نیویارک کے علاقے مینہیٹن میں دہشت گردی کے واقعے میں آٹھ افراد کی ہلاکت کے بعد سوشل میڈیا پر بھی بحث شروع ہو گئی اور ہیش ٹیگ اللہ اکبر ٹوئٹر پر ٹرینڈ کرنے لگا۔ کسی نے اس بات کی مذمت کی کہ دہشتگردی اور اللہ اکبر کو ایک ساتھ جوڑا جا رہا ہے تو کسی نے کہا کہ اس موقع پر اللہ اکبر کو ہیش ٹیگ بنانا ہی غلط ہے۔اطلاعات ہیں کہ حملہ آور سیف اللہ سائپوف نے لوگوں کو ٹرک سے کچلنے کے بعد باہر نکل کر اللہ اکبر کا نعرہ لگایا جس کے بعد ٹوئٹر پر لوگوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ہیش ٹیگ اللہ اکبر کا استعمال شروع کر دیا۔
اللہ اکبر” کی بے حرمتی کا انجام !
ای ڈیپلوریبس ینم نے لکھا کہ ‘ اس نے ایک ٹرک کرائے پر لیا، لوگوں کو کچل دیا اور اللہ اکبر کا نعرہ لگایا، صرف اس لیے اسے اسلامک دہشتگرد حملہ نہیں کہا جا سکتا۔’اس بحث میں امریکہ کی سکیورٹی کے بارے میں بھی بات کی گئی۔ کسی نے صدر ٹرمپ کے اقدامت کی حمایت کی تو کسی نے کہا کہ دہشتگردی کو تارکینِ وطن سے منسوب کرنا درست نہیں ہے۔ہنگری ٹرکر کہتے ہیں ‘ کیا لوگ اب بھی ناراض ہیں کہ ٹرمپ امریکیوں کو اسلامک دہشگردوں سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔’اینٹن کیریڈین نے کہا کہ ‘ اور ہر مسیحی عرب بھی اللہ اکبر کہتا ہے۔ ڈیو، گاٹ، ڈیوس، گڈ، اللہ۔ ایک ہی لفظ۔’
دا مسلم میرین کے نام سے اپنا ٹوئٹر اکاؤنٹ چلانے والے نے لکھا کہ ‘ہر پکا مسلمان دن میں کم از کم 150 مرتبہ اللہ اکبر کہتا ہے۔ یہ وقت دعا اور سوچنے کا ہے۔’ڈاکٹر ڈیبی المونٹیسر نے اظہار خیال کیا کہ ‘میں میڈیا سے کہتی ہوں کہ میرے عقیدے اور زبان کو مجرم قرار دینا بند کریں۔ دہشتگردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ مسلمان دن میں پانچ وقت نماز میں 111 مرتبہ اللہ اکبر کہتے ہیں۔’
ایڈم نے کہا کہ ‘ ایک دہشتگردی کے واقعے پر بحث کے دوران اسے ایک ہیش ٹیگ کے طور پر کیوں استعمال کیا جا رہا ہے۔ اللہ اکبر اور دہشتگردی کو ایک ساتھ جوڑنا بند کیا جائے۔’بلیو لیمن نامی اکاؤنٹ سے کہا گیا ’ کوئی دہشت گرد اکیلا نہیں ہوتا۔ وہ ہمیشہ ایک بیمار اجتماعی نظریات کا حصہ ہوتا ہے۔‘ٹوڈ ڈبلیو ہینز کہتے ہیں ’جب میں سیف اللہ سائپوف کو دیکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ میں آئینے میں دیکھ رہا ہوں۔ وہ بلکل میری طرح ہے۔ صرف دولت اسلامیہ اور اللہ اکبر والا حصہ مختلف ہے۔‘