئے اُس پر عمل پیرا بھی نظر آئیں ۔۔۔
بات سیدھی سی ہے کہ یہ تبھی ممکن ہے جب ہمیں آزادی کا صیح مفہوم اور اِس کی حقیقی قدر ہو گی اور دل میں وطن سے چاہت اپنے اصل رنگ میں رچ بس جائے گی۔۔۔۔بغیر کسی لمبی تمہید ،الفاظ کے پیچ و خم اور جملوں کے بناؤ سنگھار کے ۔۔چند سطروں میں اختتام پر ہی اکتفا کرونگاکہ دوسرے پر انگلی اُٹھانے سے بہتر ہے اپنے گریبان میں جھانکیں۔۔اوریاد رکھیئے کہ جس دن سے ہم نے اپنے گھر کے باہر سے دوسرے کا کچرا بھی اُٹھانا شروع کر دیا سمجھ لیں کہ ہمارے اندر وطن سے محبت کا پہلا دیپ جل گیا اور جس دن چوراہے کی لال بتی نے ہمیں روک لیا تو یقین جانیئے کہ ہمارے جذبات میں وطن عزیز کے قوانین کی قدر کا دیا بھی روشن ہو گیا ہے۔اور جس دن ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر مکمل سوچ وچاراور احساسِ ذمہ داری کے ساتھ ہم نے اپنے ووٹ کا صیح استعمال کر لیا تویہ تصدیق ہے کہ ہم کو خود سے، آٹھارہ کروڑ عوام سے اور اپنی آنے والی نسلوں سے پیار ہو گیا ہے۔۔۔
تحریر: حسیب اعجاز عاشرؔ
دبئی،متحدہ عرب امارات